ممبئی میں آل انڈیا خلافت کمیٹی کے زیر اہتمام 94 سالہ قدیم میلاد جلوس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-15

ممبئی میں آل انڈیا خلافت کمیٹی کے زیر اہتمام 94 سالہ قدیم میلاد جلوس

انسانیت، عدل و انصاف، مساوات، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور آپسی بھائی چارگی۔ امن و اتحاد کے درس اور تعلیمات کو عام کرنے اور انہیں نافذ کرنے کے سلسلے میں جو بڑے بڑے دعوی کئے جارہے ہیں ان باتوں کو 1400 سال قبل حضور مقبول محمدﷺ نے اسلام کی بنیاد قرار دیا تھا اور نہ صرف ان تعلیمات کو پیش کیا بلکہ خود آپؐ نے اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام نے ان تعلیمات پر عمل کرکے اسلام کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں اہم ترین رول ادا کیاہے۔ اگر ان تعلیمات پر نیک نیتی اور خلوص سے عمل کیا جاے تو دنیا کو تشدد، خون خرابے اور مختلف فتنوں سے نجات مل جائے گی۔ آل انڈیا خلافت کمیٹی کے زیر اہتمام عید میلاد النبیؐ کے 94سالہ قدیم روایتی جلوس سے قبل خلافت ہاؤس میں منعقدہ ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے قومی رہنماؤں اور علماء کرام نے اس بات کا اظہار کیا بلکہ اس سے اتفاق بھی کیاکہ انقلاب فرانس اور 1945ء کے اقوام متحدہ کے اتحاد و اتفاق اور مساوات کے تیار کردہ چارٹر بہت بعد کی چیزہے، محمدﷺ نے 1400 سال قبل اسلامی منشور پیش کردیا تھا اور اسے عملی بھی پہنایا گیا۔ آل انڈیا خلاف کمیٹی کے زیر اہتمام عید میلاد النبیؐ کے جلوس سے قبل خلافت ہاوس کے احاطہ میں ایک پرشکوہ اور بارونق جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی اور مرکزی وزیر برائے خارجی امور سلمان خورشید نے کہاکہ نبی کریمؐ نے زندگی کا جو تصور صدیوں قبل پیش کیاہے، اس کی اہمیت اور افادیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، بلکہ آج کے دور میں اس کی ضرورت زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ ہمارے عمل میں کوتاہی ہورہی ہے اور اگر نیک نیتی اور سچائی کا دامن سنبھالتے ہوئے ہم حضورﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں تو کامیابی و کامرانی حاصل ہوگی کیونکہ یہ نبی کریم کا تصور زندگی بہترین لائحہ عمل ہے۔ سلمان خورشید نے مذہب اور سیاست پر اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ بظاہر مذہب اور سیاست کا تعلق نہیں ہونا چاہئے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ سیاست سے اگر مذہب کو نکال دیا جائے تو چنگیزی آجاتی ہے، آپؐ نے جو تعلیمات دیں اور مذہب کے ساتھ سیاست کا جو میل دیکھا گیا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ مذہبی اصولوں و تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے سیاست کی جائے تو ایک بہترین نظام قائم ہوسکتا ہے۔ اور جو لوگ مذہب کو نہیں سمجھتے ہیں انہیں اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ایک سچا مسلمان وہ ہوتا ہے جو اپنی نماز، زکوۃ اور حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنا دل صاف رکھتا ہے اور صحیح طرح سے ایمان میں خود کو ڈھال لیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ ایک اہم ترین بات ہے کہ "مجھے ایک ہندو نوجوان ملنددیورا نے عید میلاد النبیؐ کے اس روایتی جلوس میں شرکت کیلئے مدعو کیا۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ یہ جلوس ممبئی کے عوام کو آپس میں جوڑتا ہے۔ یہاں ڈائس کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کا تہوار اور جلوس نہیں ہے بلکہ سبھی نے اس میں حصہ لیا اور شرکت کی ہے"۔ سلمان خورشید نے کہاکہ خلاف تحریک نے ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کی نئی بنیاد رکھی تھی، یہ صحیح ہے کہ خلاف کا جذبہ ایک حد تک ختم ہوچکا ہے لیکن ہمیں اب چاہئے کہ ایک نئے مقصد اور نئے منصوبے کے تحت ترقی کی راہ پر بڑھنا چاہئے۔ "میں ہمیشہ لب پہ آتی ہے دعاء بن کے تمنا میری؍ زندگی ہو شمع کی صورت خدایا میری" پر تقریر ختم کرتا ہوں۔ آپﷺ نے سب سے پہلے انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا۔ خلافت کمیٹی کے عید میلاد النبیؐ کے جلسہ سیرت سے خطاب کرتے ہوئے مولانا آزاد اردو یونیورسٹی شعبہ اسلامیات کے صدر مولانا ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی نے مدلل انداز میں کہاکہ آج صرف میلاد النبیؐ نہیں بلکہ انسانیت، عدل و انصاف، مساوات اور یکساں حقوق کا یوم میلادہے۔ تاریخ اس بات کا گواہ ہے کہ انقلاب فرانس اور 1945ء میں اقوام متحدہ کے منشور سے تقریباً 1400 سال قبل رحمب العالمین نے اعلان کردیا تھا کہ سارے انسان طر ح برابری کا درجہ رکھتے ہیں جیسے کنگھی کے دانے برابر ہوتے ہیں۔ رسول اﷲؐ کو صرف عرب یا عجم کیلئے نہیں بھیجا گیا بلکہ آپؐ رحمت العالمین بناکر بھیجے گئے تاکہ سارے انسان آپؐ سے فیض اٹھاسکیں۔ مولانا جائسی نے مزید کہاکہ آج انسانی حقوق اور جانوروں کے حقوق کی جو باتیں کی جارہی ہیں اور شور مچایا جاتا ہے، وہ جان لیں کہ حضور مقبولﷺ نے حیوانات کے حقوق کے بارے میں بھی مختلف احکامات جاری کئے ہیں۔ کدھے کو داغ دینے سے لے کر بکری کے بچے کا خیال رکھنے کی تعلیمات بھی احادیث میں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اﷲ تعالیٰ اور اﷲ کے رسولؐ کی تعلیمات اور فرمان میں رحم، صبر و تحمل اور انسانوں کی بھلائی اور ان کے دکھ درد کی تعلیمات دی گئی ہیں۔ جن پر عمل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ مولانا نے فتح مکہ کا واقعہ سناتے ہوئے کہاکہ ہجرت کے آٹھ سال بعد آپؐ جب فاتح بن کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپؐ اور صحابہ کرام پر ظلم کرنے والے کانپ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ رسولؐ نے پوچھا "مجھ سے تم لوگ کیا امید و گمان کرتے ہو"۔ ڈرتے ہوئے قریش مکہ نے کہا کہ "آپؐ ایک اچھے بھائی ہیں اور اچھے بھائی کے بیٹے ہیں، اس لئے بہتری کی امید ہے"۔ رحمت العالمین نے اعلان کیا کہ " میں تمام لوگوں کو آزاد کرتا ہوں"۔ اسی طرح ایک بوڑھی عورت کے ذریعہ آپؐ پر کوڑا ڈالنے کا واقعہ سناتے ہوئے کہاکہ اصحاب رسولؐ نے کہاکہ حضورؐ آپ اس سے بدلہ لیں یا ہمیں کہیں اور نہیں تو اپنا راستہ بدل لیں، آپؐ نے فرمایا کہ میں اپنا راستہ بدلنے نہیں آیا ہوں بلکہ دنیا کا راستہ بدلنے کیلئے آیا ہوں اور دنیا جانتی ہے کہ آپؐ کی وجہہ سے دنیا کا رخ تبدیل ہوگیا"۔ اس سے قبل مقامی ایم پی ملنددیورا اور این سی پی لیڈر نواب ملک نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ملنددیورا نے کہاکہ پیغمبر اسلامؐ ایک سماجی مصلح اور انسانی حقوق کے علمبردار تھے جنہوں نے انسانیت، امن و اتحاد اور بھائی چارگی کا ایسا درس دیا ہے کہ یہ ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ عید میلادالنبیؐ کے اس جلسہ میں سبھی طبقوں اور مذاہب کی نمائندگی ہورہی ہے۔ انہوں نے سیاستدانوں نے کہاکہ ایک بہتر مستقبل اور نوجوانوں کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ ہمیں آج کے دور میں رسولؐ کی تعلیمات کو عوام تک پہنچانا ہے تاکہ لوگوں میں جو بے چینی پائی جاتی ہے وہ ان تعلیمات سے دور ہوسکتی ہیں۔ این سی پی لیڈر اور سابق وزیر نواب ملک نے کہاکہ ہندوستان کی جمہوری حکومت کے آئین میں مساوات، یکساں حقوق اور خواتین کے حقوق اور رنگ و نسل اور بھید بھاؤ سے نجات کی جو تعلیمات دی گئی ہیں۔ انہیں 1400 سال قبل رسولﷺ نے پیش کیا لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ہم انہیں صحیح ڈھنگ سے اپنے ہم وطنوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ خلافت کمیٹی چےئرمین سرفرازآرزو نے استقبالیہ تقریر کی اور سہیل لوکھنڈوالا نے نظامت کرتے ہوئے سیرت النبیؐ پر روشنی ڈالی۔ ممبئی کے مسلم محلے روشن نظر آئے اور جگہ جگہ جلوس کے شرکاء کا استقبال کیاگیا۔ مسلم اکثریتی علاقے نعرہ تکبیر اور نعرہ رسالت سے گونج اٹھے۔ خلافت ہاوس کے جلسہ کے دوران عامر سولنکی نے قائدین اور اہم شخصیات کو فرکی ٹوپیاں پیش کیں۔ تقریب میں پروفیسر جاوید خان، ایم ایل اے امین پٹیل، مدھو چوہان، اشیش شیلار، جاوید جنجیا، آصف زکریا، سابق ایم ایل اے فیاض خان، عوامی وکاس پارٹی کے شمشیر خان پٹھان، ہند فاونڈیشن کے عبدالرحمن ونو، آپ کے مانک گاندھی، سلیم الوارے، حیدر اعظم، این سی پی اقلیتی سیل ایڈوکیٹ جلال الدین شیخ، نسیم صدیقی اور دیگر شخصیات موجود تھیں۔ این سی پی لیڈر اور مرکزی وزیر شرد پوار بھی مہمان خصوصی تھے لیکن نئی دہلی میں ایک اہم ترین میٹنگ کے سبب وہ شریک نہیں ہوسکے۔ اس سے قبل شردپوار 1989ء میں جلوس میں شریک ہوئے تھے بلکہ انہوں نے قیادت کی تھی۔ جلوس کے سب سے پہلے بائیکلہ فروٹ مرچنٹ اسوسی ایشن نے استقبال کیا اور پھولوں سے استقبال کیاگیا۔ عامر ادریسی نے بھی استقبال کیا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں