حیدرآباد - اردو صحافت اور مسلم قیادت میں اتحاد وقت کا اہم تقاضا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-03

حیدرآباد - اردو صحافت اور مسلم قیادت میں اتحاد وقت کا اہم تقاضا

urdu-sahafat-mim
مسلسل طوفانی بارش اورگھٹا ٹوپ اندھیرے کے بعد ہلکی سی دھوپ نکلتی ہے تو ایک اطمینان اور راحت کے ساتھ خوشی کی لہر بھی دوڑ جاتی ہ۔ ایسا ہی کچھ مسرت و طمانیت کا احساس حیدرآباد کے ان مسلمانوں کو بھی ہوا جنہوں نے ایک طویل عرصہ بعد روزنامہ منصف میں مجلسی قائدین کی تقاریر سے متعلق خبر پڑھی۔ یوں تو منصف اور دوسرے اخبارات میں مجلس یا اس کے قائدین سے متعلق خبریں حالیہ عرصہ کے دوران شائع ہوتی رہیں مگر ایک عرصہ بعد اردو قارئین یا مسلمانوں کو یہ خبر نہ صرف غیر جانبدارانہ صحافت کا نمونہ نظر آئی بلکہ اُس میں ایک ڈھکا چھپا پیغام بھی دکھائی دی۔ اتحاد، دوستی، روا داری، دیرینہ تعلقات کی بحالی ۔۔۔۔۔
حیدرآبادکے اردو اخبارات اردو صحاف کی آبرو ہیں۔ مجلس اتحادالمسلمین مسلمانوں اور اردو والوں کی طاقت اور آواز ہے۔ حیدرآبادی مسلمانوں کا ان دونوں سے رشتہ ہے۔ وہ نہ تو ان اخبارات کا مطالعہ ترک کرسکتے ہیں اور نہ ہی مجلس کو ووٹ دینے کی عادت بدل سکتی ہے۔ ایک دور تھا جب ان سب میں اتحاد تھا۔ شیطانی طاقتوں نے جو مسلم اتحاد کا شیرازہ بکھیردینا چاہتے رہے ہیں انہوں نے اس اتحاد کو انتشار میں بدل دیا۔ اخبارات کے مدیران اور مجلسی قیادت میں اتنے اختلافات نہیں رہے ہوں گے جتنے درمیانی لوگوں نے پیدا کئے۔ جو ہوا سو ہو،جو گذر گیا اسے بھلادینا چاہئے، ایک نئے دور کی شروعات ناممکن نہیں۔ یہ سچ ہے کہ مجلس کے جلسوں سے اخبارات کے خلاف بہت کچھ کہا گیا۔ اخبارات میں مجلس اور اس کی قیادت کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا۔ اس کے باوجود ہم اُس نبیﷺ کے امتی ہیں جنہوں نے عفوو درگذر کی تعلیم و تلقین کی۔ سیاست، منصب سے مجلس کے اختلافات کی وجوہات کیا ہیں یا کیا تھیں اس کی تفصیل سے کسی کو بھی دلچسپی نہیں ہے۔ دلچسپی کے ساتھ ساتھ فکر صرف اس بات کی ہے کہ ہماری طاقت، توانائی، وسائل ایک دوسرے کی کردار کشی میں ضائع ہورہے ہیں۔ مجلسی قیادت اور اردو صحافت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ایک دور تھا جب مجلس اتحادالمسلمین کا ترجمان رہنمائے دکن تھا۔
جناب لطیف پاشاہ اور وقار پاشاہ کے والد جناب سید یوسف الدین کے انتقال کے بعد ان کے تعزیتی جلسہ میں قائد ملت بہادر یار جنگ مرحوم نے کمسن پاشاہ برادران کو مسلمانوں کے درمیان پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ رہنمائے دکن ملت کااخبار ہے۔ ہمارا ترجمان ہے۔ اور یہ بچے ہمارا اثاثہ ہیں۔ رہنمائے دکن اور مجلس کے درمیانی دوستی، اختلافات میں تبدیل ہوئی۔ اس کے ذمہ دار وہ عناصر تھے جو دونوں جانب آگ لگاکر اپنی روٹی سینکا کرتے تھے۔ شخصی طورپر لطیف پاشاہ، وقار صاحب اور سالارملت جناب سلطان صلاح الدین اویسی میں اتنے زیادہ اختلافات نہیں تھے مگر درمیانی لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر ان کے درمیان ایسی خلیج پیدا کردی جو دور نہ کی جاسکی۔ جناب زاہد علی خان اور اویسی صاحب مرحوم کے تعلقات مثالی رہے۔ زاہد صاحب دارالسلام ایجوکیشن بورڈ سے وابستہ رہے۔ پھر جب اختلافات پیدا ہوئے تو اس میں بھی شدت پیدا کرنے والے درمیانی لوگ ہی تھے۔ سیاسی رقابت اوراختلافات کے باوجود بیرسٹر اسد الدین اویسی اور جناب زاہد علی خان ایک دو موقعوں پر ایک دوسرے کیلئے اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ بھی کیا ۔ تاہم درمیانی حضرات نے اپنی کم ظرفی سے دونوں کے درمیان خلیج کو اور بڑھایا۔
اس کی ایک مثال ذہن میں اب بھی تازہ ہے۔ قلی قطب شاہ اسٹیڈیم میں قومی کونسل برائے فروع اردو زبان کی کتاب میلے میں بیرسٹر اویسی اور جناب زاہد علی خان ایک ہی شہ نشین پر موجود تھے۔ دونوں نے اپنی تقاریر میں ایک دوسرے کو پورے عزت واحترام کے القاب کے ساتھ مخاطب کیا۔ دوسرے دن روزنامہ سیاست میں بیرسٹر اسد اویسی کی تصویر کے ساتھ مکمل خبر شائع ہوئی۔ تاہم دوسرے اخبارات میں شائع کی گئی خبرمیں جناب زاہد علی خان کا نام اور تصویر شامل نہیں تھی، اگر سیاست کی طرح خبر تصویر شائع ہوتی تو شاید اختلافات آہستہ آہستہ ختم ہوجاتے۔ اسی طرح منصف کے صفحہ اول پر باہمی اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اختلافات کو فراموش کرنے کے متعلق ایک اداریہ صفحہ اول پر شائع کیا یا تھا۔ تاہم اس کے جواب میں جو اداریہ دوسرے اخبار میں شائع ہوا اس سے ایک دوسرے کی طرف بڑھتے ہوئے قدم وہیں رک گئے۔ اس طرح آپسی اختلافات دور کرنے کے بجائے ان میں شدت پیدا کی جاتی رہی جس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ یہ دانستہ طورپر نہیں کی گئی ہوگی۔ 2009ء کے انتخابات کے بعد اردو صحافت بالخصوص، سیاست منصف اور مجلسی قیادت میں فاصلے بڑھتے گئے۔ انتخابی نتائج کے بعد جواں سال قائد اکبر الدین اویسی نے دارالسلام میں منعقدہ جلسہ عام میں اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ اردو اخبارات کے مدیران نے سالار ملت کے انتقال پر شخصی طورپر نہ تو ان کا آخری دیدار کیا اور نہ ہی پرسہ دیا۔ ان کی یہ بات اپنی جگہ واجبی لگتی ہے کہ اگر اردو اخبارات کے مدیران اظہار تعزیت کیلئے شخصی طورپر چلے جاتے تو شاید گلے شکوے اور اختلافات دور ہوجاتے۔
تاہم یہ ایک حققیت ہے کہ سالار ملت کے انتقال سے دو دن پہلے سے مذکورہ دو اخبارات کے بشمول تمام اردو اخبارات میں پوری اہمیت، ادب و احترام کے ساتھ سالار ملت کی صحت سے متعلق خبریں شائع کیں اور انتقال کے بعد دونوں ہی اخبارات نے سالارملت کا ادب و احترام ملحوظ رکھا۔ انتقال 29؍رمضان کو ہوا تھا، ایک دن کے وقفہ سے عیدالفطر تھی۔ اخبارات میں اشتہارات کی بھر مار تھی اس کے باوجودروزنامہ منصف میں سالار ملت کے احترام میں عیدالمبارک کے اشتہارات شائع نہ کرنے کا اعلان کیا جو ایک قابل تحسین اقدام تھا۔ (راقم الحروف نے اس کا شکاگو میں جناب یوسف الدین اویسی کی زیر صدارت منعقدہ تعزیتی جلسہ میں کیا تھا)۔ رہنمائے دکن نے تو اپنے آپ کو غیر جانبدار بنائے رکھا اور اب بھی اس پر قائم ہے۔ اکبر الدین اویسی پر قاتلانہ حملے، ان کے اور بیرسٹر اسد اویسی کی گرفتاری اور اس کے بعد حالات پر بھی اردو صحافت کا رویہ تقریباً بہتر رہا۔ تاہم بعض خبریں ایسی شائع ہوگئیں جو فاصلوں کو کم کرنے میں رکاوٹ بن گئیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق ان خبروں کی اشاعت پر ان اخبارات کے مدیران کو نہ صرف افسوس ہوا بلکہ انہوں نے ان خبروں کے ذمہ دار افراد کی سرزنش بھی کی۔
اب منصف نے مجلس اتحاد المسلمین کی خبریں اور تصاویر کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چنچل گوڑہ جونیر کالج گراونڈ سے مجلسی قائدین نے ملت کے اجتماعی مفاد کیلئے ملی اتحاد کی ضرورت پر زوردیا۔ منصف نے اس پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے تو مجلس کی جانب سے بھی جوابی ردعمل مثبت ہی ہونا چاہئے اور دوسرے اخبارات سے بھی اختلافات ختم ہونا چاہئے۔
یہ سچ ہے کہ مجلس کے پاس خود ایک معیاری اردو روزنامہ ہے۔ پیشہ وارانہ رقابت فطری ہے۔ مگر یہ صحتمندانہ ہونی چاہئے۔ آپس میں مقابلہ محض اس لئے نہ ہوکہ ہمارا بھی اخبار ہے، تمہارا بھی اخبار، بلکہ معیار صحافتی دیانتداری اور ملی خدمات کی بناء پر آپس میں مسابقت کی جانی چاہئے۔ اختلافات رائے تو صحابہ کرامؓ میں بھی رہا۔ اختلاف رائے کے باوجود بھی متحد رہا جاسکتا ہے۔ ہماری منتشر طاقت اور توانائی کا ہر سیاسی جماعت فائدہ اٹھارہی ہے۔ جب ہزاروں دیوتاؤں کو پوجنے والے ذات پات کی بنیاد پر ہزاروں سال سے ایک دوسرے سے نفرت، دشمنی اور تعصب رکھنے والے مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے کیلئے ایک ہوسکتے ہیں تو ایک خدا کے ماننے والے ختم نبوتﷺ پر ایمان رکھنے والے کیوں نہیں ہوسکتے؟
جب ایک رسول پاکﷺ کے گستاخ اور اسلام دشمن فلم پروڈیوسر کے تائب اور مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اسے مسلمانوں نے نہ صرف معاف کردیا بلکہ امام حرمین شریفین حضرت مولانا عبدالرحمن السدیس نے اپنا شایہ تک پہنادیا تو پھر ہم ایک دوسرے کے ساتھ عفو و درگذر کیوں نہیں کرسکتے۔ ہم میں کوئی کسی سے بڑا نہیں، ہماری بڑائی اور عظمت صرف اسی میں ہے کہ ہم خاتم النبینﷺ کے امتی ہیں ورنہ انسان چاہے وہ محلوں میں رہتا ہویا جھونپڑیوں، بادشاہ یا غلام اس کی حقیقت تو قرآن مجید میں بیان کردی گئی ہے:
"انسان کو تو بس ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا گیا ہے"۔
عزت، دولت، شہرت، مقام سب کچھ خالص کائنات کا عطا کردہ ہے جو جب چاہے چھین لے۔ موجودہ حالات میں اتحاد ضروری ہے۔ چن چن کر ان عناصر کو ہماری صفوں سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے جو اتحادکی کوششوں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ مقلب القلوب ہے۔ اس سے دعا ہے کہ ملت کے ہر فرد کے دل میں ایک دوسرے کیلئے محبت اور احترام پیدا کردے، دشمنی، اختلافات ختم ہوجائے ہ ایک جسد خاکی کی طرح متحد اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم ہوجائے۔ ایک بار پھر دشمنوں کے لئے ناقابل تسخیر بن جائے۔ آمین

بشکریہ : گواہ اردو ویکلی (10/ تا 16/ جنوری 2014)
***
gawahurduweekly[@]gmail.com
فون : 040-24741243
No.30, 2nd Floor, Bachelor Building, M.J. Market, Hyderabad. 500001.
سید فاضل حسین پرویز

The demand of coalition between hyderabad urdu journalism & muslim leadership. Article: Syed Fazil Hussain Parvez

1 تبصرہ: