حق تعلیم - 1.13 لاکھ کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود خامیاں برقرار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-06

حق تعلیم - 1.13 لاکھ کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود خامیاں برقرار

6 سے 14 برس کے بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم کا حق ( آر ٹی ای) قانون نافذکئے جانے کے بعد گذشتہ 3 سال کے دوران پورے ملک میں 1.13 لاکھ کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ہیں لیکن اسکولوں میں اساتذہ کی دستیابی، محروم طبقہ کے بچوں کیلئے 25 فیصد سیٹوں کا ریزرویشن، کمزور وبچوں کا پڑھائی کے موقع مہیا کرانے کے معاملے میں خامیوں کو اب ابھی دور نہیں کیا جاسکا ہے۔ آر ٹی ای نافذ کرنے پر ملک بھر میں کل خرچ اور مستفیدین کی تعداد پر غور کیا جائے تو 2010-11 میں یہ رقم فی طالب علم 2861 روپئے ہوگئی۔ آر ٹی ای کے تحت وزارت فروغ انسانی وسائل کے اسکولی تعلیم و خواندگی محکمہ سے انسانی وسائل کے اسکولی تعلیم وخواندگی محکمہ سے موصولہ اطلاع کے مطابق 2010-11 میں آر ٹی ای کی مد میں ملک بھر میں 37.24 ہزار کروڑ روپئے میا کرائے گئے جس میں سے 31.35 ہزار کروڑ روپئے خرچ ہوئے۔ اس مدت میں آر ٹی ای کے مستفیدین کی تعداد 13کروڑ 89ہزار 841تھی۔ اسپاٹک سوسائٹی آف انڈیا کی سربراہ اور قومی تعلیمی صلاح کار کونسل کی رکن رہی متھوالور نے کہاکہ منصوبوں اور بجٹ میں کمزور بچوں کی تشریح کو پوری طرح سے واضح کئے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ کئی بار یہ پہلو واضح نہ ہونے سے مستفیدین کو مناسب فائدہ نہیں مل پاتا۔ کمزور بچوں کے سلسلے میں اساتذہ کو تربیت دینے اور بچوں کی ضرورتوں کے بارے میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ 2011-12 میں آر ٹی ای کی مد میں ملک بھر میں 42.43 ہزار کروڑ روپئے خرچ ہوئے۔ اس مدت میں آر ٹی ای کے مستفدین کی تعداد 12کروڑ 93لاکھ 95ہزار 848 تھی۔ آر ٹی آئی کے تحت موصولہ اطلاعات کے مطابق 2012-13 میں آر ٹی ای کی مد میں ملک بھر میں 47.96 ہزار کروڑ روپئے مہیا کرائے گئے جس میں سے 44.08 ہزار کروڑ روپئے خرچ ہوئے۔ ابھی حق تعلیم قانون پر عمل کیلئے ہونے والے اخراجات کی حصہ داری مرکز اور ریاست کے درمیان 68:32 کے تناسب میں ہوتی ہے۔ شمال مشرق کی ریاستوں کیلئے یہ تناسب 90:10 ہے۔ مراد آباد کے آر ٹی آئی کارکن سلیم بیگ نے وزارت برائے فروغ انسانی وسائل سے حق تعلیم قانون نافذ ہونے کے بعد اب تک ملک میں اس پر ہونے والے کل اخراجات، منظور شدہ بجٹ، مستفیدین کی تعداد وغیرہ کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ وزارت فروغ انسانی وسائل کے اعداد و شمار کے مطابق حق تعلیم قانون نافذ ہونے کے 3سال بعد ملک میں اب بھی اساتذہ کی 11.87 لاکھ خالی اسامیوں میں نصف بہار، بنگال اور اترپردیش کا حصہ 52.29 فیصد ہے۔ بہار میں اساتذہ کی 2.60 لاکھ اسامیاں خالی ہیں جبکہ 6سے 14 برس کے بچوں کو مفت و لازمی تعلیم کا حق دینے کی پیشرفت کے تحت بہار میں اساتذہ کی 5.93لاکھ اسامیاں منظور کی گئی ہیں۔ ریاست میں اب بھی 49.14 فیصد اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیوں کے لئے الگ بیت الخلاء نہیں ہیں۔ اترپردیش میں اساتذہ کی 3.06 لاکھ اسامیاں خالی ہیں جبکہ حق تعلیم قانون کے تحت 8.17 لاکھ اسامیاں منظور کی گئیں۔ ریاست میں 81.07 لاکھ اسامیاں منظور کی گئیں۔ ریاست میں 81.07فیصد اسکول ایسے ہیں جہاں لڑکے اور لڑکیوں کیلئے الگ بیت الخلا کی سہولت نہیں ہے۔ آر ٹی ای کی دفعہ 28 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ٹیچر کو پرائیوٹ ٹیونش یا نجی تعلیمی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہونا چاہئے لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسکولوں میں پرائیوٹ ٹیوشن کا کاروبار مسلسل چل رہا ہے اور ایک پارلیمانی کمیٹی اس چلن پر شدید تشویش ظاہر کرچکی ہے جو ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب بھی مختلف منصوبوں کا فائدہ حاصل کرنے کیلئے انکم سرٹیفکٹ کے ساتھ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی سرٹیفکٹ، لاچاری سرٹیفکٹ، یتیم بچوں کے سرٹیفکٹ وغیرہ حاصل کرنے کیلئے اہل اتھاریٹی کی وضاحت نہ ہونے کے سبب بچوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

errors in implementing RTE Act

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں