مغلیہ پکوانوں کا جادو - پرانی دہلی کے باورچیوں کے ہاتھ میں برقرار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-08

مغلیہ پکوانوں کا جادو - پرانی دہلی کے باورچیوں کے ہاتھ میں برقرار

delhi-Old-city-bawarchis
جب ہم کسی عالیشان ریسٹورنٹ کے ذائقہ دار کھانوں کی بات کرتے ہیں تو وہاں کے باورچی کا بھی ذکر ضرور ہوتاہے۔ دہلی کے قدیم گلی کوچوں میں لذت بخش غذائیں نوش کرنے کے باوجود ہم میں سے شائد چند ہی افراد پکوان کا جادو جگانے والے ان روایتی خانساماؤں یا باورچیوں سے واقف ہوں گے۔ پرانی دہلی وہ علاقہ ہے جہاں ابھی بھی مغلیہ دور کے کئی باورچی پائے جاتے ہیں اور کئی لذیذ ڈشیں یہیں ایجاد ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود غذاؤں کے شوقین افراد یہاں کے باورچیوں سے نا واقف ہیں جبکہ پانچ ستارہ ہوٹلوں یا مہنگی ریسٹورنٹس میں اپیرن پہنے ہوئے ان کے ہم منصب سرخیوں میں چھائے رہتے ہیں۔ یہاں کوئی شاندار تندور یا مناسب کچن نہیں ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پرانی دلی کے باورچی ابھی بھی قدیم دور میں زندگی گذار رہے ہیں۔ وہ عام طورپر سڑک کنارے لکڑی کے چولہوں پر پکوان کرتے ہیں۔ ان میں سے چند نے گیس اسٹو استعمال کرنا شروع کئے ہیں لیکن پکوان گیس سلنڈروں کی قلت کی وجہہ سے انہیں اکثر لکڑی کے چولہے ہی استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ یہ باورچی صرف آرڈر پر پکوان کرتے ہیں۔ ترکمان گیٹ کے قریب پرانی دلی کے ایک محلہ میں قدیم ترین باورچی خاندان مقیم ہیں۔ بہرحال ان کی جڑوں کا پتہ چلانا دشوار ہے کیونکہ ان میں سب سے معمر باورچی کو بھی یہ یاد نہیں کہ وہ کتنی پشتوں سے اس پیشہ سے وابستہ ہیں۔ ایک بات تو یقیے ہے کہ وہ کئی صدیوں سے یہی کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ 70 سالہ محمد یامین نے پیاز چھیلتے ہوئے بتایا "میں نے یہ فن اپنے والد سے سیکھا ہے جب کہ انہوں نے والد سے سیکھا تھا۔ میں صرف اتنا ہی جانتا ہوں"۔ کچھ ہی فاصلہ پر ان کے پانچ بیٹے جو اسی پیشہ سے منسلک ہیں دوسر کام انجام دینے میں مصروف ہیں۔ یامین نے کبھی انہیں اسکول بھیجنے کی فکر نہیں کی۔ ان باورچیوں کو اگر فکر ہے تو صرف اپنی پکوان کی ترکیبوں اور ان میں استعمال کئے جانے واے مسالوں کی ہے۔ وہ اپنی جان سے زیادہ پکوان کی ترکیبوں کی حفاظت کرتے ہیں اور یہی وجہہ ہے کہ وہ خاندان کے باہر کے کسی شخص کو کام نہیں رکھتے ہیں۔ اگر کبھی کسی وجہہ سے ایسا کرنا پڑے تو وہ باہر والوں کو اپنے پکوان میں استعمال کئے جانے والے مصالحوں سے دور رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس پیشہ میں برقرار رہنے اور اپنے کھانوں کے ذائقہ کو برقرار رکھنے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ یامین کے ایک رشتہ دار حاجی بشیر نے جو یہاں شید و نہاری کی دکان چلاتے ہیں، کہا "سب مصالحوں کا ہی کھیل ہے"۔ یہاں کے باورچیوں نے کئی قسم کی ڈشیں جیسے سفید قورمہ اور سبز قورمہ ایجاد کی ہیں۔ تفتان، رومالی روٹی اور پراٹھا تو عام چیز ہیں جب کہ ڈسکوروٹی، مینار اور بلبل روٹی سے شائد ہی کوئی واقف ہو۔ یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ یہ ڈشیں کس نے اور کب ایجادکی ہیں۔ ایک اور باورچی 60 سالہ محمد سلیم نے بتایاکہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ڈشیں کس نے ایجاد کی تھیں لیکن یہ کافی مقبول ہیں۔ ہم صرف آرڈر پر یہ اشیاء تیار کرتے ہیں لیکن مجھ سے ان کی ترکیب کے بارے میں نہ پوچھیں۔ میں یہ آپ کو یہ نہیں بتاؤں گا۔ ہم قورمہ اور بریانی پکانے 200روپئے فی کیلو چارج کرتے ہیں۔ گاہک کو ہی مصالحہ، لکڑی اور دیگر سازوسامان فراہم کرنا پڑتا ہے۔

Old city's bawarchis keep alive Mughlai culinary magic

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں