عام آدمی پارٹی کے دور حکومت میں دہلی اردو اکادمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-27

عام آدمی پارٹی کے دور حکومت میں دہلی اردو اکادمی

delhi urdu academy
لبرالائزیشن کی ابتداء کے بعد گذشتہ 22 برسوں میں ہندوستان میں زندگی کا ہر شعبہ شکست و ریخت کے اندوہناک عمل سے گزر کر ایک نئے دور میں کچھ ایسے داخل ہوا کہ لبرالائزیشن کے مثبت اور منفی اثرات زندگی کا جزو لازم بن چکے ہیں، جن سے فرار کی اب کوئی راہ نہیں۔
اردو کے کثیر الجہات زاویوں پر بھی لبرالائزیشن نے اپنے فیصلہ کن اثرات مرتب کئے ہیں اور لبرالائزیشن اب جدید تر طرز حیات کا دوسرا نام ہے۔ دلچسپ طور پر اگر کسی شعبے نے خود کو اس سے اچھوت بناے رکھا تو وہ اردو کے سرکاری ادارے، یونیورسٹیوں سے ملحق کالجوں میں برسرکار اردو اساتذہ اور خود یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کے اساتذہ ہیں جن کا طرز فکر اور اردو کے تئیں ان کے خیالات عہد وسطی کے خیالات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں معلوم ہوتے، اسی لئے اردو کو زندگی کی زبان بنانے، اسے نئے طرز زندگی سے ہم آہنگ کرنے کے بارے میں ان کی اکثریت نے کبھی سوچا ہی نہیں۔
اردو کے سرکاری اداروں پر چونکہ اردو کے اساتذہ خصوصاً یونیورسٹیوں میں برسرکار لیکچرر، ریڈر اور پروفیسر حضرات کا تسلط رہا اور ان کے مشوروں سے گذشتہ چار دہائیوں میں اردو کے فروغ کی سرکاری پالیسیاں وضع ہوئیں، اس لئے اردو کے سرکاری اداروں کے ذریعہ عجیب و غریب پالیسیوں کے توسل سے اردو کے زوال کی رفتار تیز تر ہوئی۔
لبرالائزیشن کے بعد جس کا فطری اثر انفارمیشن ٹکنالوجی کی شکل میں گذشتہ 22 برسوں میں اگر اردو کے سماجی منظر نامے پر مختلف طریقوں سے نمایاں ہوا تو اس کا تمام تر کریڈٹ اردو کے اخبارات کو جاتا ہے، جنہوں نے اخبار کو جدید تکنیک سے ہم آہنگ کرنے میں ذرا بھی تکلف نہیں کیا، اسی لئے اردو صحافت ہر طرح سے صحت مند اقدار کی امین ہوئی اور تقریباً ہر اخبار اپنے انٹرنیٹ ایڈیشنز کی مدد سے اردو قاری کے ذہن کی ساخت کی تشکیل میں مثبت رول ادا کررہا ہے۔

اردو کے سرکاری اداروں کو بھی وقت کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہوکر خود کو اس طرح بدلنا چاہئے کہ ان کے طرز فکر، طریق کار اور ان کے ذریعہ حکومت کو اردو کے فروغ کے ذیل میں دئیے جانے والے مشورے معاصر زندگی سے مطابقت رکھتے ہوں۔ بلاشبہ اردو کے سرکاری اداروں نے اب تک یہ کام جزوی طورپر بھی نہیں کیا۔
گذشتہ صوبائی انتخابات میں تین صوبوں راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں چونکہ بی جے پی کی حکومت قائم ہو گئی ہے اس لئے وہاں اردو کے ذیل میں کسی مثبت اردو پالیسی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ لے دے کہ رہ گئی دہلی اردو اکادمی جو تقریباً 29 برسوں میں صوبائی حکومت کی اردو کے تئیں پالیسیوں کا مرکز ہے۔
اردو کے ساتھ سب سے زیادتی شیلا ڈکشت کے دور میں ہوئی جس میں ایسے اراکین کو تشکیل نو کے ہر مرحلے پر اکادمی کے اراکین کے طور پر شامل کر کے ان کے گلے میں دانشوری کا "طوق" ڈال دیا گیا جن کا اردو سے کچھ تعلق نہیں تھا۔ دہلی اردو اکادمی بننے کے بعد لال قلعے کے تاریخی مشاعرے کے نظم کی ذمہ داری بھی دہلی اردو اکادمی کے سپرد ہوئی اور شاعروں کے انتخاب میں اکادمی کے اراکین کی رائے فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئی جس کے نتیجے میں اب اس مشاعرے کی قطعی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔ اس مشاعرے میں شرکت کرنے والے شاعروں میں اکثریت غیر معیاری شاعروں کی ہوتی ہے۔
گذشتہ تقریباً 20 برسوں میں اردو اکادمی کو محض تین لائق نائب صدر (دہلی اردو اکادمی کا صدرنشین بہ اعتبار عہدہ وزیر اعلیٰ ہوتا ہے) اور دو سکریٹری میسر آئے۔ اکادمی کے پہلے سکریٹری جناب شریف الحسن نقوی تھے جن کے بے پناہ انتظامی تجربے اور اردو کے مسائل کے رگ و ریشے سے ان کی واقفیت نے اردو مخالف پالیسی کی تمام تر حد بندیوں کے باوصف دہلی اردو اکادمی کو ابتدائی برسوں میں مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ بعد میں وہ اکادمی کے نائب صدر بھی رہے۔
دوسرے اہم نائب صدر مشہور صحافی اور سیاستداں م۔افضل تھے جن کی اردو دوستی اور اردو کے ہر جہات سے ان کی واقفیت کا ہر شخص قائل ہے اور تیسرے اہم نائب صدر جناب اختر الواسع تھے جو نہ صرف اپنی بات کہنے کا حوصلہ رکھتے تھے بلکہ بات کو کسی طرح کیا جائے اس کا اختر الواسع سے بہتر سلیقہ کم ہی لوگوں کو ہوگا۔
بی جے پی نے اپنے دور حکومت میں اردو کے اہم ترین شاعر مخمور سعیدی مرحوم کو بھی اکادمی کا سکریٹری بنا دیا تھا۔ دہلی اردو اکادمی کے انتظامی امور میں سکریٹری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دہلی اردو اکادمی میں دہلی حکومت چھانٹ چھانٹ کر بھانت بھانت کے ایسے سکریٹری لائی جن کا اردو سے صرف اتنا واسطہ تھا کہ وہ مسلمان تھے اور جب انہیں اکادمی کا سکریٹری بنایا گیا تو وہ بیس تیس برسوں کی نوکری کے بعد سیکشن آفیسر، ایڈمنسٹریٹو آفیسر یا پھر انڈر سکریٹری وغیرہ ہوگئے تھے۔
اکادمی کی خوش قسمتی کہ خدا خدا کرکے ان کے عہدہ برآ ہونے کے بعد انیس اعظمی جیسے فعال منتظم اور ڈرامے کے صف اول کے نباض، اکادمی میں جانے کیسے سکریٹری بنا دئیے گئے۔ اخترالواسع کے ساتھ انیس اعظمی نے اردو اکادمی کے مکمل طور پر چرمرا گئے ڈھانچے کو بہت حد تک تو سنبھالا، مگر شیلا ڈکشت نے جن کانگریسی رضاکاروں کی بھرتی بحیثیت اراکین کردی تھی ان سے نبرد آزما ہونا ان حضرات کیلئے بھی ممکن نہ ہوا۔

عام آدمی پارٹی کی حکومت آنے کے بعد اخترالواسع نے اخلاقیات کا ثبوت دیتے ہوئے نائب صدر عہدے سے اس لئے استعفیٰ دے دیا کیونکہ ان کا تقرر شیلا ڈکشت نے کیا تھا۔ اس کی جبکہ کوئی ضرورت اس لئے نہیں تھی کہ اخترالواسع اپنی دانشورانہ حیثیت کی وجہہ سے نائب صدر بنے تھے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جن کا تقرر خالص سیاسی بنیادوں پر اور بغیر کسی صلاحیت کے کیا گیا تھا، ابھی تک اکادمی میں جمے ہوئے ہیں۔
اکادمی کے اراکین کے تقرر میں دہلی کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی نمائندگی بھی ہوتی ہے۔ دہلی حکومت نے اس کا آسان طریقہ یہ نکالا کہ عموماً تمام یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو کے صدور کو دہلی اردو اکادمی کا رکن نامزد کردیا ہے جس کے نتیجے میں دوسرے اہل اساتذہ اکادمی میں شعبے کی نمائندگی نہیں کر پاتے۔
عام آدمی پارٹی میں اردو دانشور نہیں کے برابر ہیں اور پارٹی لیڈر شپ کو اردو مسائل کی کوئی فہم بھی فطری طورپر نہیں۔ یہ بھی قطعی ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ کو یہ پتا ہی نہ ہو کہ دہلی اردو اکادمی نام کا کوئی ایسا ادارہ بھی ہے جسے دہلی کی تہذیب اور اس کے ثقافتی ورثے کی حفاظت کیلئے قائم کیا گیا تھا۔

دہلی کا تہذیبی و ثقافتی ورثہ صرف دہلی کے مسلمانوں کی وارثت نہیں، بلکہ اس میں یہاں کے ہندوؤں کا رول اگر مسلمانوں سے زیادہ نہیں تو کسی بھی طرح کم بھی نہیں ہے۔ اغلب ہے کہ وزیراعلیٰ اروند کجریوال کے ذہن میں اگر اردو کا کوئی تصور ہوتا تو وہ شعر و شاعری کے کسی ادارے کا۔ ایسے میں اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ اردو کے کسی کمار وشواس کو اکادمی کا نائب صدر نامزد نہ کر دیں۔
اکادمی کا قبلہ درست کرنے کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو اکادمی کے آئین کو تبدیل کیا جائے اور اس میں اردو مشاعرے اور دہلی کی صحیح معنوں میں مشترکہ تہذیب کے نمائندوں کی وافر تعداد میں شرکت ہو اور اسی نسبت سے دہلی اردو اکادمی اپنا دائرہ کار بھی وضع کرے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ دہلی اردو اکادمی دہلی کی ثقافت کے تحفظ کے نام پر کچھ قدیم کتابوں کی ناشر اور ان کی کتب فروش بن کر نہ رہ جائے بلکہ ہندی اور انگریزی کے ناشروں کے تعاون سے ان کتابوں کا ترجمہ کرا کر اس ذخیرے کو لوگوں تک پہنچائے جنہیں اکادمی شائع کرچکی ہے۔

ایسے وقت میں جب ہندوستان میں قدیم تہذیب و ثقافت خصوصاً 1857ء تک کے دہلی کے تاریخی و ثقافتی ورثے میں مقتدر مورخیں اور کلچر سے دلچسپی رکھنے والے معتبر ناقدین کی دلچسپی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2008ء میں 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے 150 سال کا جشن ملکی پیمانے پر منایا گیا جس میں شائع ہونے والی کتب کا بہت کچھ خود تعلق دہلی سے تھا اور جن میں سے متعدد کتابیں خود دہلی اردو اکادمی نے شروع کے برسوں میں شائع بھی کی تھیں۔
اردو اکادمی نے 150 برس کی تقریبات کے موقع پر اپنی کتابوں کو ہندی اور انگریزی میں شائع کرا کر انہیں وسیع تر حلقہ قارئین تک پہنچانے اور خود ملک کی توجہ اکادمی کی طرف مبذول کرنے کی کوئی مسکت کوشش اس وقت میں بھی نہیں کی جب بڑے سے بڑا ناشر ایسی کتابوں کی تلاش میں چراغ لے کر دہلی شہر کی خاک چھان رہا تھا جنہیں اردو اکادمی بہت پہلے شائع کرچکی تھی۔

امید ہے کہ عام آدمی پارٹی اپنی ترجیحی فہرست میں اردو اکادمی کی تشکیل نو، وسیع تر مشاورت اور اس کے آئین میں ترمیم کے بعد ہی کرے گی۔ فارسی کے ایک مشہور شعر کا مطلب کچھ یوں ہے کہ نئی عمارت کی تعمیر کیلئے پرانی عمارت کی بنیادوں کو منہدم کرنا ضروری ہے جو عام آدمی پارٹی نے سیاسی سطح پر کیا ہے، یہی کام وہ اگر دہلی میں اردو سے متعلق پالیسیوں کے ذیل میں بھی کرے تو امید ہے کہ یہ اردو کے ذیل میں اس کا اہم اور ناقابل فراموش کارنامہ ہوگا۔

Urdu Academy of Delhi in the reign of AAP

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں