Sunlight On a Broken Column - by: Attia Hosain
عطیہ حسین کی شاہ کار تخلیق Sunlight On a Broken Column جس کا ترجمہ انتظار حسین نے "شکستہ ستون پر دھوپ" کے عنوان سے کیا ہے کو اپنی اشاعت کے فوراً بعد ہی انگریزی ادب میں جدید کلاسک کا درجہ مل گیا تھا۔ یہ ناول پہلی بار 1961ء میں شائع ہوا تھا اور اس کے بعد سے اس کی مسلسل اشاعتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کچھ برس پہلے جب پینگوئن نے Modern Classics کا گیٹ اپ تبدیل کیا اور بہت سی پرانی کتابوں کی اشاعت کی تو اس ناول کا بھی گیٹ اپ تبدیل ہوگیا اور اب یہ واقعی کلاسک لگنے لگا۔ 2013 عطیہ حسین کی پیدائش کا سواں برس ہے مگر اس پرے برس کسی کو عطیہ حسین کی یاد نہیں آئی جب کہ اودھ کے تعلقہ دار نظام پر انگریزی میں اس پاے کی شاید ہی کوئی اور تحریر ہو۔ عطیہ حسین اودھ کے اس دبستان سے تعلق رکھتی تھیں، جن کے اجداد کا ماضی ہر طرح سے عظیم الشان تھا اور خود انہوں نے بھی 34 برس (1913 تا1947) ہر طرح کی آسودگی میں گزارے مگر جب اودھ کے اشرافیہ معاشرے کی غیر دور اندیشی کے سبب آزادی کے بعد پیدا شدہ حالات کی سفاکی سے ان کا سابقہ پڑا تو اپنے ہی طبقے کے دیگر بہت سے لوگوں کے برعکس انہوں نے پاکستان ہجرت کرنے کے بجائے انگلستان میں قیام کو اس لئے ترجیح دی، کیونکہ وہ نیشنلسٹ تھیں۔ لندن میں عرصہ دراز تک بی بی سی سے وابستہ رہیں اور 1998ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس کے باوجود کہ ان کی اسکول اور کالج کی تعلیم سراسر انگریزی اور انگریزوں کے طرز پر ہوئی تھی، انہیں اردو، فارسی اور عربی پر عبورتھا اور اپنی جدید ہندوستانی مسلمان کی شناخت انہیں عزیز تر تھی۔ ناول میں پیش کیا گیا زمانہ 1930 ء کے آس پاس کا ہے جس کے اہم کرداروں میں لیلیٰ ، حامد، ان کی بیگم سائرہ کے علاوہ ان کے دو بیٹے مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔ تعلقہ دار خاندان کے حامد نے اپنے والد کی مرضی کے خلاف آئی سی ایس جوائن کی اور ان کے انتقال کے بعد وہ ناول کا مرکزی کردار بن جاتے ہیں۔ دوسرے تعلقہ داروں کی طرح حامد اور ان کی اہلیہ کو آزادی اور اس کے اثرات مابعد کا کوئی اندازہ اس کے باوفصف نہ تھا کہ انہوں نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت انتخابات میں حصہ لیا، مگر وہ یہ اندازہ نہ کرسکے کہ ایک دن انتخابات میں شمولیت کی اجازت ہر ہندوستانی کو مل جائے گی۔ ناول میں اس دور کی کشمکش کی بہترین عکاسی کی گئی ہے جس مے فرقہ واریت ہی نہیں فرقہ واریت سے نفرت کرنے والے بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ دلچسپ کردار انکل حامد کے دو بیٹوں کا ہے جن میں سے ایک فرقہ پرست نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے مفادات کی خاطر مسلم لیگ میں شامل ہوجاتا ہے اور دوسرا سول سروسز میں رہتے ہوئے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ آزادی کے پانچ برس بعد ناول کے تمام کردار ایک مرتبہ پھر ملتے ہیں۔ انکل حامد کی بیوی سائرہ ابھی تک تبدیل شدہ حالات کو قبول نہیں کرپائی ہیں۔ لیلیٰ جب اس مکان نما حویلی میں جاتی ہے جو 1930ء کے آس پاس بھری پری تھی، مگر اب وہاں نئے مکین آباد ہوگئے ہیں جو عام لوگ ہیں تو اسے تعجب نہیں افسوس ہوتاہے۔ یہ لوگ حویلی کے اس حصے میں آباد ہوئے ہیں جو انکل حامد کے اس بیٹے کا حصہ تھی جو پاکستان چلا گیا اور اس کے حصے کی تمام جائیداد Evacuee Property(دشمن کی ملکیت) کے زمرے مے آگئی۔ لیلیٰ نے اپنی پسند سے شادی کی تھی مگر اس کا شوہر ہندوستان کے سپاہی کے طورپر شہید ہوچکا اور اب وہ اپنے بچے کے ساتھ پہاڑوں میں زندگی گزار رہی تھی۔ حویلی میں لیلیٰ کی آمد اس بات کا اعلامیہ ہے کہ حویلی کی تباہی جو اشرافیہ طبقے کے زوال کا استعارہ بن چکی تھی۔ اشرافیہ زندگی کا طرز حیات چوں کہ آسودگی کا زائیدہ تھا اس لئے سست رفتاری اور اس کے خلقیے میں تھی جب کہ آزادی کے بعد زندگی جس جدوجہد سے عبارت ہوئی، اس میں ہزاروں برسوں سے معاشی طورپر پسماندہ رہے طبقات کیلئے ایک خوشگوار زندگی کی بشارت تھی جس نے لیلیٰ کی حویلی کی سماجیات ہی بدل کر رکھ دی تھی مگر اس کیلئے سائرہ کی طرح خوشگوار ماضی گلے میں پڑے ہوئے مردہ سانپ کی طرح نہ تھا۔ ناول جیسا کہ میں نے عرض کیا، مرحوم لکھنؤ اور اودھ ہی نہیں بلکہ آزادی کی جدوجہد کی غیر معمولی فن کارانہ چابک دستی کے ساتھ کی گئی پیش کش ہے اور لکھنؤ پر متعدد اور بہت اچھی کتابوں کے منظر عام پر آنے کے باوجود عطیہ حسین کی ناول کی دل کشی اب بھی برقرار ہے جو بہت کم تخلیقی تحریروں کے حصے میں آتی ہے۔ خصوصاً ہندوستان کے انگریزی تخلیق کاروں کے حصے میں ایسی مقبولیت کبھی نہیں آتی۔ ہر چند کہ اصل ناول انگریزی میں ہے مگر یہ مکمل طورپر ان ہی موضوعات کا احاطہ کرتا ہے جو تقسیم یا اس کے آس پاس کے حالات کا احاطہ کرنے والی دیگر تخلیقی تحریروں کا موضوع ہیں۔ مثلاً قرۃ العین حیدر کا شہرہ آفاق ناول "آگ کا دریا" مگر عطیہ حسین نے جس کمال ہنر مندی سے اس مشکل موضوع کو پانی کیا ہے وہ قرۃ العین حیدر کے پیچیدہ تر اسلوب پر فوقیت لے جاتا ہے۔ آئیے اس برس کے ختم ہونے سے پہلے اس عظیم تخلیق کار کو یاد کریں جسے اردو والوں نے اس لئے فراموش کردیا کہ اس نے انگریزی میں لکھا۔ اردو دوالوں نے اپنے تحفظات کے تحت اس عظیم ناول کے اردو ترجمے کی بی وہ پذیرائی نہیں کی جس کا وہ مستحق تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں