شاہجہاں مسجد - مغرب میں وہ پہلا گھر خدا کا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-26

شاہجہاں مسجد - مغرب میں وہ پہلا گھر خدا کا

Shah-Jahan-Masjid-Britain-first-purpose-built-mosque
برطانیہ سے اسلام کا رابطہ صدیوں پرانا ہے خاص طور پر صلیبی جنگوں کے بعد بر طانیہ کے عالم اسلام سے قریبی تعلقات استو ار ہوئے اور ان تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب 1588ء میں ملکہ الزبتھ اوّل نے ہسپانیہ کے بحری بیڑے کے حملے کے خلاف سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان مراد سے مدد طلب کی تھی۔
پرانے تاریخی ریکارڈ کے مطابق سولہویں صدی میں جان نیلسن پہلے انگریز تھے جو مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور1649 ء میں ایلگزینڈروزنے پہلی بار قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ شائع کیا تھا اور لیور پول کے ایک ممتاز وکیل William Henry Quilliam جو بعد میں عبد اﷲ کو یلیم کہلائے، برطانیہ میں اسلام کے پہلے داعی تھے جنہوں نے1887ء میں مراکش میں جہاں وہ علالت کے بعد صحت یابی کے لئے گئے تھے، اسلام قبول کیا تھا اور لیور پول کے تجارتی علاقے میں چار کمروں کے ایک مکان میں اسلامی انسٹی ٹیوٹ اور ایک مسجد قائم کی تھی۔
عبداﷲ کویلیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال میں پانچ سوا فراد کو مشرف بہ اسلام کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ خلافت عثمانیہ کے فرمانروا خلیفہ عبد الحمید نے انہیں شیخ الاسلام کے خطاب سے نوازا تھا۔ 1924ء میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بر طانیہ میں مسلمانوں کی تعداددس ہزار تھی جن میں ایک ہزار نو مسلم تھے۔
بلا شبہ لیور پول میں عبداﷲ کویلیم کے چار کمروں کے مکان میں مسجد بر طانیہ کی پہلی مسجد تھی لیکن برطانیہ کی پہلی باقاعدہ مسجد لندن سے 30 میل جنوب مغرب میں ووکنگ سرے میں تعمیر ہوئی تھی جس کو اس سال ایک سو پچیس سال پورے ہوگئے۔ ووکنگ کی خوبصورت اور تاریخی مسجد کی داستان پریوں کی کہانی لگتی ہے۔
گو اس مسجد کی تعمیر کے لئے بھوپال کی فرمانروا شاہجہاں بیگم نے بھاری رقم فراہم کی تھی لیکن اس کے روح رواں ہنگری کے ایک یہودی Dr. Gottieb Wohelm Leintner تھے ۔
ووکنگ کی مسجد کی داستان کی طرح ڈاکٹر لائیٹنر کے کوائف بھی دلچسپ ہیں۔ ڈاکٹر لائیٹنر اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ استنبول منتقل ہوگئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی۔ یہ معمہ ہے کہ استنبول میں انہوں نے ایک اسلامی مدرسہ میں تعلیم حاصل کی اور دس سال کی عمر میں انہوں نے عربی، ترکی اور دوسری یورپی زبانوں میں مہارت حاصل کرلی۔ پندرہ سال کی عمر میں ڈاکٹر لائیٹنر کرائمیا میں برطانوی کمشنر کے مترجم مقرر ہوئے۔
کرائمیا کی جنگ کے خاتمہ کے بعد وہ لندن منتقل ہوگئے وار کنگز کالج لندن میں داخلہ لیا۔ انیس سال کی عمر میں ڈاکٹر لائیٹنر کنگز کالج میں عربی اور جدید یونانی زبان کے لکچرر مقرر ہوئے اور 23 سال کی عمر میں وہ کنگز کالج میں عربی اور اسلامی شریعت کے پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ تین سال بعد 1864ء میں ڈاکٹر لائیٹنر لاہور میں گورنمنٹ کالج کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ان ہی کاوشوں سے پنجاب یونیورسٹی قائم ہوئی جس کے یہ کئی برسوں تک رجسٹرار رہے۔
اس دوران انہوں نے متعد اسکول، ادبی انجمنیں اور پبلک لائبریریاں قائم کیں ار اردو میں تاریخ اسلام پر دو جلدوں پر مشتمل ایک جامع کتاب مرتب کی جو 1876ء میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر لائیٹنر 1870ء کے عشرہ کے آخر میں یورپ واپس آگئے۔
یہاں ان کا منصوبہ اورینٹل زبانوں، ثقافت اور تاریخ کا ایک عظیم سنٹر قائم کرنے کا تھا۔ اس سینٹر کے قیام کیلئے ڈاکٹر لائیٹنر نے لندن کے مضافات میں ووکنگ کا انتخاب کیا اور ووکنگ ڈرامیٹک کالج کی عمارت جو بند پڑی تھی، نیلام میں خریدلی۔
ان کا ارادہ یہاں تمام بڑے مذاہب کی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کا تھا۔ یہودی معبد کنیسہ، گرجا گھر، مندر اور مسجد۔
ان چاروں عبادت گاہوں کیلئے وہ مسجد کی تعمیر شروع کرسکے کیونکہ اس کی زمین کی خریداری کیلئے نظام حیدرآباد دکن نے مالی امداد دی اور مسجد کی تعمیر کیلئے بھوپال کی فرمانروا شاہجہاں بیگم نے بھاری مالی امداد دی۔ مسجد سے ملحق امام کی اقامت کیلئے حیدرآباد دکن کے وزیراعظم سرسالار جنگ نے رقم دی۔ یہ اقامت گاہ ان ہی کے نام سے موسوم ہے۔
شاہجہاں مسجد کا نقشہ خود ڈاکٹر لائیٹنر نے بتایا تھا جو برصغیر کی مساجد کی طرز پر ہے۔ مسجد 1889ء میں نمازیوں کیلئے کھولی گئی۔ لندن میں یہ پہلی باقاعدہ مسجد تھی جو برطانوی مسلمانوں کا مرکز بن گئی لیکن 1889ء میں ڈاکٹر لائیٹنر کے انتقال کے بعد یہ مسجد بند اگور اورینٹل سنٹر بھی سنسان ہوگیا۔
مسجد کے قریب مندر کا بھی منصوبہ ترک کرنا پڑا، البتہ مخیر افراد کے چندے سے گرجا گھر کی تعمیر مکمل ہوگئی۔ 1900 ء سے 1212ء تک مسجد بند رہی۔ اس دوران لاہور کے ایک ممتاز قانون داں اور دانشور خواجہ کمال الدین جو اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن آئے تھے، اتفاق سے اس ویران مسجد کے سامنے سے گزرے۔ مسجد میں منبر کے قریب انہوں نے ایک رحل پر قرآن پاک کھلا ہوا دیکھا۔ کھلے ورق پر خواجہ کمال الدین کی نظر سورہ آل عمران کی اس آیت پر گئی جس کا مفہوم ہے کہ
" آﷲ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کیلئے مقرر کیا گیا، وہی ہے جو مکہ میں ہے جو تمام دنیا کیلئے برکت و ہدایت کیلئے ہے"۔

خواجہ کمال الدین نے جب یہ آیت دیھکی تو وہ فوراًسجدہ میں گرگئے اور انہوں نے گڑ گڑا کر دعا مانگی کہ اے رب العالمین اس مسجد کو بھی مکہ کی مسجد کی طرح مغرب کی مسجد بنادے۔ خواجہ کمال الدین کو پتہ چلا کہ ڈاکٹر لائیٹنر کے وارثین یہ مسجد اور اردگرد کی زمین فروخت کرنے والے ہیں تو انہوں نے عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے اور یہ دلیل پیش کی کہ مسجد بھی مقدس جگہ ہے، جسے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ وہ یہ مقدمہ جیت گئے اور انہوں نے مسجد اور اس کے ارد گرد کی زمین سستی قیمت پر خرید کر مسجد آباد کردی۔ اس مسجد کے انتظام کیلئے ووکنگ مسلم مشن قائم کیا گیا جس میں جسٹس امرے علی مرزا، سرعباس علی بیگ اور سرٹامس آرنلڈ شامل تھے۔
مسجد کی بحالی کے بعد لارڈ ہیڈلے اور ان کی بیگم نے اسلام قبول کیا۔ اس زمانے میں "ہنری ایڈورڈ جان اسٹینلے، تھرڈ بیرن اسٹینلے آف آڈرلے" جو امریکہ کے سابق صدر کے بھتیجے تھے، 1869ء میں مشرب بہ اسلام ہوئے۔ اسی زمانے میں ووکنگ مسلم مشن کی طرف سے اسلامک ریویو کا اجراء عمل میں آیا۔

شروع میں ووکنگ کی مسجد پر قادیانیوں کی لاہوری جماعت کا کنٹرول تھا لیکن اب اس کے انتظامی بورڈ کے چیرمین پاکستان کے ہائی کمشنر ہوتے ہیں۔ آج کل امام حافظ محمد سعید ہاشمی اور نائب امام محمد اکرم ہیں۔ ڈاکٹر لائٹینر نے جس محبت سے یہ مسجد تعمیر کرائی اور عربی ، ترکی، فارسی اور اردو سے انہیں جو گہرا لگا ؤ تھا، اس بناء پر لوگوں کا خیال تھا کہ وہ مسلمان ہوچکے ہیں اور اس خیال کو اس بات سے تقویت پہنچتی تھی کہ ترکی میں قیام اور اسلامی دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں ہوسکی۔
بہرحال ووکنگ کی شاہجہاں مسجد ڈاکٹر لائٹینرکی اسلام سے گہری عقیدت، اسلامی ثقافت اور عربی سے لافانی محبت کی علامت ہے۔

Shah Jahan Mosque - Britain's first purpose-built mosque est. 1889

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں