دفعہ 341 پر لگی مذہبی بندش کے پیچھے کیا سازش ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-19

دفعہ 341 پر لگی مذہبی بندش کے پیچھے کیا سازش ہے؟

دانشور طبقات و علماء حضرات کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اتنے وسیع اور روادار دستور ہند میں دفعہ 341 پر ہی مذہبی قید کیوں لگائی گئی تھی، جب مسلمانوں کو آزاد ہندوستان میں زیر کرنا ہی طئے تھا تو پھر اس کامم کیلئے آئین ہند میں اور بھی تو کئی دفعات تھے لیکن انہیں نہ چن کر اس دفعہ 341 کو ہی کیوں نشانہ بنایا گیا۔ اس کے پیچھے بہت بڑی سازش تھی۔ دراصل آئین کی دفعہ 341 پر جو دو شرائط نافذ کئے گئے یہ ہندو مہا سبھا کی طرف سے تیار کئے گئے تھے۔ پہلی شرط تو یہ ہے کہ آزاد ہند میں شیڈول کاسٹ ریزرویشن صرف ہندو مذہب کے ماننے والوں کو ہی دیا جائے گا۔ یہ شرط 10اگست 1950ء کو نافذ کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ملکی پیمانے پر دئیے جانے والے ریزرویشن سے سارے مذہبی اقلیتی سماج کو محروم کردینا ہے تاکہ آزاد ہندوستان میں ان کی بیشتر آبادی جو بلاشبہ دلت نسبت کے ہیں، کی حالت دلتوں سے بھی خراب ہوجائے۔ مذہبی اقلیت گروہ میں سب سے بڑی آبادی تو مسلمانوں کی ہے اسی لئے تو جسٹس سچر کمیٹی نے جو حالات پیش کئے ہیں وہ دراصل 10اگست 1950ء کے اس آرڈر کا رپورٹ کارڈ ہے جس کو آزادی کے تقریباً نصف صدی بعد ملک کے سامنے لایا گیا ہے۔ دوسرا آرڈر 23جولائی 1959ء کو نافذ کیا گیا جس میں ریزرویشن کو پانے کیلئے اقلیتوں پر ہندو ازم قبول کرنے کی شرط لگائی گئی۔ اس دوسری شرط کا رپورٹ کارڈ کب آئے گا اور کون لائے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن یہ دونوں شرائط ہندو مہا سبھا کے دماغ کی اپچ تھی جو انہوں نے اسپین میں ریسرچ کرنے کے بعد ، اسی اسپینی تاریخ کو ہندوستان میں دہرانے کے مقصد سے لایا تھا۔ پردے کے پیچھے بیٹھی فرقہ پرست طاقتیں شروع سے اس ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کا مشن دل و دماغ میں پاے ہوئے ہیں تاکہ یہاں صرف ہندو مذہب کے ماننے والے ہی رہیں اور ہندی اس ملک کی واحد زبان ہو۔ یاد کیجئے ہندی، ہندو، ہندوستان ان کا پرانا نعرہ ہے اور جسے پاکستان کے قیام نے مزید تقویت دے رکھی ہے ۔ اردو کو زیر کر ہندی زبان کو پانے میں تو وہ پہلے ہی کامیاب ہوچکے ہیں۔ رہ گئی ہندو اور ہندو راشٹرا کے شمن کو پورا کرنے کی بات تو اس کیلئے حکمت عملی کے تحت انہوں نے آئین کی دفعہ 341 کو چنا اور اس پر یکے بعد دیگر دو شرطیں جبراً (کیونکہ یہ آئین کی روح کے خلاف ہیں) نافذ کئے۔ ہندو راشٹرا کے شمن کو لے کر چلنے والی طاقت اتنا تو جانتی ہے کہ یہ سالوں سال کا معاملہ ہے اور جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کے ذریعہ ہی اسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کیلئے پہلے ہندو ازم کی بنیاد پر ایوان پر قبضہ کرنے کیلئے ہندو ووٹ کو یکجا کرنا ضروری ہوگا جو صرف ہندو مسلم دنگوں سے ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ لہذا آپ غور کریں گے تو آزادی کے بعد سے اب تک ہزاروں دنگے فساد ہوئے جو دراصل کرائے جاتے رہے ہیں تاکہ ہندو ووٹ یکجا کیا جاسکے۔ اس میں 75فیصد تک وہ کامیاب بھی ہیں۔ دفعہ341 پر لگی مذہبی قید نے انہیں اپنے مشن میں دو طرح سے مدد کی ہے۔ پہلا تو یہ کہ ریزرویشن سے باہر کردئیے جانے کی وجہہ سے آج مسلمانوں کی بڑی آبادی دلتوں سے پیچھے چلی گئی اور اب تو دینی اعتبار سے کمزور ہوتی نظر آنے لگی ہے۔ مذہبی ذہنیتوں سے دور رہنے کے ساتھ بعض اوقات مذہبی پابندیوں سے بھی دور ہوتی دکھائی دینے لگتی ہے۔ وہ تو یوں سمجھئے کہ جمعہ کے اہتمام، مدرسوں کے نظام، عرس کے انتظام و محرم کے اکھاڑوں نے مسلمانوں کی بڑی آبادی کو اسلام کے دائرے میں بندھ کر رکھا ہے۔ اس گھیرے کو بھی توڑنے کیلے سنگھ پریوار شروع سے کوشاں ہے۔ مدرسوں کو تو آتنک وادوں کی فیکٹری کہنے میں ہی لگے ہیں۔ دفعہ 341 پر مذہبی قید لگانے سے مسلمانوں کو نقصان یہ ہوا کہ یہ قوم ایس سی، ایس ٹی ایکٹ جسے انسداد ایکٹ کہا جاتا تھا کے حفاظتی دائرے سے باہر ہوگئے۔ اس حفاظتی کوچ سے باہر ہونے کا فرقہ پرست طاقتوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ جب چاہو، جہاں چاہو اور جیسے چاہو مسلمانوں کے خلاف دنگا فساد کراکر ہندو ووٹ کو یکجا کرنے کا مضبوطی سے کام کیا۔ اس کام کیلئے اب دنگوں کے ساتھ آتنک واد کا بھی سہارا لیا جانے لگا ہے۔ دلتوں کے ساتھ پہلے اسی طرح کا دنگا فساد ہوتا تھا جس پر ایس سی، ایس ٹی ایکٹ سے اتنا تک روک تو ضرور لگا ہوا ہے کہ اس قوم کے خلاف بدکلامی کرنے سے بھی اب سماج کو ڈر لگتا ہے لیکن دوسری طرف اسی ایکٹ سے خارج کردئیے جانے کی وجہہ سے مسلمانوں کے ساتھ مارپیٹ، ان کی عورتوں کی آبرو لوٹنے کے ساتھ بستیاں تک اجاڑ دی جاتی ہیں لیکن دلتوں کی طرح کوئی محافظ قانون ہے ہی نہیں جو انہیں حفاظت فراہم کراسکے۔ اتنا بھی یاد رکھئے کہ یہ کوئی ایسا نیا قانون کسی بھی قیمت پر بننے نہیں دیں گے جو دنگے فساد پر روک لگانے کا کام کرے کیونکہ یہ بریک دراصل ان کی واحد ٹارگٹ ہندو راشٹر کی مہم پر بریک لگانے کا کام کرے گی۔ دفعہ 341 کی آڑ میں اگر ایک طرف اسی طرح مسلمانوں کی بدحالی کا سلسلہ جاری رہا اور دوسری طرف ہندو ووٹوں کی قطب بندی (Polarisation) کی مہم بھی جاری رہی تو پھر نعوذ باﷲ وہ دن دور نہیں جبکہ پارلیمنٹ پر سنگھی ذہنیت کے ممبران کا قبضہ ہوجائے گا۔ ایسی حالت پہنچ جانے کے بعد ووٹنگ کے ذریعہ اس بل کو پاس کیا جائے گا جو فی الوقت پارلیمنٹ میں ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ ملک کو ہندو راشٹر کردینے کیلئے داخل کیا ہوا ہے لیکن اس پر التوا پڑا ہوا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ملک کو کبھی ہندو راشٹرا قرار دیا جائے کیونکہ جس دن ایسا ہوگا اس کے بعد ملک کی مسلم مخالف طاقتیں اپنی بازوں کے زور پر مسلمانوں کو "تبدیلی مذہب" کو مجبور کریں گی یا پھر ہندوستان چھوڑ دینے کا حکم جاری کریں گی۔ میانمار، انگولا یا برطانیہ میں کس طرح کی فضاء بنائی جارہی ہے، یہ یہاں کی مسلم مخالف طاقتوں کو بھی اندرونی طورپر تقویت بخشنے کا کام کررہی ہے۔ ایسی صورتحال میں مسلم قوم کیلئے دور اندیشی تو اسی میں ہے کہ فی الوقت سارے مسائل کو درکنار کرتے ہوئے دفعہ 341 پر لگی مذہبی قید کو ہٹانے کی مشن میں شامل ہوں۔ یہ آسان ہے کیونکہ دفعہ 341 پر لگی دونوں شرطیں دراصل آئین کی روح کے خلاف ہے اور آئین کی سیکولر پیشانی پر ایک کالے داغ کی مانند ہے۔ سیاسی جماعتیں ایوان کے ذریعہ اسے حل کرنے میں جتنا بھی ٹال مٹول کرے لیکن سپریم کورٹ تو اس کی نوٹس لے ہی سکتا ہے، شرط ہے کہ آئنی دائرے میں رہتے ہوئے مسلم قوم دفعہ 341 پر لگی مذہبی قید کے خلاف اپنی شدید بے چینی کا بارہا کھلے طورپر اظہار کرے تو جیسا کہ انا ہزارے ٹیم نے کرپشن کے خلاف کیا تھا۔ یہ معاملہ 2007ء سے مرکزی کابینہ میں زیر غور ہے اور 2011ء سے سپریم کورٹ و مرکزی سرکار کے بیچ معلق ہے۔ معقول وقت پر ہمارا معقول تحریری و تحریکی دباؤ اسے یقیناًحل کراسکتا ہے۔

Conspiracy behind Section 341 regarding religion attachment

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں