کرناٹک میں 1.80 لاکھ سرکاری خالی عہدوں کو پر کیا جائے - ایس ڈی پی آئی مطالبہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-21

کرناٹک میں 1.80 لاکھ سرکاری خالی عہدوں کو پر کیا جائے - ایس ڈی پی آئی مطالبہ

ریاست کرناٹک میں 1.80 لاکھ سرکاری خالی عہدوں کو پر کرنے کے مطالبہ کو لیکر ایس ڈی پی آئی کا احتجاجی مظاہرہ

ریاست کرناٹک میں سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی نے کل یہاں ریاست کے تمام اضلاع میں 1.80لاکھ خالی سرکاری خالی عہدوں کو پر کرنے کے مطالبے کو لیکر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ شہر میسور میں کئے گئے احتجاجی مظاہرے کی صدارت کرتے ہوئے، ایس ڈی پی آئی کے ریاستی صدر عبدالمجید نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ کرناٹک میں سن 2008میں جب بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی، اس وقت بی جے پی نے پانچ سال کے اپنے دور اقتدار میں کرناٹک کو تین وزیر اعلی دیئے تھے۔ ان کی آپسی رنجش اور لڑائی، اقتدار کی بھوک، کرپشن، لینڈ مافیا، غیر قانونی کانکنی ، فرقہ واریت، جاتی واد، اقربا پروری ، اور اقتدار کا غلط استعمال کرنے کی وجہ سے کئی وزراء جیل بھی گئے تھے۔ بی جے پی کی حکومت سے بیزار ہوکر عوام نے اس کے بعد کے الیکشن میں کانگریس کے حق میں ووٹ دیکر اسے اقتدار پر بٹھایا ، بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور کانگریس کواقتدار میں بٹھانے میں نوجوانوں کے ووٹ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کانگریس حکومت نے ہی عوام کو معلومات فراہم کی تھی کہ ریاست کرناٹک کے 60سے زائد محکموں میں تقریبا 1.80لاکھ سرکاری منظور شدہ نوکریاں خالی پڑی ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ 5تا 6ہزار بقایا خالی عہدوں کو پر نہیں کیا گیا ہے۔ ان تمام خالی عہدوں کو بروقت پر نہ کرنے کی وجہ سے نوجوان طبقہ انتہائی متاثر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے حیدر آبار ۔ کرناٹک ،خصوصی حیثیت ، آرٹیکل371J، پر عمل در آمد کرنے میں تاخیر کرنے کی وجہ سے بے روزگار نوجوان غم و غصے میں مبتلا ہیں۔ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ وزیر اعلی سدرامیا کے جنتا درشن میں زیادہ تر ملازمت کے تعلق سے درخواست نامے موصول ہو رہے ہیں۔ چونکہ اب قومی سیاسی پارٹیاں ، اراکین اسمبلی، اور وزراء غیر قانونی طور پر حاصل کئے گئے دولت کی حفاظت میں مصروف ہیں۔ اور اقتدارمیں آنے کے بعد سے حکمران جماعت کا نگریس اور حزب اختلاف پارٹی جے ڈی ایس نوجوانوں کے مخصوص مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں 15-35سال کے عمر کے تقریبا 40کروڑ نوجوان موجود ہیں۔ ایک نوجوان کا مستقبل اس کے ملک کے مستقبل کے ساتھ ساتھ بنایا جاتا ہے۔ ملک اور ریاست کی سیاست ، اقتصادی، مالیاتی، ترقی، امن اور ہم آہنگی،تعلیم، ثقافت، مذہب کی آزادی، جیسے علامات نوجوانوں کے مستقبل کو تابناک بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ امتیازی سلوک ، توہم پرستی، اور امتیازی اصول ،صحیح فیصلے کا فقدان، جاتی واد، نا خواندگی، بے روزگاری،سماجی عدم تحفظ، کرپشن ، بلا روک ٹوک بھیک مانگنا، جسم فروشی، مفاد پرست سیاست اور بدعنوانی کے غبار سے اٹا ہوا ہے۔جبکہ حکومت کی جانب سے بنیادی اور اعلی تعلیم کو مفت طور پر فراہم کیا جارہا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی ایسی صورتحال موجود ہے کہ LKGاورUKGمیں بچوں کو داخلہ دلوانے کے لیے لاکھوں روپے عطیہ جات کے طور پر دینا پڑرہا ہے۔ایس سی /ایس ٹی طبقہ، پسماندہ طبقہ اور اقلیتی طبقہ کو اعلی تعلیم حاصل کرنا انتہائی نا قابل برداشت اور ناممکن بن گیا ہے۔ غریب طبقے کے صرف 10فیصد بچوں کو ان کے صلاحیت کی بنیاد پر اعلی تعلیم حاصل کرنا ممکن ہوتا ہے۔ بڑی تعداد میں والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کے لیے اپنی پوری زندگی کی قربانی دے دیتے ہیں۔ عام طور پر والدین کا خواب ہوتا ہے کہ ان کے بچے اعلی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اچھی ملازمتیں حاصل کرکے ان کے گھر کی روزی روٹی کے مسائل حل کریں گے اور خاندان کی غریبی دور کریں گے۔یڈیورپا کی قیادت والی سابقہ بی جے پی حکومت نے ریٹائرمنٹ کے عمر کی حد کو 58سے 60سال اضافہ کرکے تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کے روزگار مواقع چھین لیا ہے۔یڈیورپا کی اقربا پروری کی وجہ سے تمام طبقات کے ساتھ نا انصافی ہوئی، نوجوانوں نے ان کے ساتھ ہوئے نا انصافی کو نہیں بھولا اور تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں نے بی جے پی حکومت کو حالیہ اسمبلی الیکشن میں اقتدار سے بے دخل کرکے اس کا جواب دیدیا ۔وجئے وانی اخبار میں مورخہ 5جنوری 2014 ایک خبر کے مطابق، کانگریس حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی محکمہ میں نئے تقررات نہیں کئے جائیں گے، نیز معیشت کی ترقی پر بھی توجہ مرکوز نہیں کیا جائے گا۔ جس کی وجہ سے بے روزگار نوجوان سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ اگرکانگریس حکومت اپنے فیصلے کو عملی جامہ نہیں پہنانے کی صورت میں آنے والے پارلیمانی انتخابات میں عوام یقینی طور پرکانگریس کو سبق سکھائیں گے۔ کانگریس پارٹی 2008کے انتخابات کے مقابلے میں حالیہ انتخابات میں صرف 2%فیصد اضافی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کانگریس پارٹی کی ہمیشہ یہی عادت رہی ہے کہ وہ وعدہ تو کردیتی ہے لیکن ان وعدوں کو پورا نہیں کرتی ۔ اگر کانگریس حکومت بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ روزگار فراہم کرنے کے وعدے پر عمل در آمد کرکے ان کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تو کانگریس کے خلاف ا یس ڈی پی آئی کی سر پرستی میں طلباء، بے روزگار نوجوان، دانشوران اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان ملکر ریاست گیر سطح پر مباحث، سمینار، عوامی کانفرنس اور سڑکوں پر اتر کر منظم احتجاجات کریں گے۔ ایس ڈی پی آئی کے ریاستی صدر عبد المجید نے کہا کہ ریاست کرناٹک کے 224اراکین اسمبلی کے لیے یہی صحیح موقع ہے کہ و ہ بے روزگار نوجوانوں کے معاملہ میں فوری طور پر مداخلت کریں اور کوشش کریں کہ مختلف محکموں میں موجود خالی عہدوں کو کس طرح بھرتی کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک عوامی نمائندوں کا سوال ہے وہ ماہا نہ 20ہزار روپے تنخواہ ، ٹیلی فون بل کے لیے 15ہزار روپے، ڈاک خرچ کے لیے 5ہزار روپے، روم بوائے کے تنخواہ کے لیے 10ہزار روپے،انتخابی حلقہ کے سفر کے اخراجات کے لیے 25ہزار روپے، دیگر سفر کے لیے فی کیلو میٹر 20روپے، ٹرین اور فلائٹ کے ذریعے سفر کرنے کے لیے سالانہ 2لاکھ روپے، اس کے علاوہ 7% سود کے حساب سے ایک رکن اسمبلی کو گاڑی خریدنے کے لیے 15لاکھ روپے کی پیشگی رقم کے طور پر حاصل کرتے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کو فی الحال اراکین اسمبلی کی عیش و عشرت کی زندگی اور عوام کی جانب سے ادا کی جانے والی ٹیکس کی رقم سے بھاری رقم خرچ کرنے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ایس ڈی پی آئی مطالبہ کرتی ہے کہ سب سے پہل1.80لاکھ سرکاری عہدوں کو بھرتی کیا جائے، اور 5-6ہزار کے بقایا خالی عہدوں کو ترجیحی بنیاد پر بھرتی کیا جائے۔ مذکورہ مطالبات کو پورا کرکے ہی کانگریس حکومت جمہوریت کے اقدار اور سماجی انصاف کے تقاضوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ دیگر صورت میں ایس ڈی پی آئی ، کانگریس حکومت کو انتباہ کیا کہ اگر تین مہینے کے اندر اگر خالی پڑے ہوئے سرکاری پوسٹ کو بھرتی نہیں کرنے کی صورت میں ریاست کرناٹک میں بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کیا جائے گا۔ مذکورہ احتجاجی مظاہرے میں ایس ڈی پی آئی کے ریاستی عہدیداران نے ریاست کرناٹک کے دیگر اضلاع میں منعقد کئے گئے احتجاجات کی صدارت و قیادت کی۔ جن میں ریاستی جنرل سکریٹری عبدالطیف، نیشنل ورکنگ کمیٹی رکن محمد ثاقب، ریاستی ورکنگ کمیٹی ممبر محمد جاوید اعظم، بنگلور ضلعی صدر فیاض احمد ، خازن سید رشید علی ،اور مختلف اضلاع میں پارٹی کے ضلعی صدر و جنرل سکریٹری سمیت سینکڑوں کارکنان شریک رہے۔

SDPI Protests Demanding Filling Of Vacant Positions In Different Government Departments In Karnataka State

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں