ماہر بیاضیات - فکاہیہ از محمد سیف الدین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-21

ماہر بیاضیات - فکاہیہ از محمد سیف الدین

diary expert
ماہ دسمبر کی آمد کے ساتھ ہی لوگ سال نو کے استقبال کی تیاریوں کا آغاز کر دیتے ہیں اور اگلے سال کی منصوبہ بندی میں جٹ جاتے ہیں ۔ ہمارے عزیزدوست مرزا صاحب کو بھی نئے سال کی آمد کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے اور ان کے اس انتظار کی وجہ دوسروں سے کچھ مختلف ہے۔ دراصل ماہ دسمبر کی آمد کے ساتھ ہی ہمارے مرزاصاحب نئے سال کی ڈائری حاصل کرنے کی جستتجو میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ان کی حتی المقدور کوشش رہتی ہے کہ انہیں کسی بڑی کمپنی کی خوبصورت ڈائری بطور تحفہ حاصل ہوجائے۔ موصوف صرف ڈائری حاصل کرنے میں ہی نہیں بلکہ ڈائری لکھنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ یوں تو کئی لوگ اپنی زندگی کے اہم واقعات کو اپنی بیاض میں محفوظ کرنے کے عادی ہوتے ہیں لیکن مرزاصاحب کی یہ عادت ہے کہ وہ عالمی اور قومی سطح کے اہم واقعات نہایت ہی پابندی کے ساتھ اپنی ڈائری میں نوٹ کرتے ہیں۔یہ ان کامحبوب ترین مشغلہ ہے اور ایک عرصہ سے وہ خودکو اس مشغلہ کی نذر کرچکے ہیں۔

اس مشغلہ کو اختیار کرنے کے چند سال بعد مرزا صاحب نے اپنی ڈائری سے ماخوذ سال بھر کے اہم واقعات کو اخبارات کے سال نو ایڈیشن میں شائع کروانا شروع کیا۔ یہ سلسلہ اب بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ ان کی کوشش کے سبب استقبال سال نو کے جلسے بڑے اہتمام کے ساتھ منعقد کئے جانے لگے ہیں اور ایسے بیشتر جلسوں میں ہمارے عزیز دوست محترم مرزا صاحب کو مہمان خصوصی کے طور پر مد عو کیا جاتا ہے تا کہ وہ سال گزشتہ کے اہم واقعات پر اپنے زرین خیالات کا اظہار فرمائیں۔
اب مرزا صاحب عالمی اور قومی واقعات کے علاوہ سیاسی ،ادبی،مذہبی، اسپورٹس، فلم اور دیگر زمروں کے تحت اہم واقعات کو اپنی ڈائری میں قلمبند کرنے لگے ہیں۔ اس طرح موصوف کی ڈائری ایک اخبار کے بجائے کئی اخبارات میں شائع ہونے لگی ہے۔ کسی اخبار میں عالمی، کسی اخبار میں قومی اور کسی اخبار میں ادبی، کسی اخبار میں جرائم کے واقعات، اس طرح ان کی ڈائری کے اقتباسات ماہر بیاضیات کے طورپر مشہور ہو گئے اور ادبی حلقوں میں ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔
وہ ماہر بیاضیات کی حیثیت سے مشہور ہو گئے اور سال کے آخری ایام میں سال بھر کے اہم واقعات کا تجزیہ کرنے والے کام نگار بھی اپنے کالم میں مرزا صاحب کے خیالات کو شامل کرنا ضروری سمجھنے لگے۔

ایک مرتبہ یکم جنوری کو شہر کے بیشتر اخبارات کے سال نو ایڈیشن میں مرزا صاحب کی ڈائری مع تصویر شائع ہوئی اور ہر اخبار میں ان کے نام کے ساتھ ماہر بیاضیات کا لقب درج کیا گیا۔ اس مرتبہ موصوف کی شہرت میں چار چاند لگ گئے اور استقبال سال نو کے جلسوں کا سلسلہ تھمتے ہی مرزا صاحب کی تہنیتی تقریب کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئیں۔ اس تہنیت کے وہ مستحق بھی تھے کیونکہ ایک ہی موقع پر، ایک ہی دن، مختلف عنوانات کے تحت مختلف اخبارات میں ان کی تحریروں کی اشاعت خود ایک بڑا کارنامہ تھا۔ بڑے سے بڑے دانشور اور ماہرین تعلیم کیلئے بھی بہ یک وقت مختلف اخبارات میں اتنے سارے مضامین لکھنا اور ایک ہی دن مختلف اخبارات میں شائع کروانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

کچھ سال قبل ماہ دسمبر کے آخری ایام میں ہم اپنے دوست مرزا صاحب کے ساتھ ایک ادبی محفل میں شرکت کر کے رات دیر گئے واپس لوٹ رہے تھے کہ موصوف کو چائے کی طلب ہونے لگی اور ان کے اصرار پر ہم نے ایک ہوٹل پہنچ گئے۔ ہمارے ایک اور صحافی دوست اس ہوٹل میں پہلے سے ہی موجود تھے ہم تینوں چائے کی چسکیوں کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کررہے تھے کہ نئے سال کی ڈائری کا بھی ذکر نکل پڑا۔ مرزا اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ صحافی حضرات کو نئے سال کی ڈائریاں ایک سے زیادہ تعداد میں تحفتاً مل جاتی ہیں لہذا اس محفل میں دو صحافیوں کی موجودگی کو غنیمت جان کر انہوں نے اپنے دل کی بات کہہ ہی ڈالی۔ ہمیں اور ہمارے صحافی دوست کو ایک ساتھ مخاطب کرتے ہوئے ڈائری کی ضرورت کا مدعا بیان کرہی رہے تھے کہ پڑوس کے ٹیبل پر بیٹھے، ہماری باتیں غور سے سن رہے ایک حضرت ہمارے ٹیبل کی خالی کرسی پر اچانک آدھمکے۔ انہوں نے نہایت ہی انکساری کے ساتھ اپنی گفتگو کا آغازکیا اور کہنے لگے کہ میں کافی دیر سے آپ حضرات کی گفتگو سن رہا ہوں اور ڈائری کی ضرورت کے بارے میں سن کر مجھ سے رہا نہیں گیا۔ دراصل میں اسی علاقہ کے پولیس اسٹیشن سے وابستہ پولیس کانسٹبل ہوں۔ میرے پاس نئے سال کی ایک شاندار ڈائری موجود ہے جو اسی علاقہ کے ایک تاجر نے بطور ہدیہ مجھے دی ہے۔ یہ ڈائری میرے کسی کام کی نہیں اسی لئے ڈائری میں نے پولیس اسٹیشن میں رکھ دی ہے۔ موصوف نے اپنی گفتگو کا رخ اصل موضوع کی جانب موڑتے ہوئے کہاکہ بازار میں اس ڈائری کی قیمت کم ازکم پانچ سو روپئے ہوگی، آپ جو بھی مناسب سمجھیں دے دیں۔ ہمارے صحافی دوست جوکہ کرائم رپورٹر تھے، پولیس والے کی باتوں کا زبردست لطف لے رہے تھے۔ دوران گفتگو پولیس والے پر جب اس بات کا عقدہ کھلا کہ یہ صحافیوں کا گروہ ہے تب اس کی حالت قابل دید تھی۔
خیر اس کانسٹبل نے اپنی چکنی چپڑی باتوں میں گھیرکر آخر کار ہمیں اس بات کیلئے منوا ہی لیا کہ ان کی ڈائری مرزا صاحب کیلئے بطور تحفہ قبول کرلیں۔ اس نے اتنی معصومیت سے یہ پیشکش کی ہم اس کی گذارش کو ٹھکرا نہ سکے۔ آخر کار رات کے تیسرے پہر پولیس اسٹیشن پہنچ کر ہم نے بذات خود اس کانسٹبل سے وہ ڈائری حاصل کی۔
مرزا صاحب نے یہ واقعہ اپنے دوست احباب میں اتنا مزہ لے کر اور سینہ تان کرسنایا جیسے انہوں نے کوئی قلعہ فتح کرلیا ہو۔ ہمارے ٹوکنے پر کہنے لگے کہ پولیس والے دوسروں کا مال ہڑپنے کیلئے مشہور ہیں اور اگر ہم ان کا مال مفت میں ہڑپ لیا تو یہ کیا کوئی قلع فتح کرنے سے کم ہے۔

مرزا صاحب کی ڈائری لکھنے کی لگن اور جستجو نے سبھی کو متاثر کیا اور تمام احباب ان کی زبردست تعریف کرنے لگے۔ ایک دفعہ اتفاقاً ہماری ملاقات مرزا صاحب کے پڑوس کے لڑکے سے ہوگئی اور دوران گفتگو موصوف کی ڈائری کا ذکر بھی نکل پڑا۔ اس لڑکے نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ مرزا صاحب ڈائری لکھنے کیلئے کوئی محنت نہیں کرتے بلکہ کئی سال قبل اتفاق سے ایک طالب علم کا انگریزی رسالہ ان کے ہاتھ لگ گیا۔مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والوں کیلئے جنرل نالج کے اس رسالہ میں ہر ماہ پابندی کے ساتھ مختلف زمروں کے واقعات شائع ہوتے ہیں۔ مرزا نے اس رسالہ کو استعمال کرتے ہوئے شہرت حاصل کرنے کی ایک ترکیب سوچی اور اگلے ہی سال سے ان کی ڈائری اخبارات کی زینت بننے لگی۔ آخر کار ہمیں بھی اس راز کا پتہ چل گیا کہ ڈائری کیلئے مرزا صاحب حقیقت میں کتنی محنت کرتے ہیں۔

عام طورپر ڈائری لکھنے کے عادی خواتین و حضرات اپنی زندگی کے مختلف واقعات قلمبند کرتے ہیں۔ اکثر ڈائری میں صاحب ڈائری کی زندگی کی کئی پوشیدہ باتیں شامل ہوتی ہیں اسی لئے ہمارے سماج میں کسی اور کی ڈائری پڑھنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کی ڈائریاں پولیس کیلئے ہمیشہ پرکشش ثابت ہوئی ہیں کیونکہ ان میں درج معلومات کی بنیاد پر دیگر کئی مجرمین کو گرفتار کیا جاتا ہے۔
جہاں دنیا میں ڈائری کو پوشیدہ رکھنے کا رجحان عام ہے وہیں ہمارے دوست مرزا صاحب نے ڈائری کو مقبول کیا بلکہ خود بھی سماج میں باعزت مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انگریزی رسالہ سے اہم واقعات کو اخذ کرنے کے بارے میں دریافت کرنے پر مرزا نے بتایاکہ اس طرح کی ڈائری لکھنے والے اخبارات اور ٹی وی کے ذریعہ معلومات حاصل کرتے ہیں اور اگر میں کسی رسالہ کا سہارا لیتا ہوں تو اس میں کیابرائی ہے۔

***
محمد سیف الدین (ریاض ، سعودی عرب)۔
mohdsaifuddin[@]gmail.com
محمد سیف الدین

An expert of Diaries. Article: Mohammed Saifuddin

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں