اردو کے نامور نقاد وارث علوی کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-11

اردو کے نامور نقاد وارث علوی کا انتقال

waris alvi
اردو کے نامور نقاد و ادیب وارث علوی کے انتقال پر ملال پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان حکومت ہندکے زیر اہتمام ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا گیاجس میں وارث علوی کی اردو زبان و ادب کے تئیں نمایاں خدمات اور کارہائے نمایاں کو یاد کیا گیا، ان کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی اور ان کیلئے دعائے مغفرت کی گئی۔ اس موقع پر کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہاکہ وارث علوی عہد حاضر کے ایک بڑے اور معتبر نقاد تھے۔ انہوں نے اپنی تنقیدی بصیرت اور بصارت دونوں سے اردو زبان و ادب کو مالا مال کیا ہے اور اسے ایک نئی جہت دینے کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ انہوں نے ان کی مجموعی خدمات کو اردو دنیا کیلئے ایک قابل فخر سرمایہ قرار دیا۔ معروف اردو ادب اور ماہر اقبالیات پروفیسر عبدالحق نے کہاکہ ان کی مجموعی خدمات اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ تعزیتی جلسے کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر عتیق اﷲ نے اپنے قلبی لگاؤ اور ذاتی مراسم کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے بڑی دیانتداری کے ساتھ اردو زبان و ادب کی خدمت کی ہے اس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ معروف اسلامی اسکالر اور دہلی اردو اکادمی کے سابق وائس چےئرمین پروفیسر اخترالواسع نے بھی وارث علوی کی اردو خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ معروف اردو ادیب پروفیسر ابن کنول اور پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے بھی اظہار تعزیت کیا۔ تعزیتی جلسے میں ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر جہانگیر وارثی کے علاوہ کونسل کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر کمل سنگھ، اسسٹنٹ ڈائرکٹر (اکیڈمک) شمع کوثر یزدانی، ریسرچ آفیسر ڈاکٹر کلیم اﷲ، مسرت جہاں اور انتظامی امور کے افسر محمد احمد، اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر اجمل سعید و فیروز عالم، ریسرچ اسسٹنٹ قام انصاری نے بھی شرکت کی۔

اردو کے معروف ادیب پروفیسر وارث علوی کے انتقال پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پروفیسر وارث علوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ آپ کے انتقال سے اردو زبان و ادب کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی فلافی ممکن نہیں ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضا حیدر نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہاکہ پروفیسر وارث علوی اپنی معیاری تحریر کی وجہہ سے ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ سے اُن کی دلی وابستگی تھی اور یہاں کے سمیناروں میں وہ برابر شریک ہوکر اپنی موجودگی کا احساس کراتے رہتے تھے۔ ادارے نے اپنے اعزاز "غالب انعام" برائے اردو تنقید و تحقیق 2004 سے انہیں سرفراز کیا تھا۔ اﷲ اُن کے درجات میں اضافہ کرے اور اُن کے احباب کو صبر جمیل عطا کرے۔

اردو کے نامور ادیب اور نقاد وارث علوی کی وفات پر انجمن ترقی اردو (ہند) کے مرکزی دفتر اردو گھر میں ایک تعزیتی نشست منعقدہوئی۔ نشست کے آغا ز میں انجمن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وارث علوی کی وفات کو اردو تنقید کا بڑا خسارہ قرار دیا اور کہاکہ ان کی تنقید میں طنز ومزاح کا ایسا عنصر ہوتا تھا جس سے عام قارئین کے علاوہ وہ تحقیق کار بھی جس پر وہ طنز کے تیر چلاتے تھے، محظوظ ہوتا تھا۔ شاہد ماہلی نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہاکہ اردو کے نامور نقاد، انشا پرداز اور دانشور وارث علوی کا انتقال اردو ادب کا بہت بڑا نقصان ہے، اس کمی کو پورا کرنا بہت مشکل ہے۔ سید شریف الحسن نقوی نے اپنے رنج و غم کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ وارث علوی ایک بیباک اور جرأت مند نقاد تھے، وہ بہت ہی صاف گوئی سے اپنی بات کہتے تھے۔ اردو ادب میں اب اس درجے کے نقاد بہت کم ہیں۔ ان کے انتقال سے اردو ادب اور تنقید کا عظیم خسارہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویزنے کہاکہ وارث علوی کی وفات سے اردو کے نامور ادیبوں کی صف میں ایک زبردست خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے کہاکہ وارث علوی کا میدان تنقید تھا اور میرا میدان تحقیق ہے۔ محققین کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خشک مزاج ہوتے ہیں لیکن وارث علوی کی تحریر میں نہ صرف تنقید میں دلچسپی رکھنے والے کو لطف آتا تھا بلکہ عام قاری بھی لطف اندوز ہوتا تھا۔ ان کی موت سے ہم نے اردو کا ایک بیش قیمتی جوہر کھودیا ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ انجمن کے صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ وارث علوی کی وفات سے اردو اد کا ایسا نقصان ہوا ہے جسے آسانی سے پر نہیں کیا جاسکتا۔ اردو تنقید میں ان کی قابل قدر خدمات ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ ان کے انتقال سے ہم عصر حاضر کے ایک بہت بڑے ادیب اور نقاد سے محروم ہوگئے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے زبانوں کے مرکز میں مایہ ناز ناقد پروفیسر وارث علوی کی رحلت پر ایک تعزیتی میٹنگ کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت شعبہ فارسی کے استاد ڈاکٹر اخلاق احمد آہن نے کی۔ اپنے صدارتی کلمات میں اخلاق آہن نے بتایا کہ اردو کے مایہ ناز ادیب و ناقد وارث علوی کے چلے جانے سے ادبی دنیا ایک عہد کے نمائندہ ادبی شخصیت سے محروم ہوگئی ہے فکشن تنقید کے حوالے سے وہ ایک طویل عرصے سے اردو ادب کی رہنمائی کررہے تھے۔ شعبہ ہندی کے پروفیسر گوبند پرساد نے کہاکہ ان کی کتابیں ’راجندر سنگھ بیدی: ایک مطالعہ، اور ’منٹو: ایک مطالعہ ، فکشن تنقید میں ایک نئی راہ متعین کرتی ہیں اور ان کی تحریروں سے متاثر ہوکر بہت سے لوگوں نے بیدی اور منٹو کو نئے سرے سے دریافت کیا۔ شعبہ اردو سے وابستہ ماہر سرداریات ڈاکٹرعمر رضانے ان کی رحلت پر افسوس کااظہار کیا۔ جلسہ کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر منتظر قائمی نے کہاکہ وارث علوی نے بیدی فہمی اور منٹو فہمی کے حوالے سے جو تنقیدی خطوط کھینچے ہیں اس سے فکشن کے افہام و تفہیم میں ایک نیا باب وا ہوا ہے۔ ڈاکٹر محمد ہادی رہبر نے کہاکہ ڈاکٹر وارث علوی نے موجودہ دونوں تنقیدی دبستان سے الگ اپنی راہ نکالی اور شعریات کے مقابلے فکشن تنقید کو اپنایا فکشن کی تنقید میں ان کا نام سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا۔ ڈاکٹر خان عبدالرافع نے وارث علوی کو جدید فکشن تنقید میں ایک سنگ میل قرار دیا۔ جلسے میں ڈاکٹر شارد انصاری، ڈاکٹر دنکر سنگھ، ڈاکٹر ہادی سرمدی، ڈاکٹر خصال احمد انصاری، ڈاکٹر مقصود حسین، ڈاکٹر مظفر حسین، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر خوشحال سنگھ لنگھدیان، محمد عمران، ولایت منتظری کے علاوہ کثیر تعداد میں طلباء و طالبات نے شرکت کی اور جلسے کے آخر میں ان کی مغفرت کیلئے دعا کی گئی۔

Renowned Urdu critic Waris Alvi passes away after prolonged illness

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں