سید الانبیاء کی محنت کا آغاز انسانی قلوب سے ہوا تھا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-17

سید الانبیاء کی محنت کا آغاز انسانی قلوب سے ہوا تھا

درخت کی جڑ کا تعلق جب تک زمین سے مضبوط رہتا ہے، تب تک وہ ہوا، پانی، روشنی اور دوسری چیزوں سے نہ صرف فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ وہ دوسروں کیلئے پھل، پھول، سایہ اور ٹھنڈی ہوا کا ذریعہ بنا رہتا ہے۔ مگر جوں ہی اس کا تعلق زمین سے ٹوٹتا ہے تب سے ہی ہوا، پانی، کھاد، روشنی وغیرہ فائدہ پہنچانے والی چیزیں اب اس کے نقصان کا باعث بنتی چلی جاتی ہیں۔ مثلاً ہوا اس کی پتیوں کو شاخوں سے جدا کرتی ہیں۔ پانی اس کی ٹہنیوں کو سڑاتا ہے۔ سورج کی روشنی اس کے تنوں کو سکھانا شروع کردیتی ہے۔ گویا درخت کے مختلف چیزوں سے فائدہ اٹھانے یانقصان اٹھانے کا راست تعلق زمین سے اس کے تعلق پر موقوف ہے۔ ٹھیک اسی طرح انسانی سماج و معاشرہ میں ہر قسم کی بھلائی اور بگاڑ کا براہ راست تعلق انسانی قلوب سے وابستہ ہے۔ دل بگڑتا ہے تو اس میں قساوت پیدا ہوتی ہے اور بالآخر انسانی بستیوں میں بگاڑ آتا ہے۔ اور جب دلوں میں سدھار آتا ہے تو انسانیت اپنی فلاح و بہبود ارو کامرانی کو پہنچ جاتی ہے۔ پیغمبر اسلام آنحضرتؐ کے دور میں مکہ معظمہ کا کیا عالم تھا، وہ ہم آپ بخوبی جانتے ہیں۔ مثلاً شرک، بت پرستی، زنا کاری، بدکاری، قتل و غارت گیری، لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جانا، قمار بازی وغیرہ کی عمومیت و ارزانی۔ یہ فہرست کافی طویل ہے۔ مگر جیسا کہ ہمارے علم میں ہے، آنحضورؐ نے ایک ایک برائی کے خلاف مہم نہیں چھیڑی بلکہ آپ نے انسانی دلوں سے اپنی دعوت و محبت کی بنیاد رکھی۔ آپؐ نے لوگوں کے دلوں کو اپنی محنت کا میدان بنایا۔ جب انسانی قلوب اﷲ کی محبت، عظمت، کبریائی، پاکی اور خوف سے لبریز ہوگئے تو ہر بھلائی اور خیر اس طرح انسانی معاشرہ میں وجود میں آگئی جس طرح موسلادھار بارش کے بعد چہار طرف سبزہ اگ آتا ہے۔ اور ہر برائی کا خاتمہ اس طرح ہوگیا جس طرح ایک زبردست آگ چشم زدن میں مال کے گودام کو خاکستر کردیتی ہے۔ یہاں ایک نقطہ قابل غور ہے۔ جس طرح آپؐ کی بے شمار سنتیں ہیں اور ہر ہر سنت زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی ہے۔ مثلاً کھانے پینے کی سنتیں، ملاقات کی سنتیں، راستہ چلنے کی سنتیں وغیرہ۔ ٹھیک اسی طرح انسانی معاشرہ میں اصلاح و فلاح کی محنت کی بھی سنت ہے اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس کا آغازدل کے ایمان و یقین کی درستگی و پختگی کے ساتھ کیا جائے۔ یہی سارے انبیاء کی سنت ہے۔ یہی مجرب اور زمودہ نسخہ ہے۔ یہی ہدایت کی محنت کا نہج ہے۔ انبیاء کے سردار پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی یہی سنت آج کے سارے داعیوں کی محنت کا نقطہ آغاز ہے اور تاقیامت رہے گی جس طرح دنیا کے سارے بنی نوع انسانوں کیلئے کان سننے، آنکھ دیکھنے، زبان چکھنے کا ذریعہ رہی ہے اور تاقیات رہے گی۔ چونکہ دل انسان کے جسم میں بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے اور باقی ماندہ اعضاء مانند رعایا کے ہوتے ہیں۔ لہذا جب دل میں کوئی بات قرار پکڑتی ہے تو سارے اعضاء اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگ جاتے ہیں۔داعی کا انسانوں کے قلوب سے اپنی محنت کا آغاز گویا بادشاہ سلامت سے براہ راست خطاب کرنا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آنحضورؐ کی ذیل میں دی گئی ایک حدیث میں ہر زمانہ کے داعیوں کیلئے کام کے نقطہ آغاز کیلئے واضخ رہنمائی و اشارہ موجود ہے۔ "آگاہ! جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ وہ درست ہوتو پورا جسم درست رہتا ہے۔ وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اس کی ربوبیت، پاکی، کبریائی وغیرہ سے متصف مطلوب ہے۔ جب محنت کرکے دل کو ہر قسم کی برائیوں کبر، حسد، جلن، بغض، کینہ، طمع، حرص، حب جاہ، حب مال وغیرہ سے پاک وصاف کرلیا جاتا ہے اور اس میں اﷲ و رسول کی محبت، یقین، توکل، تعلق، بھروسہ، احسان، عجز، انکساری، تواضع وغیرہ صفات پیدا کرلی جاتی ہیں تو یہ دل "قلب سلیم" بن جاتا ہے۔ اب یہ دل وہ دل بن جاتا ہے جو بندہ سے اﷲ تعالیٰ کو عین مطلوب ہے جیسا کہ قرآن مجیدکی سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ۸۸،۸۹میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس دن مال کا م آئے گا اور نہ اولاد۔ مگر وہ جو اﷲ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے"۔ اخبار ہمارے سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ آج جب اخبار پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کا بگاڑ عام ہے۔ حکومتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں برائی کے طوفان کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ انہوں نے بگاڑ کی اصلاح کیلئے مختلف اسکیمیں، پروگرام، مہم، اشتہارات، قانون، قاعدوں اور ضابطوں کی دھوم مچائی ہے۔ مختلف اچھائیوں کو جاری وساری کرنے اور برائیوں کو دور کرنے کیلئے دن اور ہفتہ منائے جارہے ہیں۔ مثلاً یوم تعلیم، ایڈس مخالف دین، رشوت مخالف قسم و حلف، منشیات مخالف دن، لڑکیوں کو رحم مادر میں نہ ختم کرنے کی مہم وغیرہ۔ مگر یہ ساری محنتیں اور کوششیں ایسی ہی ہیں جیس کہ ایک زوال پذیر درخت کی جڑ کو مضبوط نہ کرتے ہوئے اس کے پتوں اور تنوں کو پانی اور کھاد پہنچانا اور ظاہر ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش کبھی بھی کامیاب ہونے والی نہیں۔ مسلمان من حیث القوم حامل قرآن ہیں، اﷲ کے آخی محفوظ موجودہ کلام، احکام، منشاء کے جاننے اور ماننے والے ہیں۔ مگر یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ وہ خود عمل سے کوسوں دور ہیں۔ چنانچہ موجودہ داعیان اسلام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انسانی معاشرہ میں انسانوں کے دلوں سے اپنی کا آغاز کرتے ہوئے برائیوں سے پاک اور ہر خیر و بھلائی سے آراستہ ایسا معاشرہ وجود میں لائیں تاکہ اسلام ہر کسی کیلئے قابل عمل و قابل قبول بن جائے۔ اور انسانی فطرت خود پکار اٹھے کہ جو زندگی ہمیں مطلوب ہے وہ بلاشبہ اہل ایمان حضرات کے پاس ہے اور وہ ان سے کہہ اٹھیں کہ آپ ہمیں بھی اپنے جیسا بنالو۔ مگر چونکہ تقویٰ پیدا کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔ (سورہ: الرعد۔ آیت نمبر:۱۶) "کیا ایمان والوں کیلئے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اﷲ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں اور اس حق کے آگے جو نازل ہوا ہے"۔ یہ آیت اہل ایمان بھائیوں کیلئے فکر، غوروخوص اور عمل کا نقطہ آغاز ہے اور اس مضمون کا نقطہ اختتام۔

Prophet preaching started from winning hearts

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں