کشمیر میں فوج کی موجودگی کیلیے ریفرینڈم سے متعلق پرشانت بھوشن کی تجویز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-07

کشمیر میں فوج کی موجودگی کیلیے ریفرینڈم سے متعلق پرشانت بھوشن کی تجویز

بی جے پی نے کشمیر میں عوام کی رضامندی کے ساتھ مسلح فورسیس کی تعیناتی سے متعلق، عام آدمی پارٹی (اے اے پی) لیڈر پرشانت بھوشن کی تجویز کی شدید مخالفت کی ہے اور اے اے پی زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پارٹی نے قومی سکیورٹی مسائل پر ایک "کمزور" موقف اختیار کیا ہے اور کہاہے کہ ان مسائل کا فیصلہ خوش کن بیانات یا ریفرنڈم کے ذریعہ نہیں کیا جاسکتا۔ بی جے پی لیڈ ارون جیٹلی نے کہاکہ "یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ قومی عزائم رکھنے والی ایک پارٹی ایسا موقف اختیار کررہی ہے جو پاکستان کے موقف اور ہندوستان کے مفادات کے مخالف علیحدگی پسندوں کے موقف کی مماثل ہے۔ جیٹلی نے امید ظاہر کی کہ اے اے پی کے سمجھدار عناصر اس "نرم موقف" کو بدلنے کی مانگ کریں گے۔ بصورت دیگر "اتار کی جانب حرکت، چڑھاؤ کی جانب حرکت کے مقابلہ میں تیز ہوتی ہے"۔ ارون جیٹلی نے جو راجیہ سبھا کے قائد اپوزیشن ہے، کہا کہ "قومی سکیورٹی مسائل کو، خوش کن بیانات یا ریفرنڈم کے ذریعہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے مسائل کو صرف سکیورٹی لحاظات ہی کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔ جب تک دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے باقی ہیں، جموں وکشمیر میں فوج کی موجودگی لازم ہے"۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہاکہ "وہ پاکستان ہے، جو وادی میں فوج کو نہ رکھنے کی تجویزپیش کرتا آرہا ہے۔ بعض علیحدگی پسند گروپس بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی جیسی کسی پارٹی کیلئے جو قومی عزائم رکھتی ہے، یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہ ، ہندوستان کے مفادات کے مغائر موقف اختیار کریں۔ یہاں یہ تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ اے اے پی لیڈر پرشانت بھوشن نے کل کہا تھا کہ وادی کشمیر میں فوج کی موجودگی کے مسئلہ کا فیصلہ وادی میں عوام کے ریفرنڈم کے ذریعہ کیا جاسکتاہے۔ بی جے پی لیڈر مزید کہاکہ اُسی قائد (پرشانت بھوشن) نے 2 سال قبل جموں کشمیر میں استصواب عامہ کی تجویز پیش کی تھی، جہاں عوام کویہ فیصلہ کرنے کی آزادی ہونی چاہئے کہ آیا وہ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا اس کے برعکس۔ ارون جیٹلی نے کہا کہ "ایسے ناکارہ خیالات کو ہمیشہ ہی یک لخت مسترد کردیا جانا چاہئے کیونکہ ایسے خیالات، تجاویز سے ہندوستان کی سلامتی میں خلل پڑسکتا ہے اور ایسی فضا سے سیاست ، ملک کی اقتدار اعلیٰ اور معیشت پر منفی اثر پڑسکتا ہے"۔ ارون جیٹلی کے ریمارک ایک ایسے وقت سامنے آئیں ہے جب عام آدمی پارٹی لیڈر اور چیف منسٹر اروند کجریوال نے آج بھوشن کے بیانات سے خود کو لاتعلق بتایا ہے اور کہا ہے کہ داخلی سلامتی پر فیصلے، امن و ضبط کی صورتحال کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں اور کشمیر میں فوج کی تعیناتی پرریفرنڈم نہیں ہوسکتا۔

آئی اے این ایس کے مطابق عام آدمی پارٹی (اے اے پی) لیڈر پرشانت بھوشن نے آج کہا ہے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ اور ملک کے ساتھ اس ریاست کے الحاق کو چیلنج کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جموں کشمیر میں فوج کی تعیناتی پر ریفرنڈم کی مبینہ طورپر وکالت کرنے پر پرشانت بھوشن نے تنقیدوں کے پس منظر میں کہاکہ ریاست جموں و کشمیر میں مسلح فورسیس کی کثیر تعداد کی تعیناتی، عوام کی خواہشات کے ساتھ ہونی چاہئے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ "عام آدمی پارٹی کا نکتہ نظر یہ ہے کہ کشمیر، ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ یں اس خیال کا حامی ہوں یعنی یہ بات جانی مانی ہے۔ ریفرنڈم کے کسی حوالہ کو ’ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے تعلق پر استصواب عامہ سے خلط ملط نہیں کیا جانا چاہئے"۔ بھوشن نے کہاکہ انہوں نے 2 ٹی وی چینلوں سے کہا تھا کہ "جموں وکشمیر کے عوام میں قابل لحاظ حد تک احساس بیگانگی پایا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہہ سکیورٹی فورسس کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں"۔ دوسرا بات یہ ہے کہ "مسلح فورسس خصوصی اختیارات ایکٹ (افسپا) کے تحت سکیورٹی فورسس کو مقدمات کا سامنا کرنے سے استثنیٰ ہے۔ "میں نے کہا تھا کہ کشمیر کے عوام کا دل جیتنے کیلئے افسپا کو دئیے گئے استثنیٰ کو برخواست کردیا جانا چاہئے"۔ بھوشن نے مزید کہاکہ میرا نکتہ نظر یہ تھا کہ "اندرون کشمیر زبردست تعداد میں مسلح فورسیس کی تعیناتی، خارجی دفاع یا مداخلت کاری کو روکنے کے لئے نہیں کی جاتی ہے۔

Prashant Bhushan wants referendum on Army presence in Kashmir

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں