جمہوریت ایک مقدس امانت - یوم جمہوریہ پر صدر پرنب مکرجی کا خطاب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-26

جمہوریت ایک مقدس امانت - یوم جمہوریہ پر صدر پرنب مکرجی کا خطاب

صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے ملک کے یوم جمہوریہ کی 65ویں سالگرہ کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ارباب اقتدار /عہدوں پر فائز شخصیتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے اور عوام کے درمیان بے اعتمادی کو ختم کریں۔
صدر جمہوریہ نے سیاسی جماعتوں کو وارننگ دی کہ وہ ایسے وعدے نہ کریں جن کی تکمیل نہیں کی جاسکتی۔ ابتری، حکمرانی کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ صدر جمہوریہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ، جو لوگ سیاست میں ہیں انہیں سمجھنا چاہئے کہ ہر الیکشن ایک انتباہی علامت، کرو یا مرو، کے ساتھ آتا ہے۔ ہمارے لئے جمہوریت ، کوئی تحفہ نہیں ہے بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق، تحفہ ہے۔ جو لوگ بر سر اقتدار ہیں، ان کے لیے جمہوریت ایک مقدس امانت ہے۔ جو اس امانت کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ ، قوم کی بے حرمتی کرتے ہیں۔

صدر نے سیاسی جماعتوں کو وارننگ دی کہ وہ انتخابات کے دوران عوام سے ایسے وعدے نہ کریں جن کی تکمیل نہیں کی جاسکتی۔ انتخابات کسی شخص کو خام خیالی میں بھٹکنے کا لائسنس نہیں دیتے۔ جو لوگ رائے دہندوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ ایسا ہی وعدہ کریں جیس کی تکمیل ممکن ہے۔ حکومت ، خیرات کی کوئی دکان نہیں ہے۔ عوام کو خوش کرنے کے لئے بد نظمی /ابتری ، حکمر انی کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ جھوٹے وعدوں سے ازالہ وہم کی نوبت آئے گی اور اس سبب برہمی پیدا ہوگی اور ایسی برہمی کا ایک جائز نشانہ ہوتا ہے اور وہ بر سر اقتدار لوگ ہوتے ہیں۔ یہ برہمی اسی وقت کم ہوسکتی ہے جب حکومتیں ، وہ امور انجام دیں جن کے لئے انہیں منتخب کیا گیا ہے۔ یعنی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے قدم اٹھائیں۔ یہ قدم سست رفتاری سے نہیں بلکہ ریس کے گھوڑوں کی رفتار سے اٹھا یا جانا چاہئے۔ ہندوستان کے نوجوان اپنی امنگوں اور مستقبل کے ساتھ بے وفائی کو معاف نہیں کریں گے۔

صدر نے جمہوری اداروں کی کمزوری کو ان لوگوں سے منسوب کیا جو اپنے مفادات حاصلہ کے لیے سیاست میں ہیں۔ بعض ناقدین ، جمہوریت پر کار بند رہنے کے ہمارے عہد پر طنز کرتے ہیں لیکن عوام مے ہماری جمہوریت کے ساتھ ہرگز فریب نہیں کیا ہے۔ اگر کہیں نقائص پائے جاتے ہیں تو وہ ان لوگوں کی کارستانی ہے جنہوں نے اقتدار کو لالچ کا راستہ بنا لیا ہے۔ تساہل اور نا اہلی کے سبب جمہوری اداروں کو کمزور ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے ہمیں بجا طور پر غصہ آتا ہے۔ اگر ہم کھبی ، راستہ سے مایوسی کا گیت سنتے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک مقدس امانت کی بے حرمتی /خلاف ورزی کی جارہی ہے۔
تاہم صدر نے امید ظاہر کی کہ گذشتہ چند برسوں میں منقسمہ اور متنازعہ سیاست کے بعد سال 2014میں جمہوریت کا دوبارہ عروج دیکھا جائے گا۔ میں طعنہ زن نہیں ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جمہوریت میں خود کو درست کرنے کی زبر دست صلاحیت ہے۔ یہ ایسا فزیشین ہے جو اپنا علاج خود کرتا ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے دیکھی گئی منقسمہ اور متنازعہ سیاست گے بعد سال 2014کو سال اندمال /شفا ہونا چاہئے۔ 1950میں ہماری جمہوریت کا جنم ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ سال 2014سال عروج ہوگا۔
اس پس منظر میں صدر جمہوریہ نے ملک کے عوام سے اپیل کی کہ وہ آنے والے عام انتخابات میں ملک کو ایک مستحکم حکومت دیں۔ سال حال، ہم ہماری لوک سبھا کے 16ویں عام انتخابات دیکھیں گے۔ ایک منقسمہ حکومت جو خام خیال موقع پرستوں کی یر غمال ہوتی ہے، ہمیشہ ہی ناخوش ناگہانی حالات کی حامل ہوتی ہے۔ 2014میں وہ تباہ کن بھی ہوسکتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک، ایک رائے دہندہ ہے۔ ہر ایک پر ایک زبردست زمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم ہندوستان کو نیچا ہونے نہیں دے سکتے۔ اب ، وقت آچکا ہے کہ ہم خود محاسبہ کریں اور عملی اقدام اٹھائیں۔ ہندوستان ایک عظیم وعدہ کی سر زمین ہے۔ آنے والے انتخابات اس وعدہ کی بحالی / تکمیل کا، عوام کے لیے عظیم موقع ہیں۔
بد قسمتی سے بعض اوقات ہندوستان کے وعدہ کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے اور بعض دفعہ خود ہمارا تساہل اور کمزوری سے ایسا ہوا ہے۔ مقدر نے ہمیں ایک اور موقع دیا ہے کہ جو کچھ ہم نے کھویا ہے اس کو دوبارہ پالیں۔ ہمیں کسی پر الزام دینا نہیں ہے بلکہ اگر غلطی ہماری ہو تو ہم خو د کو مورد الزام ٹھہرائیں ۔ 2014کے عام انتخابات کے بعد جو بھی پارٹی بر سر اقتدار آئے وہ استحکام ، دیانتداری اور ملک کی ترقی کی پابند رہے ۔ ہمارے یوم آزادی کے موقع پر ، قبل اس کے کہ میں آپ سے دوبارہ خطاب کروں، ایک نئی حکومت ہوگی۔ اس بات کی اہمت کم ہے کہ آنے والے انتخابات کون جیتتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ جو کوئی انتخابات جیتے اس کو چاہئے کہ وہ استحکام ، دیانتداری اور ہندوستان کی ترقی کے وعدہ پر بلا کم و کاست قائم رہے۔
صدر جمہوریہ نے سال 2014کو ہندوستان کی تاریخ کی ایک اہم ترین لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ، ہم قومی مقصد اور حب الوطنی کے اسی احساس کی بازیافت کریں جو قوم کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور خوشحالی کی راہ پر دوبارہ گامزن کرتا ہے۔ نوجوانوں کو روزگار دیجئے اور وہ ، مواضعات اور شہروں کو، 21ویں صدی کے معیارات تک بلند کریں گے۔ آپ انہیں ایک موقع دیں تو آپ اس بات پر فخر کریں گے کہ ان نوجوانوں نے ایک عظیم ہندوستان تخلیق کیا ہے۔
صدر جمہوریہ نے اعتراف کیا کہ جمہوریت میں صحت مندانہ اختلاف رائے ایک فطری بات ہے تاہم یہ اختلاف رائے ،ہماری حکمرانی میں ایک غیر صحت مند چپقلش کی نوبت نہ لائے۔ رشوت ستانی کو ایک ایسا کینسر قرار دیتے ہوئے جو جمہوریت کی بیخ کنی کرتا ہے، صدر جمہوریہ نے کہا کہ رشوت ستانی ایک کینسر ہے جو ہمارے ملک کی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے۔ اگر ہندوستانیوں کو برہمی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ رشوت ستانی اور قومی و سائل کو ضائع ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اگر حکومتیں ان نقائص کو دور نہ کریں تو رائے دہند ے، ایسی حکومتوں کو ہٹا دیں گے۔ ملک میں چھوٹی ریاستوں کے مطالبات پر صدر نے کہا کہ ایسے مسائل پر مبا حث جائز ہیں اور ان مباحث کو ہمارے جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ اس مسئلہ پر جذبات ابھر رہے ہیں کہ ایک ریاست کے تمام حصوں کی مساویانہ ترقی کے لیے آیا چھوٹی ریاستیں ہونی چاہئیں، یہ بحث جائز تو ہے لیکن جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ ہونی چاہئے۔ پھوٹ ڈالو اور حکومت کر وکی سیاست سے ہمارے بر صغیر کو بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ اگر ہم مل جل کر کام نہ کریں تو کچھ بھی کام نہیں ہوپائے گا۔

پرنب مکرنی نے اعتراف کیا کہ ماضی قریب میں ہندوستان میں عدم استحام کے بعض اسباب و علل رہے ہیں۔ تاہم صدر نے وارننگ دی کہ ملک کی سالمیت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کرنے والے فورسس، ہرگز کامیاب نہیں ہوگے۔ ہم ، دنیا کے اس حصہ میں رہتے ہیں جہاں گڑ بڑ ہے اور جہاں ماضی قریب میں عدم استحکام کے عوامل کو بڑھاوا ملا ہے۔ فرقہ پرست قوتیں اور دہشت گرد عناصر ، ہمارے عوام کی ہم آہنگی اور ہمارے ملک کی سالمیت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے ، ہنوز خواہاں ہیں لیکن وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہماری سیکوریٹی اور ہمارے مسلح فورسس نے جنہیں عوام کی زبردست تائید حاصل ہے ، یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اندرونی دشمن کو اسی شدت سے کچل سکے ہیں جس طرح وہ اپنے محاذوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ ناعاقبت اندیش لوگ جو ہمارے مسلح سرویسس کو دیانتداری پر سوال کرتے ہیں وہ غیر ذمہ دار ہیں۔ انہیں عوامی زندگی میں کوئی مقام نہیں ملنا چاہئے۔
صدر جمہوریہ نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ ہندوستانی معیشت کی رفتار باعث فکر مندی ہے، کہا کہ مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دہے میں ہندوستان ، دنیا کی ایک انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک کی حیثیت سے ابھرا ہے۔ گذشتہ 2برسوں میں ہماری معیشت کی سست رفتار، کچھ فکر کا باعث تو ہوسکتی ہے لیکن مایوسی کی وجہ نہیں ہوسکتی۔ احیاء کی ہری بھری شاخیں پہلے ہی نظر آرہی ہیں۔ جاریہ سال کے نصف اول میں زرعی پیداوار میں اضافہ کی شرح 3.6فیصد کو چھو چکی ہے اور دیہی معیشت بھی حوصلہ افزا ہے۔ صدر جمہوریہ نے مغربی ممالک کی، احمقانہ نقل کے خلاف خبر دار کیا اور کہا کہ ، ہندوسان کو اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنا چاہئے۔ ہمیں ہر قسم کا علم حاصل کرنا چاہئے۔ اس کے بر عکس اقدام ، ہماری قوم کو دلدل میں ڈالنے کے مترادف ہوگا لیکن ہمیں تن آسانی میں ملوث ہوتے ہوئے احمقانہ نقل نہیں کرنا چاہئے۔
ہندوستان میں دانشور موجود ہیں۔ انسانی وسائل اور سرمایہ موجود ہے جس سے ایک شاندار مستقبل کی صورت گری ہوتی ہے ۔ہماری سیول سوسائٹی حرکیاتی اور اختراعی ہے۔ ہمارے عوام خواہ وہ شہروں میں رہتے ہوں یا مواضعات میں ، منفرد شعور اور تہذیب کے حامل ہیں۔ ہمارے بہترین اثاثے، انسانی وسائل ہیں۔ آج ہمارا اعلی تعلیمی انفرا اسٹرکچر زائد از 650یو نیور سٹیز اور 33ہزار کالجوں پر مشتمل ہے۔ تعلیم، اب محض خوشحال طبقہ تک محدود نہیں رہی بلکہ ایک عالمی حق بن گئی ہے۔

Pranab calls for stable govt India's Republic Day today

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں