اقلیتوں کیلیے مزید فلاحی اقدامات کی گنجائش موجود - وزیر اعظم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-04

اقلیتوں کیلیے مزید فلاحی اقدامات کی گنجائش موجود - وزیر اعظم

وزیراعظم منموہن نے آج افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اقلیتوں کی بہبود کےئلے حکومت کے اقدامات کی اطلاع کو عوام الناس تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی بہت کچھ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایاکہ سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرنے کیلئے یوپی اے حکومت نے بہت کچھ کیا (لیکن) "افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ (اطلاع) عوام تک نہیں پہنچ سکی"۔ ڈاکٹر سنگھ اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ اقلیتوں کیلئے مختص اسکیمات کے فوائد اقلیتوں تک کیوں نہیں پہنچ رہے ہیں۔ ایسی باتیں بھی سنی جارہی ہیں کہ حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کے سبب اقلتیوں پر سے کانگریس کی گرفت کمزور ہوگئی ہے۔ مذکورہ انتخابات میں کانگریسی امیدواروں نے ایسی نشستوں پر بھی کم ووٹ لئے جہاں اقلیتی رائے دہندوں کی ایک خاصی تعداد تھی۔ منموہن سنگھ نے بتایا کہ اایک ایسے وقت جبکہ اقلتیوں کے لئے تحفظات اور مسلمانوں کو ایس سی، ایس ٹی موقف دینے کے مثل مسائل ،عدالتوں میں زیر دوراں ہیں" یہ بھی صحیح ہے کہ ابھی بعض اقدامات کرنے باقی ہیں۔ بعض مسائل، عدالتوں میں زیر دوراں ہیں۔ بعض مسائل ابھر آئے ہیں جن کے باعث بعض اقدامات پر عمل نہیں ہوسکا"۔ تاہم وزیراعظم نے اقلیتی طلباء کو اسکالرشپس کی ادائیگی، اقلیتی طلباء کیلئے وزیراعظم کے نئے 15 نکاتی پروگرام کے تحت یوپی اے حکومت کی جانب سے ان طلباء کیلئے مدون کردہ خصوصی ترقیاتی اسکیمات جیسے اقدامات کی فہرست پیش کی اور کہاکہ "اقلیتوں کیلئے اسکالرشپس میں زبردست اضافہ کردیاگیا ہے۔ مولانا آزاد فیلو شپ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ کافی کچھ اقدامات مکمل ہوچکے ہیں لیکن میں یہ کہوں گا کہ ابھی مزید اقدامات کی گنجائش موجودہ ے"۔ آج پریس کانفرنس کے موقع پر یوپی اے کی 10سالہ حکمرانی کے دوران انجام دئیے گئے کارناموں کا رپورٹ کارڈ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے ہمیشہ ہی اقلیتوں کی بہبود کو اعلیٰ ترجیح دی ہے۔ 2004-05 میں یوپی اے کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اقلیتوں پر مصارف میں "10گنا اضافہ" ہوگیا ہے۔ منموہن سنگھ نے بتایاکہ اقلیتوں کو وزیراعظم کے نئے 15 نکاتی پروگرام سے فوائد حاصل ہورہے ہیں۔ مذکورہ پروگرام میں ہمہ شعبہ جاتی ترقیاتی پروگرام اور اقلیتی طلباء کیلئے اسکالرشپ اسکیمات شامل ہیں۔ "بنکوں سے ترجیحی طورپر دئیے جانے والے تمام قرضہ جات کا 15فیصد اب اقلیتوں تک پہنچتا ہے تاکہ چھوٹے کاروبارکو شروع کرنے اور اس میں وسعت دینے میں مدد ملے"۔ رپورٹ کارڈ میں مزید کہا گیا ہے کہ "مختلف پروگراموں کے تحت درج فہرست اقوام و قبائل اور اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کو زائد از 20ملین اسکالرشپس عطا کئے گئے۔ دریں اثنا آئی اے این ایس کے مطابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن نے آج اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ مئی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد تیسری معیاد کیلئے وزیراعظم بننے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے غیر متوقع طورپر اور غیر معمولی شدید انداز میں بی جے پی لیڈر نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے ببانگ دہل کہا کہ اگر انہیں (مودی کو) ہندوستان پر حکمرانی کا موقع ملے تو یہ تباہ کن ہوگا۔ وزیراعظم نے یہاں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ "نریندر مودی کے میرٹس پر بحث کئے بغیر میں پوری خلوص نیت کے ساتھ یہ یقین رکھتا ہوں کہ مودی کا، وزیراعظم بننا، ملک کیلئے تباہ کن ہوگا۔ ہندوستان ایسا وزیراعظم نہیں چاہتا"۔ بی جے پی کے امیدوار وزارت عظمی پر اپنی سخت ترین تنقید میں منموہن سنگھ نے ملک کے اس اعلیٰ عہدہ (وزارت عظمی) کیلئے چیف منسٹر گجرات کی ساکھ پر طنز کیا اور کہا"اگر آپ طاقتور وزیراعظم کے معنی یہ کہتے ہیں کہ آپ، احمد آباد کے راستوں پر سینکڑوں بے قصور افراد کے قتل عام کی صدارت کریں تو اس قسم کی طاقت کو میں قطعاً پسند نہیں کروں گا"۔ منموہن سنگھ نے جو 2004ء سے وزارت عظمی پر فائز ہیں یہ اعلان کیا کہ "چند ماہ میں عام انتخابات کے بعد میں اپنی ذمہ دارایاں ایک نئے وزیراعظم کو سونپ دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ یہ یوپی اے کا منتخب کردہ وزیراعظم ہوگا۔ میں، انتخابات کے بعد وزارت عظمی کیلئے امیدوار نہیں رہوں گا"۔ وزیراعظم نے یہ نہیں بتایاکہ وزارت عظمی کے لئے یوپی اے کی پسند کون ہوگا لیکن انہوں نے نائب صدر کانگریس راہول گاندھی کی زبردست ستائش کی اور کہاکہ وزارت عظمی کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد ہونے کے لئے راہول گاندھی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہماری پارٹی مناسب وقت پر یہ فیصلہ کرے گی"۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ "میرا ہمیشہ ہی یہ احساس رہا ہے کہ اگر راہول گاندھی، ہماری حکومت کا حصہ ہوتے تو ہماری حکومت مستحکم ہوتی لیکن راہول گاندھی نے محسوس کیا کہ پارٹی کے تعلق سے انہیں ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں اور ان ذمہ داریوں کے سبب وہ حکومت میں شامل نہیں ہوئے۔ میں ایسے اقدام کا احترام کرتا ہوں۔ 81سالہ ڈاکٹر سنگھ نے 75منٹ کی اپنی رسمی پریس کانفرنس میں میں جو 3سال کی مدت میں، اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی، متعدد سوالات کے جوابات دئیے۔ رشوت ستانی کے مسئلہ سے لے کر پیداوار میں اضافہ اور پاکستان و نیز امریکہ کے تعلق سے بھی سوالات کے جوابات دئیے۔ رشوت ستانی کے مسئلہ سے لے کر پیداوار میں اضافہ اور پاکستان و نیزامریکہ کے تعلق سے بھی سوالات کے جوابات دئیے۔ انہوں نے اپنی کارکردگی پر تنقیدوں کو مسترد کردیا اور کہاکہ میڈیا یا اپوزیشن کے مقابلہ میں تاریخ ان پر زیادہ مہربان رہے گی۔ انہوں نے زور دے کرکہاکہ انہوں نے حتی المقدور بہترین کام کئے ہیں۔ "میں نہیں سمجھتا کہ میں کوئی کمزور وزیراعظم ہوں۔ اس بارے میں فیصلہ کرنا تاریخ دانوں کا کام ہے۔ حالات اورمخلوط حکمرانی کی مجبورویاں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے حتی المقدور بہترین کام کئے۔ جب اس زمانہ کی تاریخ لکھی جائے گی تو ہمارے نام پر کوئی دھبہ نہیں آئے گا۔ وزیراعظم نے فلسفیانہ انداز میں یہ بات کہی۔ تاہم انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ "بے قاعدگیاں ہوئی ہیں" لیکن یہ بھی کہا کہ "مسائل کو بڑھاچڑھاکر پیش" کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ دہلی، راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شکست کا ایک اہم سبب غذائی اشیاء کی مہنگائی رہی ہے۔ وزیراعظم ، رشوت ستانی کو ایک "عفریت" قراردیا اور کہاکہ اس سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس میں چینلجوں کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ رشوت ستانی سے نمٹنے ہمیں اجتماعی کوشش کرنی چاہئے۔ فرد واحد اس کام کی تکمیل نہیں کرسکتا۔ اس عفریت سے نمٹنے سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ وزیراعظم نے پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ "میں نے استعفیٰ کے بارے میں ہرگز کبھی نہیں سوچا ہے۔ میں اپنے کام سے لطف اندوز ہوا ہوں۔ میں نے پوری دیانتداری، خلوص نیت کے ساتھ اور کسی خوف یا عنایت بے جا کے بغیر کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ کانگریس بالخصوص صدر کانگریس سونیا گاندھی ہمیشہ ہی میرے اقدامات کی حامی رہی ہیں"۔ وزیراعظم نے کہاکہ وہ پاکستان جانے کی خواہش رکھتے تھے۔ اس سوال پر کہ وہ 2004ء میں وزارت عظمی پرفائز ہونے کے بعد سے پاکستان کیوں نہیں گئے، انہوں نے جواب دیا کہ وہ پاکستان کو جانا پسند کریں گے۔ میں ایک ایسے موضع میں پیا ہوا جو مغربی پنجاب کا حصہ ہے لیکن اگر حالات سازگار ہوں تو وہ جامع نتائج کے حصول کیلئے بحیثیت وزیراعظم مجھے پاکستان جانا چاہئے۔ میں نے محسوس کیا کہ (دورہ پاکستان کیلئے) حالات سازگار نہیں تھے۔ میں نے ہنوز اپنے (عہدہ سے سبکدوش ہونے سے پہلے )پاکستان جانے کی امید نہیں چھوڑی ہے"۔ نیویارک میں ہندوستانی سفارت کار دیویانی کھوبر گڈے کی گرفتاری پر انہوں نے کہاکہ ہند۔ امریکہ نزاع جلد ختم ہوجائے گی"۔ حالیہ عرصہ میں کچھ رکاوٹیں ہوئی ہیں لیکن میں پورے خلوص نیت کے ساتھ یہ یقین رکھتا ہوں کہ یہ رکاوٹیں عارضی ہیں۔ ان مساوزگار کی فراہمی کے بہترین مواقع کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ معاشی محاذپر دوسری سب سے بڑی فکرمندی "شرح افراط زر ہے"۔ ہم شرح افراط زر پرکنٹرول میں کامیاب نہیں ہوسکے جبکہ اس شرح پر کنٹرول کرنا ہماری عین خواہش تھی۔ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب شرح افراط زد بڑھی ہے تاہم ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ حل کرنے کیلئے ڈپلومیسی کو ایک موقع دیا جانا چاہئے"۔ وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ "شرح افراط زر غیر متوقع طورپر زیادہ رہی اور ان کی حکومت ، ان کی 10 سالہ معیاد کے دوران مینو فیکچرنگ شعبہ میں ملازمتوں کے کافی مواقع پیدا کرنے میں پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ کارکردگی کے اس پہلو میں اصلاح کیلئے ہم سخت محنت کررہے ہیں۔ چھوٹی اور متوسط صنعتی اداروں کی اعانت کیلئے ہمیں مزید موثر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ادارے ہماری ہمہ گیر پالیسیوں نے سماج کے کمزور طبقات کے ہاتھوں میں مزید رقم دی ہے۔ انہوں نے کہاکہ گذشتہ 4برسوں میں شرح افراط زد بہت زیادہ رہی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دیہی علاقوں میں اجرتوں میں، ماضی کے مقابلہ میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور دیہی و نیز شہری دونوں علاقوں میں فی کس صرفہ میں قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح گذشتہ ایک دہے میں 13.8 کروڑ عوام کو غربت سے نکالنے میں مدد ملی ہے۔

PM on defensive over minority welfare plans

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں