لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلم نمائندگی کا مسئلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-07

لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلم نمائندگی کا مسئلہ

2001ء میں ڈربن ساوتھ افریقہ میں اقوام متحدہ کی نسل پرستی مخالف کانفرنس چل رہی تھی۔ اس کانفرنس میں ہندوستان سے ایک وفد ہندوستان ہی کے خلاف دلتوں کے ساتھ نسلی سلوک کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے موجودتھا۔ یہ صورتحال پوری دنیا کیلئے تو دلچسپ تھی مگر خود ہندوستان کیلئے پشیمانی کا باعث تھی۔ اگر ہندوستان کے مسلمان ہندوستان میں اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور حق تلفیوں کو لے کر ہندستان کے خلاف اقوام متحدہ میں احتجاج کرتے تو ملک کا میڈیا اور دانشور طبقہ انہیں غدار وطن قرار دے دیتا اور اخبارات کے صفحات اس پر سیاہ کردئیے جاتے۔ فرقہ پرست سیاسی پارٹیاں اور دانشوران ٹی وی اور اخبارات کے صفحوں پر مسلمانوں کو حب الوطنی کا درس دیتے اور ان پر ہر طرف سے لعن طعن ہوتی۔ بہرحال، اس واقعے نے پوری دنیا پر اس حقیقت کو روشن کردیا تھا کہ ہندوستان میں ہندوؤں کے پسماندہ طبقات و ذاتوں کے ساتھ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک روا رکھا تھا۔ اسی لئے ہندوستان کا دستور اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرسکا اور SC اور ST طبقات کیلئے تحفظات رکھے گئے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ان کیلئے نشستیں محفوظ کی گئیں اور تعلیمی اداروں میں ان کیلئے کوٹہ مقرر کیا گیا۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی ان کیلئے نشستیں محفوظ کی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ SC اور ST نے 60 سال میں قابل قدر معاشی ترقی کی اور ملازمتوں میں ان کی نمائندگی 1.8فیصد سے بڑھ کر 16فیصد سے بھی زائد ہوگئی بلکہ نچلی ملازمتوں میں یہ فیصد 20 سے بھی زائد یعنی آبادی کے تناسب سے بھی زیادہ ہوگئی۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ دستور میں دئیے گئے حقوق کے مطابق ایس سی اور ایس ٹی طبقے کو سرکاری نوکریاں اور سیاسی اداروں میں تحفظ دے کر انہیں ترقی کی راہ میں آگے بڑھنے میں پوری طرح سے مدد دی گئی جس کے نتیجے میں وہ معاشی، سیاسی اور تعلیمی پسماندگی سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مگر دستور میں مسلم اقلیتوں کو تحفظات نہیں دی گئیں بلکہ انہیں اپنے جائز حقوق سے بھی محروم رکھا گیا۔ نہ انہیں سیاسی اداروں یعینی پارلیمنٹ اور اسمبلی میں متناسب نمائندگی دی گئی اور نہ ہی انہیں تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں تحفظات دی گئیں۔ بیورو کریسی کی عمومی متعصب پالیسی کی وجہہ سے وہ اپنے سابقہ پوزیشن سے پیچھے ہٹتے گئے اور ان کی پسماندگی دور ہونے کے بجائے بڑھتی گئی۔ ہندوستان کی پہلی قانون ساز کونسل نے اقلیتوں کے حقوق متعین کرنے اور قانون بنانے کیلئے ایک خصوصی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی تھی۔ مسلمانوں کی بدقسمتی رہی کہ اقلیتوں کے متعلق اس کمیٹی کے چیرمین فرقہ پرست کانگریس لیڈر ولبھ بھائی پٹیل بنے۔ اس کمیٹی نے اقلیتوں کیلئے قانون ساز اسمبلیوں اور وزارتوں، سرکاری ملازمتوں اور دیگر سرکاری عہدوں میں ریزرویشن سے متعلق سفارشات پیش کیں۔ امبیڈکر نے ریزرویشن پالیسی میں مسلمانوں اور ہندوستانی عیسائیوں کو بھی شامل کیا تھا۔ مگر جب حتمی طورپر دستور ہند تیار ہوا تو اس میں اقلیتوں کو تو ذکر کیا گیا مگر واضح طورپر مسلمانوں یا ان کے کسی طبقے یا فرقے کا ذکر نہیں کیاگیا۔ لہذا، مسلمانوں کو پسماندہ طبقات کے درجے میں نہیں رکھا گیا جو مسلمانوں کو بعد کے برسوں میں ریزرویشن نہ دینے کی بنیاد بن گیا۔ دستور میں ایک علیحدہ باب مخصوص طبقات کیلئے خصوصی توضیعات و رعایات سے متعلق ہے۔ اس باب میں شیڈولڈ ٹرائب اور شیڈولڈ کاسٹ کیلئے لوک سبھا اور ودھان سبھا میں ریزرویشن کی سہولت دی گئی ہے۔ اور یہ ریزرویشن دس سال پر کئے گئے مردم شماری کے مطابق ان طبقوں کی آبادی کے تناسب سے دیا جانا تھا۔ نیشنل کمیشن فار شیڈولڈ کاسٹ اینڈ شیڈولڈ ٹرائب کا قیام کیا گیا جس کا کام تھا کہ ان طبقات کی ترقی کیلئے وضع کئے گئے ترقیاتی اسکیموں کے مطابق ان کی ترقی کی جانچ و نگرانی کرنا، اس سے متعلق مشورے دینا اور اس کا تجزیہ کرنا تھا۔ مرکز کے ذریعے سے تشکیل دئیے گئے کمیشن کے باوجود، دستور نے انفرادی طورپر ریاستوں کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں اقیتوں اور پسماندہ طبقات کے اعداد و شمار اور حالات کے مطابق ریزرویشن کی وسعت اور مقدار کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ اس Clause میں دستور نے ریاستوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کسی بھی سماجی اور تعلیمی طورپر پسماندہ طبقے کی ترقی کیلئے پالیسی وضع اور نافذ کرسکتی ہیں۔ شیڈول کاسٹ کو ریزرویشن دینے کے بعد اس طبقے کی معاشی ترقی میں ان دن دونی رات چوگنی ترقی ہوئی۔ ان کی ترقی کافیصد بتدریج بڑھتا گیا جو 1995ء میں 16سے 21فیصد تک بڑھ گیا جو ان کی قومی آبادی کے تناسب سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ے کہ ہندوستان میں ایس سی کی کل آبادی 2001ء کے مردم شماری کے مطابق 16فیصد ہے اور سرکاری نوکریوں میں ان کا فیصد اگر Class III نوکریوں میں دیکھیں تو ان کا فیصد بھی 16فیصد ہے۔ آئین کی دفعہ 330(1) کے مطابق لوک سبھا میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کیلئے لوک سبھا میں نشستیں محفوظ کی جائیں گی۔ ان نشستوں کی کل تعداد اس ریاست میں ان کی آبادی کے تناسب سے ہوں گی۔ 332(1) کے مطابق ہر ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں درج فہرست ذاتوں کے لئے نشستیں محفوظ کی جائیں گی۔ ان نشستوں کی تعداد اس ریاست میں ان کی آبادی کے تناسب سے ہوگی۔ بہرحال، 334(B) کے مطابق نشستوں کا تحفظ اس آئین کی تاریخ نفاذ سے ساٹھ سال کی مدت کے متقاضی ہوجانے پر نافذ نہ رہے گا۔ لہذا، دستور ہند کی اس شق کی رو سے درج فہرست ذاتوں، قبیلوں کا ریزرویشن دستوری طورپر 26 جنوری 2010ء کو ختم ہوگیا۔ اس دوران ان پسماندہ طبقات کی معاشی ترقی کا نشانہ بھی تقریباً پالیا گیا۔ جیسا کہ مندرجہ بالا ٹیبل سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ پھر بھی دلتوں کیلئے ریزرویشن کو جاری رکھا گیا ہے کیونکہ یہ اب ووٹ بینک کی سیاست کا حصہ بن گیا ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی اس ریزرویشن کو ختم کرنے کی بات کرنے کی ہمت نہیں کرسکتی۔ دوسری طرف سچر کمیٹی نے یہ ثابت کردیا کہ مسلمانوں کی معاشی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ سرکاری نوکریوں میں جہاں 1947ء میں ان کی شراکت کی شرح37فیصد تھی وہ 2013ء میں صرف 3فیصد ہے۔ جبکہ آج دلتوں کی نوکری کا فیصد 13فیصد سے 16فیصد ہے جو ان کی آبادی کے تناسب کے قریب یا برابر ہے۔ مسلمانوں کی آبادی ملک کی آبادی کا 15فیصد ہے۔ (2011کی مردم شماری کے مطابق) مگر سرکاری نوکریوں میں ان کا تناسب صرف 3فیصد کے آس پاس ہے دستور نے ریاستوں کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں مسلمانوں و دیگر اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی سماجی و تعلیمی ترقی کیلئے ریزرویشن دے سکتی ہیں اور اس سلسلے میں اس نے لفظ پسماندہ کی کوئی تعریف متعین نہیں کی ہے۔ اس ابہام کا فائدہ اٹھاکر ریاستیں مسلمانوں کو یا ان کے پسماندہ طبقات کو سیاسی، تعلیمی اور معاشی رعایات و تحفظات دے سکتی تھیں۔ پھر بھی مسلم اقلیتوں کو ریزرویشن سے محروم رکھا جاتا ہے۔ آئین کی دفعہ 341(2) میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ قانون کے ذریعے فقرہ (1) کے تحت اجرا کئے ہوئے اطلاع نامہ میں مصرحہ درج فہرست ذاتوں کی فہرست میں کسی ذات، نسل یا قبیلہ کو یا کسی ذات، نسل یا قبیلہ کے حصہ کو یا اس کے کسی زمرہ کو داخل یا اس سے خارج کرسکے گی۔ 1950 سے قبل دستور میں ایس سی اور ایس ٹی میں مسلمان بھی شامل تھے مگر اس کے بعد دستور میں ترمیم کرکے اس میں سے مسلمانوں کو خارج کردیا گیا۔ لہذا پارلیمنٹ اگرچاہے اور ملک کے سیاسی نمائندے اگر خلوص دل سے مسلمانوں کی معاشی ترقی کرنا چاہیں تو ایس سی اور ایس ٹی میں مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو داخل کرسکتے ہیں۔ دستور نے انہیں اس کی اجازت دی ہوئی ہے۔ جبکہ سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی معاشی و سماجی پسماندگی کو طشت ازبام کردیا ہے حکومت کو چاہے کہ اس سمت پیشرفت کرے اور ایس سی قانون میں ترمیم کرکے مسلمانوں کو ان میں شامل کرے اور انہیں وہی مراعات دے جو اب تک دلتوں کو حاصل ہیں۔ سچر کمیٹی کی سفارشات کے پیش نظر دستور میں دوبارہ ترمیم کرکے مسلمانوں کو ایس سی اور ایس ٹی میں شامل کیا جائے اور انہیں جو مراعات دی گئی ہیں وہ مسلمانوں کو بھی دی جائیں خصوصاً مقننہ میں مسلمانوں کی نمائندگی محفوظ کرے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہندوستان کے آئین مے ایک پورا باب آرٹیکل 15(A) ہی بنیادی حقوق پر ہے جس میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ کسی بھی شہری کے ساتھ رنگ، نسل، زبان، مذہب یا علاقے کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ اس کے برعکس عملی طورپر مسلمانوں کو ان کی مصدقہ پسماندگی کے باوجود مخص مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن سے محروم رکھا گیا ہے جو دستور ہند کی روح کے منافی اور اس کی صریح خلاف ورزی ہے۔ دستور کے مجوزہ مسودے میں تو امبیڈکر نے اقلیتوں کیلئے خصوصی توضعیات میں مسلمانوں کو بھی شامل کیا تھا مگر بعد میں اقلیتوں سے مراد صرف ہندو اقلیتیں مراد لیا گیا۔ پارلیمنٹ میں عیسائیوں کیلئے بھی سیٹیں محفوظ اس طرح کی گئیں کہ انہیں نامزد ممبروں کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں نمائندگی دی گئی۔ مگر مسلمانوں کو جو پورے ملک میں آج تقریباً 15فیصد ہیں لوک سبھا یا اسمبلی میں ان کیلئے نشستیں محفوظ نہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی 25سے لے کر 50فیصد ہونے کے باوجود انہیں ایس سی کیلئے محفوظ کردیاگیاہے۔ ان علاقوں سے سیاسی پارٹیاں ہندو امیدواروں کو امیدوار بناتی ہیں اورمسلمان انہیں ووٹ دینے اور ان کے دست نگر رہنے پر مجبور ہیں۔ مگر اس کے برعکس ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی آبادی دلتوں سے زیادہ ہے ان علاقوں کو مسلمانوں کیلئے محفوظ کرنے کے بجائے ایس سی اور ایس ٹی کیلئے محفوظ کردیا جاتا ہے اور اس طرح مسلمانوں سے حق چھین کر دلتوں کو دے دیا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر ذیل میں ہندوستان کی کچھ لوک سبھا سیٹوں کے نام اور اس حلقے میں مسلمانوں کی آبادی پیش کی جارہی ہے۔ جنہیں دلتوں کیلئے محفوظ کردیاگیا ہے۔ آسام کا کریم گنج حلقہ ایس سی کیلئے محفوظ کردیا گیا ہے جبکہ اس حلقے میں مسلم آبادی 59فیصد ہے اور ہندو آبادی 47فیصد ہے۔ ظاہر اسی 47فیصد میں سے 10سے 15فیصد آبادی ایس سی طبقہ کی ہوگی اس لئے دستور کی رو سے انہیں تحفظ دینے کیلئے مسلم اکثریت حلقے کو نشانہ بنایا گیا جبکہ کسی دوسرے حلقے کو ایس سی کیلئے محفوظ کیا جاسکتا ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی دلتوں اور ایس سی سے کم ہوتی ہے۔ اسی فہرست میں بہار کا ارریہ لوک سبھا حلقہ ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 41فیصد ہے مگر اسے مسلمانوں کیلئے محفوظ نہ کرکے ایس سی کیلئے محفوظ کردیاگیا۔ راجستھان کے لوک سبھا حلقے ٹونک میں مسلمانوں کی آبادی 35فیصد ہے مگر اسے بھی ایس سی کیلئے محفوظ کردیاگیا جبکہ یہاں ایس سی آبادی مسلمانوں سے کم ہے۔ اترپردیش کے بجونور لوک سبھا حلقے کو بھی ایس سی کیلئے محفوظ کردیاگیا ہے جبکہ یہاں مسلم آبادی 41.7فیصد ہے۔ مغربی بنگال کے بیر بھوم لوک سبھا حلقے کو بھی ایس سی کیلئے محفوظ کردیاگیا ہے جبکہ یہاں مسلمانوں کی آبادی 35فیصد سے زائد ہے۔ یہی حال دیگر ریاستوں کے اسمبلی حلقوں کے مسلمانو کا ہے۔ ایسے بیشتر حلقوں کو جہاں مسلمانوں کی آبادی 30 سے 50فیصد ہے ایس سی یا ایس ٹی کےئے محفوظ کردیاگیاہے اور مسلمانوں کو قانون ساز اداروں میں نمائندگی سے محروم کردیا گیا ہے۔ ذیل میں ایسے چند اسمبلی حلقوں کی آبادی کی تفصیل پیش ہے جہاں مسلمانوں کو اپنی نمائندگی کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اترپردیش کے ہاپوڑ اسمبلی حلقے میں مسلمانوں کی آبادی 28.6فیصد ہے پھر بھی اس حلقے کو ایس سی کیلئے محفوظ کردیا گیا ہے۔ نجیب آباد میں مسلمانوں کی آبادی 49.2 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار 2001 میں مسلمانوں کی آبادی 50فیصد ہے۔ یہ اعداد وشمار 2001 کی مردم شماری کے ہیں۔ اس لئے 2011 میں مسلمانوں کی آبادی 50فیصد سے زائد ہوچکی ہوگی۔ یہاں ایس سی کی آبادی صرف 23فیصد ہے مگر پھر بھی اس حلقے کو ایس سی کیلئے محفوظ کردیا گیا ہے۔ اسی طرح نگینہ میں مسلم آبادی 42.3 فیصد ہے اور ایس سی آبادی 21.6 فیصد ہے مگر اسے ایس سی کیلئے محفوظ کردیا گیا ہے۔ اسی طرح بہار میں دھرئیا میں مسلم آبادی 30فیصد سے زیادہ ہے اور ایس سی آبادی صرف دس فیصد ہے مگر وہ ایس سی کیلئے محفوظ ہے۔ یہی نا انصافی مغربی بنگال میں بھی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی گئی ہے۔ یہاں بھی کئی اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی ایس سے زیادہ ہے مگر ان حلقوں کو ایس سی کیلئے محفوظ کردیا گیا ہے۔ مثال کے طورپر ساگر دیگھی میں مسلم آبادی 62فیصد سے زیادہ ہے اور ایس سی آبادی محض 18فیصد ہے پھر بھی مسلمانوں کو یہاں سے نمائندگی سے محروم کرکے اسے ایس سی کیلئے محفوظ کردیاگیا ہے۔ کالیا گنج میں مسلم آبادی 55.6 فیصد ہے اور ایس سی آبادی صرف 17فیصد ہے مگر یہ حلقہ بھی ایس سی کیلئے محفوظ ہے۔ اسی طرح باسنتی اور راجار ہاٹ میں بھی مسلم آبادی 41فیصد سے زائد ہے اور یہاں ایس سی آبادی 41فیصد سے زائد ہے اور یہاں ایس سی آبادی بالترتیب 39 اور 36فیصد ہے مگر یہ دونوں حلقے ایس سی کیلئے محفوظ ہیں۔ مزید اسی طرح کے حلقے ہیں جنہیں ایس سی کیلئے محفوظ کردیاگیا ہے۔ یہ نا انصافی صرف مندرجہ بالا تین ریاستوں ہی میں نہیں ہے بلکہ ہر ریاست میں مسلمانوں کو متناسب نمائندگی سے محروم کرنے کیلئے سازشاً ان حلقوں کو ایس سی کیلئے محفوظ کردیا گیا ہے۔ جس کی وجہہ سے مسلمانوں کے سیاسی نمائندوں کی متناسب تعدد پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نہیں پہنچ پاتی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حال ہی میں حکومت نے مزید لوک سبھا سیٹوں کو محفوظ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اب تک لوک سبھا کی 552 سیٹوں میں سے محفوظ سیٹوں کی تعداد117 سے بڑھ کر 132 ہوچکی ہے۔ جبکہ ریزرویشن کو ساٹھ سال کے بعد ختم کرنے کی دستور نے سفارش کی ہے۔ انہی مسلم مفادات کو نقصان پہنچانے والی پالیسیوں کی وجہہ سے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی آرہی ہے جس پر سیاسی پارٹیوں نے فکر مندی تو ظاہر کی ہے مگر اس سمت کوئی ٹھوس اور مثبت قدم نہیں اٹھایا ہے۔ حالیہ لوک سبھا میں صرف 28 ایم پی ہیں جبکہ مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 13.4 فیصد ہے۔ لوک سبھا کی کل نشستیں 552 ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے ان کی کل نشستیں 60کے قریب ہونی چاہئیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ گذشتہ لوک سبھا میں مسلم ایم پی کی تعداد 34تھی جو کہ بڑھنی چاہئے تھی مگر 6نشستیں کم ہوگئیں۔ اس کے برعکس ایس سی کیلئے مخصوص نشستوں کے تناسب سے ہی ایس سی ایم پی لوک سبھا میں ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف پارلیمنٹری کمیٹیوں میں بھی ایس سی طبقے کے لیڈر ان کو چیرمین کا عہدہ دیا گیاہے جبکہ مسلمانوں کو یہاں بھی محروم رکھا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے تھنک ٹینک، دانشوران، لیڈران اور نظریہ ساز اس معاملے کو سنجیدگی سے اٹھائیں اور اس اہم معاملے کو انتخابی موضوع بنائیں۔ مسلمان ہندوؤں کے پسماندہ طبقات کو ان کی ترقی کیلئے دی جانے والی مراعات و سہولیات کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان کیلئے خوشی کا باعث ہے کیونکہ اس سے خود مسلمانوں کو اپنے حقوق کیلئے لڑنے کا جواز ملتا ہے۔ ساتھ ہی مسلمان ان طبقات سے بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کے حقوق کی جنگ میں وہ بھی مسلمانوں کا ساتھ دیں۔

The issue of Muslim representation in the Lok Sabha and state assemblies

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں