8/جنوری نقطۂ نظر رفیع الدین حنیف قاسمی
ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں ، ہندو مذہب کے ماننے والے اکثریت میں ہیں ،خصوصا الیکشن وغیرہ کے مواقع سے ایسا ہوتا ہے فرقہ وارانہ ذہنیت کا پس منظر رکھنی والے پارٹیاں ہندو مسلمان آبادیوں میں کچھ ایسے حرکات کرتی ہیں کہ جس سے مذہب پر آنچ آتی ہے ، سیاستدانوں کے کچھ بکے ہوئے لوگ ہوتے ہیں، مسجد مندر وغیرہ کے کسی ایشو کو موضوع بحث بنا کر فسادات کرتے ہیں ، اس طرح ہندو مسلم جذبات سے کھلواڑ کر کے ، ان کو آپس میں دست وگریباں کر کے مذہبی منافرت کی آگ کو ہوا کر دے کرماحول اپنے ووٹ بنک کو مضبوط کرنے کے لئے سازگار کرتے ہیں ، مذہبی مسئلہ اس قدر جذباتی ہوتا ہے عوام اندھا دھن بغیر کسی حقیقی پس منظر کے علم کے ہندو مسلمان کو مسلمان ہندو کو اپنا دشمن باور کر کے ایک دوسرے کے جان کے درپے ہوجاتے ہیں اور ہوتا یوں ہے کہ عموما لیڈران اور پنجایت افسران اور پولیس ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ، انہیں کی روٹی سینکنے کے لئے یہ فسادات بپا کئے ہوتے ہیں ، اس لئے یہ ہندؤں کا ساتھ دیتے ہیں ، اس لئے بے چارے مسلمان بے یار ومدگار ہو کر فسادات میں پٹے جاتے ہیں ، ان کا جانی مالی بے شمار نقصان ہوتا ہے اوران پر اس قدر نفسیاتی خوف سوار ہوتا ہے وہ گھر دار اور اپنے عزیز وطن اور گاؤں تک سے رخصت سفر باندھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ، آزادی کے بعدہندوستان جیسے سیکولر اور جمہوری ملک میں ایسے بے شمار فسادات ہوئے ہیں جس میں مسلمانوں کا بے شمار جانی ومالی نقصان ہوا جس سے ابھر نے کے لئے ان کو نہ جانے کتنے سال بیت گئے ہیں ، ان فسادات کی لمبی فہرست ہے جن میں 1983 ء کا نیلی قتل عام ، 1984ء کے سکھ مخالف فسادات ، 1987ء کے ہاشم پورہ فرقہ وارانہ فسادات میں مسلم نوجوانوں کا قتل ، گجرات مں 2002 ء کا منظم قتل عام ، 2007 میں اڑیسہ میں عیسائیوں پر ہونے والے حملے ، 2008 میں مہاراسٹر کے بھتما نگے میں دلت خاندان پر حملے ، مراد آباد کے فسادات ،2012میں آسام میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل عام اور حالیہ مظفر نگر فرقہ وارانہ فسادات جس سے ابھی بھی باغپت اور شاملی کے مسلمان جوجھ رہے ہیں ، اس قسم کے فسادات میں بی جے پی کی پشت پناہ تنظمیں آریس یس ، وشوہندو پریشد ، بجرنگ دل اور شیوسینا اور ایم این ایس کے کٹر پرست لوگ شامل ہوتے ہیں ،جس میں مسلمانوں کی ہزاروں جانیں چلی جاتی ہیں ، ان کے املاک اور جائیدادیں تباہ وبرباد ہوتی ہیں ، ان کی عزت وناموس کے سا تھ کھلواڑ کیا جاتا ہے ،اس قسم کے فسادات پر روک لگے اور مسلمانو ں کو جانی ومالی تحفظ حاصل ہو ، اس کے لئے کئی سالوں سے فرقہ وارنہ تشدد مخالف بل کا مطالبہ کیا جارہا تھا، فسادات کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ایسے بل کی سخت ضروت تھی جس سے متاثرین کے درد کا درما ہوسکے ، مسلمانوں کے علاوہ دیگر ملک کے دوسرے طبقات کا تحفظ ہو، اگر پارلیمنٹ کے آخری سیشن میں یہ بل پاس ہوتا تو ا س کے بہترین اور خوش آئندنتائج سامنے آتے، فسادیوں پر قدغن لگتا ، چونکہ اس بل میں پورے علاقے ایک طبقہ پر جرمانہ لگانے کی بات کہی گئی ہے جو اس فساد میں ملوث رہا ہے ، اس کے علاوہ متاثرین کی باز آباد کاری اور ان کے معاوضہ کی بھی بات کہی گئی ہے ، اس کے علاوہ پولیس والوں کو جو کہ فسادیوں کا عموما تعاون کرتے ہیں ان کے بھی جوابدہ ہونے کی بات کہی گئی ہے ، اس کے علاوہ ایسے فسادات کے موقع سے ریاست کے علاوہ مرکزی سرکار کے بھی ایکشن لینے کی بات کہی گئی ہے ، بہرحال اگر یہ بل پاس ہوتا تو فسادات اور فسادیوں پر کچھ قدغن ضرور لگتا ، لیکن قوم کے قائدین اس بل کو پاس ہونے کب دیتے ؟ ان کی ایک دوسرے پر دشنام طرازیاں تو انہیں فسادات کے مرہون منت ہوتے ہیں ، جس سے وہ اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرتے ہیں ، کو ئی فرقہ وارنہ منافرت پھیلا کر ہندو مسلم جذبات کا سہارا لے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتا ہے تو کوئی ان فسادات کے متاثرین کے ہمدردی کی بات کہہ کر اپنے ہوس اقتدار کی تکمیل کرتا ہے ، اس بل کے پاس کرنے میں کانگریس اور بی جے پی دونوں کے دوغلے رویہ سامنے آئے ، کانگریس نے اس بل کو پاس کرنے میں سرد مہری دکھائی تو بی جے پی شروع ہی سے اس بل کی مخالفت کے لئے کمربستہ کھڑی تھی ،کیوں کہ اس بل کے پاس ہونے پر راست اس کا اثر اس پارٹی اور اس کے کارندوں اور کارکنوں پر ہوتا ، فرقہ وارانہ منافرت کا زہر پھیلا کر جو وہ اپنی سیاسی دکان چلاتی ہے اس پر پابندی لگتی ،اس لئے اس نے اس بل کو اکثریت مخالف کہہ کر ٹھکرانے کی کوشش کی؛ بلکہ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی کے اندورنی اتحاد نے لوک پال بل کو پاس کر اکر اس فرقہ وارانہ تشدد مخالف بل کو سرد خانے میں ڈال دیا ، ویسے تو انا ہزارے نے جس "جن لوک پال بل" کے تحریک چلائی تھی وہ بل بعینہ تو پاس نہ ہوسکا ، اس میں بہت سی وہ ذیلی دفعات شامل نہیں ہیں جس سے جامع طور پر بدعنوانی ، رشوت ستانی پر قدغن لگتا ،اس میں اس قسم کی شقیں شامل ہیں، جس سے یہ بل رشتوت ستانی اور کرپشن کے خاتمہ کے لئے مکمل معاون نہیں بن سکتا،ایک تو یہ کہ شکایت کنندہ شخص اپنے شکایت کو ثابت نہ کر پایا تو الٹا اس کو سزا دی جائے گی ،اس کے علاوہ جس افسر کے خلاف شکایت ہوگی اس کو پہلے ہی مطلع کیا جائے گاکہ وہ فریقِ مخالف کے تمام ثبوتوں کا خاتمہ کردے اور اسی کو کٹھرے میں مجرم بنا کر لا کھڑا کردے ، ویسے انا ہزارے نے اس بل کو قبول کر لیا ہے ، اس کا مقصد بھی یہ تھا کہ وہ اپنا پرانے رفیق اور ہمدم کیجروال کو نیچا دکھانا چاہتے تھے ؛ حالانکہ ان کا پہلے مدعا یہ تھاکہ ہمیں سرکار کا لوک پل نہیں چاہئے ، ہمیں تو "جن لوک پال بل "چاہئے ،پتہ نہیں پھر انا ہزارے کیسے نے کیسے اپنے تیور بدل لئے ؛ بلکہ ان کو اپنے ساتھی اور رفیق کی پارٹی کی جیت ہضم نہیں ہور ہی تھی ، اس لئے جیسے تیسے جوڑ توڑ کر کے انہوں نے لوک پال بل کے پاس ہونے سے پہلے اپنی بھول ہڑتال کو جاری رکھ کر اس بل کو پاس کرایا ؛ لیکن وہ اپنے دوست کی رقابت میں سیاست دانوں کے پانسے میں پھنس جانے سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکے ، اور اس کے علاہ لوک پال بل کو پاس کرانا ضروری بھی تھا ، اس لئے کہ کیجریوال دہلی کا الیکشن جیت کر اپنی جھاڑو لے کر کرپشن اور بد عنوانیوں کی گندگی کوختم کرنے کے لئے مرکز دہلی کی چیف منسٹر کی کرسی پر براجمان ہوچکے تھے اور وہ آئے دن اپنے عوام دوست وعدوں تکمیل اور کرپشن کے خاتمہ کے لئے جدوجہد میں مصروف ہوگئے،ویسے بھی وہ لوگ پال بل کے بغیر اس راہ پراس سیدھی سچی بد عنوانیوں سے خالی راہ پر چل پڑے ہیں کہ ان کی پارٹی کا سارے ملک کے طول وعرض میں طوطی بولنے لگاہے ،گجرات جیسی ریاست میں اس کی بازگشت اور اس کی ممبر شب کی خبریں سننے کوآرہی ہیں ، کانگریس اور بی جے پی دونوں کی رات ودن کا چین وسکون حرام ہے ، بہرحال فرقہ وارنہ تشدد بل کے بجائے اس بل کو پاس کرانے کا معاہدہ کانگریس اور بی جے پی میں پہلے ہی ہوچکا تھا، اس لئے بی جے پی نے اس بل کو بلا کسی پس وپیش کے قبول کیا اور فرقہ وارنہ تشدد بل کے آخری مراحل تک بھی اپنی مخالفت نہیں دکھائی ، چونکہ پہلے سے یہ بات طئے شدہ تھی کہ کچھ ایسا کرنا ہے کہ ایک بل کے آڑ میں دوسرے بل کو نظر انداز کیا جائے ،اور ایسا ہی ہوا کہ سرکاری لوک پال بل تو پاس ہوگیا اور فرقہ وارانہ تشدد بل کو آہستہ آہستہ میزپر سے بڑی ہنر مندی کے ساتھ ہٹادیا گیا ، کانگریس جس نے 2004 ء کے اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا تھا کہ : کانگریس فرقہ وارنہ امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے اور برقرار رکھنے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کرے گی ، جس کے لئے اس نے فرقہ وارانہ تشدد بل وضع کرنے کی بات کہی ، پھر یہ لیت ولعل کا شکار رہا ، 2011 میں قانون کا ایک مسودہ تیار ہوا ،کچھ خامیوں کے باوجود 2011کا مسودہ فرقہ وارنہ ہم آہنگی کے کام کرنے والوں کے لئے قابل قبول تھا، بی جے پی اور ہندوتونظریات کے حامل اور نظریات رکھنے والوں نے اس بل کا انکار اس لئے کیا کہ یہ اکثریت کے خلاف ہے ، اس بل پر عمل اس وقت ہوگا جب کہ اقلیت کا نقصان ہو گا،اکثریت کا نقصان ہونے پر اس بل پر عمل پیرا نہ ہویا جاسکے گا؛ حالانکہ اس بل پر بی جے پی کا اعتراض یہ نہیں تھا ؛ بلکہ فسادات میں چونکہ راست ملوث بی جے پی ہی ہوتی ہے ، اگر یہ بل پاس ہوتا ہے تو گرفت اسی کے کارندوں اور کارندوں کی ہوگی ، ورنہ آزادی کے بعد سے جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں اس کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ ہمیشہ نقصان اقلیتوں کا ہی ہوا ہے ،ہندوؤں کا بہت کم نقصان ہوا ، اسلئے اقلیتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے اس بل کو نافذکرنے میں کوئی حرج نہیں چاہئے اور اس کو اکثریت مخالف قرار نہیں دینا چاہئے ،،آزادی کے بعد کی تاریخ میں دیگرپسماندہ ذاتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے تو بل پاس کرائے جیسے دلت ایکٹ، ایس سی ایس ٹی کے لئے قانون بنا ، لیکن مسلمانوں کے تحفظ کے لئے کوئی قانون پتہ نہیں سیاستدانوں کو کیوں قبول نہیں ؟ جب کہ ملک کی دوسری اکثریت مسلمانوں کی ہے ، جتنا مسلمانوں نے ملک کے جتن اور حفاظت کے لئے خون بہایاہے شاید دوسری ہندو ستانی باسیوں نے اس قدر پسینہ بھی بہایا ہو۔
جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خون ہم نے دیا
جب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
|
رفیع الدین حنیف قاسمی |
Lokpal bill instead of Anti communal violence bill. Article: Rafi Haneef
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں