اردو صحافت کے لیے سب کچھ قربان کر دینے والے - عشرت علی صدیقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-04

اردو صحافت کے لیے سب کچھ قربان کر دینے والے - عشرت علی صدیقی

ishrat-ali-siddiqui
عشرت صاحب کو یادش بخیر، پچاس پچپن سال قبل پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ صلاح الدین بھائی کی بارات میں ایک طرح سے ہمارے گھر آئے تھے۔ "یہ ایک طرح سے "وضاحت طلب ہے۔ ہم لوگ قاضی باغ کی اختر منزل کے ایک حصہ میں بطور کرایہ دار رہتے تھے۔ کرایہ دار ہم ضرورتھے لیکن ہر مہینے بہت تھوڑے سے روپئے دینے کے علاوہ مالک مکان اور کرایہ دار کے درمیان تعلقات ایسے تھے کہ معلوم ہوتا تھا ایک ہی خاندان کے لوگ کسی بڑے سے مکان کے دو حصوں میں الگ الگ رہتے ہیں۔ مکان کے مالک دراروغہ عبدالعلی کی دو لڑکیاں تھیں، زیبا باجی، شمسہ باجی اور جنہیں میں زیبا باجی اور شمسہ باجی کہتا تھا۔ شادی اس وقت زیباباجی کی تھی۔ یہ تھا وہ پس مناظر جس نے مجھے "گھراتیوں،ل میں شامل کردیا تھا۔
کسی بھی باراتی سے واقف نہ تھا لیکن برجموہن ناتھ کا چر اور مجید پرویز میں سے کسی نے، کہ یہ دونوں افسانہ نگار اور شاعر تھے، ایک ایک باراتی کو دور ہی سے پہنچوادیا تھا۔ تقریباً سارے ہی نام ایسے تھے جن کی چیزیں میں پڑھ چکا تھا۔ سلام مچھلی شہری، عشرت صدیقی، صباح الدین عمر، کمال احمد صدیقی، چیتن سنگھ، شوکت صدیقی، منظر سلیم، سداسرن مسرا اور کامریڈ شکیل کے نام یاد آرہے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ ایسے بھی تھے جن کو بعد میں دوسری طرح سے خوب خوب جانا۔ یہ تھے کالی شنکر شکلا، شریمالی، بابول لا اور تواری جی اور نعیم خاں یہ سب کمیونسٹ تھے، ویسے جن لوگوں کا ذکر پہلے کیا ہے ان میں سے بھی زیادہ تر کمیونسٹ ہی تھے لیکن ذرا کم سرخ۔ جی سفید بھک کرتا پائجامہ پہنے، بیدکی بڑی سی کرسی پر دراز تھے اور باراتیوں کی آؤ بھگت میں دوسرے بہت سے لوگ لگے ہوئے تھے۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔ تھوڑی دیر بعد داروغہ جی نے مجھے اشارے سے بلایا اور ایک صاحب کے بارے میں جو کھادی کی بھورے رنگ کی ذرا سی اٹنگی شیروانی اور کھادی ہی کا کرتا پائجامہ اور ٹوپی پہنے ہوئے تھے پوچھا "یہ کون صاحب ہیں"
"عشرت علی صدیقی"
میں نے کہا "وہی عشرت صاحب جو دنیا کا حال لکھتے ہیں ؟"
یہ تھا عشرت صاحب کے کالم کی مقبولیت کا عالم۔ برسوں بعد جب میں انگلی کاٹے بغیر خود کو ادیبوں میں شامل کرلیا تو "قومی آواز" آنا جانا شروع ہوا۔ اس زمانے میں شہر کے ادیبوں کا ایک کعبہ "قومی آواز" بھی ہوا کرتا تھا۔ ایک دن جیسے یکایک احساس ہوا کہ باہر کے لوگوں کی موجودگی میں عشرت صاحب اپنے کمرے سے نکل کر سب ایڈیٹروں کے کمرے میں آتے ہیں تو سب ایڈیٹر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان ادیبوں اور شاعروں سے انہیں کوئی مطلب نہیں اور وہ اپنے کام میں لگے ہیں، سرجھکائے ہوئے اور اگر حیات اللہ صاحب ادھر نکل آتے ہیں تو وہ لوگ بھی جو اب تک کام میں مصروف تھے، اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر سے آئے ہوئے ان لوگوں میں شامل ہوجاتے ہیں جن سے حیات اللہ صاحب باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اسی وقت اندازہ ہوا کہ عشرت صاحب ذرا سخت قسم کے آدمی ہیں اور پسند نہیں کرتے کہ ادیب و شاعر دفتر کے کام میں مخل ہوں۔
معاملہ اصل میں یہ تھا کہ اخبار نکالنے کی ذمہ داری عشرت صاحب کی تھی، حیات اللہ صاحب کی نہیں اور عشرت صاحب صحافی اور صرف صحافی بلکہ فنافی الصحافت جب کہ حیات اللہ صاحب سیاستداں بھی تھے، ادیب بھی، پیراک بھی اور مولوی بھی۔ ان دونوں کی جانب میرا رویہ کچھ اس قسم کا تھا۔ باخدا دیوانہ باشد، با محمد ہوشیار
چند سال بعد یعنی 1955ء میں جب میں یونیورسٹی میں "قومی آواز" کے اعزازی رپورٹر بنائے جانے کی خواہش ظاہر کی تو غیر رسمی سا انٹرویو عشرت صاحب ہی نے لیا۔ "قومی آواز پڑھتے ہو" انہوں نے پوچھا۔ "جی ہاں" میں نے کہا "اور" "کبھی کبھی، ملاپ، اور ’پرتاپ، دیکھ لیتا ہوں"۔ میرا مطلب انگریزی اخبار سے ہے، "نیشنل ہیرالڈ،ل خوش ہوئے۔ "ملاپ" اور "پرتاپ" روازانہ دیکھتے ہو؟" کی نہیں، کبھی کبھی۔۔۔۔۔ میرے محلے میں ہومیو پیتھی کے ایک سندھی ڈاکٹر ہیں ان کے مطب میں آتا ہے"۔ "قومی آواز کیا بات پسند ہے؟" یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ جو بات فوراً ذہن میں آئی کہہ دی۔ اتفاق سے بٹیر نکلی۔ "خبریں ایک سلسلے سے ہوتی ہیں، میں نے جواب دیا۔ کہنا یہ چاہتا تھا کہ کسی بڑی خبر سے متعلق جو چھوٹی چھوٹی خبریں ہوتی ہیں وہ اصل خبر کے ساتھ لگی ہوتی ہیں لیکن اتنا لمبا جملہ اس وقت بن نہیں پایا تھا۔ قاعدے کا اب بھی نہیں بن پایا ہے۔ تھوڑی دیر قبل درخواست میں نے شاید حیات اللہ صاحب کو دی تھی اوروہاں سے یہاں آگئی تھی کیونکہ فیصلہ تو اصل میں عشرت صاحب ہی کو کرنا تھا۔
اسی دن مجھے پروانہ تقرری بھی مل گیا۔ ڈھائی سال کے بعد میں "قومی آواز" سے باقاعدہ طور سے متعلق ہوگیا۔ اس وقت کسی انٹرویو کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اب عشرت صاحب سے ملاقات تقریباً روزانہ ہونے لگی۔ کبھی کسی کام سے ان کے پارٹیشن میں جانا ہوتا، کبھی وہ کوئی کاغذ ہاتھ میں لئے سب ایڈیٹروں کے کمرے میں آتے یا کاتبوں کے لمبے سے کمرے کی طرف جاتے یا ہم لوگ "معشوق" کے ہوٹل میں چائے پینے یا سگریٹ وغیرہ لینے باہر جاتے تو چکہ کے پیچھے ان پر نظر پڑجاتی۔ عام طورپر سر جھکائے کچھ لکھتے یا میز کی دونوں جانب کسی قدر بے سلیقگی سے رکھے ہوئے کاغذات میں کچھ تلاش کرتے ہوئے نظر آتے۔ ان کا پارٹیشن حیات اللہ صاحب کے بڑے کمرے سے ملحق تھا۔
حیات اللہ صاحب وہاں بیٹھ کر ایڈیٹوریل لکھتے، اخبارات پڑھتے، جو لوگ ان سے ملنے آتے ان سے بات چیت کرتے، کبھی گھنٹوں بیٹھتے اور کبھی بس اداریہ لکھ کر چلے جاتے۔ کبھی تو یہ تک ہوتا کہ ہم لوگوں کو پتہ ہی نہ چلتا کہ وہ کب آئے اور کب چلے گئے۔ "قومی آواز" میں پہلے دن جو مجھے کاپی دی گئی وہ ٹھاکر حکم سنگھ سے متعلق تھی۔ انتخابات ہونے والے تھے اور کانگریس نے ٹھاکر صاحب کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف کابینہ بلکہ پارٹی تک سے استعفی دے دیا تھا۔ یہ خبر یو پی آئی کے ٹیلی پرنٹر سے آئی تھی اور مجھے اس کا ترجمہ کرکے سرخی لگانی تھی۔ اچھی تو کیا قابل قبول سرخی کی بھی امید شاید ہی کسی نے کی ہو۔ اصل امتحان تو ترجمے کا تھا۔ اس وقت تک میں کئی جاسوسی ناولوں کے ترجمے کرچکا تھا جن میں سے ایک میرے نام سے اور باقی فرضی ناموں سے شائع ہوئے تھے۔ چنانچہ مجھے ترجمہ کرنے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوئی۔ عشرت صاحب نے ہی میرے ترجمے کی غلطیاں درست کیں اور یہ خبر ان کی دو کالمہ سرخی کے ساتھ دوسری شاہ سرخی کی طرح شائع ہوئی۔ دو تین بعد منظر سلیم صاحب نے مجھ سے کہا "آپ کا کام تو ہوگیا"، کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ عشرت صاحب کہہ رہے تھے کہ تین مہینے کیلئے جو عارضی تقرر ہوا ہے، کسی یقین دہانی کے بغیر اس کے مستقل ہوجانے کے خاصے امکانات ہیں۔ لیکن یہ مدت مزید تین مہینے کیلئے بڑھادی گئی اور چھ مہینے بعد فیصلے کی گھڑی آئی تو ایک اور صاحب جنہیں ایسوشی ایٹیڈ جرنلسٹ کے ایک ڈائرکٹر کی سرگرم حمایت حاصل تھی امیدوار کے طورپر میدان میں آگئے۔
یہ امیدوار میرے دوست اورکمیونسٹ پارٹی میں میرے ساتھی نجم الحسن تھے۔ پچھلے چھ مہینوں کے دوران "قومی آواز" میں عام خیال یہی تھا کہ میرا مستقل کیا جانا محض ایک رسم کی ادائیگی ہے لیکن حالات یکایک گڑ بڑا گئے۔ میں نے عشرت صاحب سے ملاقات کی تو انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے ذرا بھی امید بندھتی۔ ان سے مایوس ہوجانے کے بعد میں نے حیات اللہ صاحب سے ملاقات کی اور جب انہوں نے مقابلے کی بات کہی تو میں نے ایک سخت بات کہہ دی اور ایک عرصے تک یہی سمجھتا رہا کہ میرا مستقل کیا جانا اسی کا نتیجہ ہے۔
لیکن بہت دنوں بعد معلوم ہوا کہ اس معاملے میں دوسری باتوں کے علاوہ عشرت صاحب نے حیات اللہ صاحب سے یہ بھی کہا تھا کہ اس جگہ پر عابد سہیل کے بجائے کسی اور کو لیا گیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم لوگوں نے دو دو غلطیاں کی تھیں ایک تو اس وقت جب انہیں تین مہینے کیلئے رکھا تھا اور دوسری اس وقت جب یہ مدت تین مہینوں کیلئے بڑھائی تھی۔ بدنامی ہوگی سو الگ۔ عشرت صاحب نے اس واقعہ کا ذکر مجھ سے کبھی نہیں کیا۔ وہ اپنی نیکیاں نہیں گناتے بلکہ خود بھی بھول جاتے ہیں، اور پھر تو یہ دفتر کا راز کا تھا۔۔۔۔۔ مجھے یہ بات بہت دنوں بعد محمد حسن قدوائی صاحب نے بتائی تھی۔
عشرت صاحب کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ انہیں غصہ کبھی نہیں آتا تھا۔ ایک دلچسپ واقعہ مجھے یاد آرہا ہے ایک رات بارہ ساڑھے بارہ بجے انہیں دفتر میں دیکھ کر ہم سب حیران رہ گئے۔ محمد حسن قدوائی صاحب نے بہت بہت پوچھا لیکن وہ پھوٹ کے نہ دئیے۔ اپنے کمرے میں جاکر کچھ کاغذات الٹے پلٹے گویا کوئی ضروری کاغذ بھول گئے تھے اور چلے گئے۔
ہم لوگ بھی بھول گئے۔ بہت دنوں بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے خواب دیکھا تھا کہ "قومی آواز" کے دفتر میں آگ لگ گئی ہے اور سب کچھ جل کر خاک ہوگیا ہے۔ بس اسی پریشان میں دفتر چلے آئے تھے۔ خواب سچا بھی ہوتا تووہ کیا کرلیتے؟ ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہ کرسکتے۔ لیکن "قومی آواز" عشرت صاحب کیلئے صرف ان کا دفتر نہیں بلکہ سب کچھ تھا اور اس سب کچھ کو نذر آتش ہوتے دیکھنے کے بعد بھلا ان کو نیند آتی؟

عشرت صدیقی کو جس نے کام کرتے نہیں دیکھا وہ اندازہ بھی نہیں کرسکتا کہ وہ کتنا کام کرتے تھے۔ پونے دس بجے کے قریب دفتر آجاتے۔ اخبار ایک بار پھر پڑھتے، اس کے بعد سب سے پہلے خطوط کا پلندہ کھولتے، تقریباً ایک کالم کے خطوط ایڈیٹ کرتے، ایڈیٹوریل کے صفحے کا کوئی مضمون موجود ہوتا تو اس کی کانٹ چھانٹ کرتے، زبان درست کرتے، نہ ہوتا عشرت صاحب تام جھام کے قائل نہیں تھے اور نہ اپنا ڈھول گلے میں لٹکائے رہتے تھے۔ اس لئے اردو صحافت کو ان کی "دین" سے لوگ ذرا کم ہی واقف ہیں۔ "قومی آواز" کا پہیہ ایسے چلتا کہ "گھر گھر" کی آواز تک نہ ہوتی جیسے کچھ ہوہی نہ رہا ہو۔ کسی شوروغل، کسی افراتفری اور کسی ہنگامے کے بغیر اور یہ کارنامہ تھا عشرت علی صدیقی کا۔ وہ جو جگر مراد آبادی نے کہا ہے :
اسیراس حسن سے کیا ہے کہ شور زنجیر پا نہیں ہے
کچھ وہی کیفیت تھی، ایک ذرا سے فرق کے ساتھ کہ نہ کسی کے پیروں میں زنجیر ہی ہوتی۔۔۔۔ سبب اس کا یہ تھا کہ ضرورت پڑنے پر وہ دوسروں کا کام بھی نمٹا دیتے تھے۔ کسی چیف صاحب نے چھٹی لے لی تو وہ اخبار نکال دیں گے، سب ایڈیٹر کم پڑ گئے تو وہ خبروں کا ترجمہ کر دیں گے۔ دو تین نے چھٹی مار دی تو وہ دوسرے کاتبوں کو زیادہ کام کرنے پر راضی کرلیں گے، چپراسی کہیں گیا ہوتو مضمون، خطوط یا اداریہ حود ہی کاتبوں کو دے آئیں گے۔۔۔ اور چائے وہ عید، بقر عید پیتے ہوں تو پیتے ہوں۔ دفتر میں پیالی کبھی ان کی میزپر دیکھی نہیں، پان کھاتے نہیں، سگریٹ پیتے نہیں، اس کے بعد کھانے کیلئے بچتا ہے کیا ہے، علاوہ غم کے، لیکن اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں کیوں کہ اس طرح کی باتیں وہ ہزار پردوں میں رکھتے ہیں۔
کھانے پینے کے معاملے میں عشرت صاحب اور حیات اللہ صاحب یعنی "قدس" اور "روح القدس" کی عادتیں بڑی حد تک ایک سی تھیں۔ دن کا کھانا دونوں کھاتے تھے، حیات اللہ صاحب یہ کمی چھاج سے پوری کرتے تھے، عشرت صاحب چھاج پھونک پھونک کر بھی نہیں پیتے تھے۔
ایک بات اور عشرت صاحب شاعری نہیں کرتے، افسانے نہیں لکھتے، پیراکی سے انہیں شوق نہیں، سیاست میں ان کی عملی دلچسپی صرف ڈاکٹر سدھو تک ہے اور مولوی وہ ہیں نہیں، چنانچہ بس وہ ہیں اور صحافت ہے اور وہ۔ ان کا اور صحافت کا معاملہ پانچ وقت کی نمازکے علاوہ "من تو شدم تو من شدی "والا ہے۔
عشرت صاحب کا لکھنؤ میں صحافت سے تعلق "ہفت روزہ ہندوستان" کے توسط سے قائم ہوا تھا اس کے بعد وہ حیدرآباد میں قاضی عبدالغفار کے "پیام" سے متعلق ہوگئے اس طرح کم و پیش پنڈت نہرو نے آرام کو حرام 1956ء میں قرار دیاتھا، عشرت صاحب نے 1937ء سے ہی اسے خود پر حرام کر رکھا ہے اور تھکنا وہ جانتے نہیں۔
"قومی آواز" سے سبکدوش ہونے کے بعد سے انہوں نے اپنے لئے دوسری مصروفیات ڈھونڈلی ہندوستان یا دنیا کے کسی نہ کسی مسئلے پر وہ ہر روز ایک مضمون ضرور لکھتے رہے۔ گورا چٹارنگ، بوٹا سا قد، کھدر کا کرتا پیجامہ، اس پر کھدر کی ہی شیروانی اور سر پر سفید گاندھی ٹوپی بالکل ویسی ہی رہی جیسے پچاس سال قبل تھی جب میں انہیں پہلے پہل دیکھا تھا۔

دہلی اردو اکادمی نے عشرت صاحب کو بہادر شاہ ظفر قومی ایوارڈ دے کر اردو صحافت کی بہترین روایات اور ان کے حوالے سے خود کو سرخرو کیا ہے۔

Ishrat Ali Siddiqui - who sacrificed everything for Urdu journalism

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں