سانس باقی آس باقی - ذکیہ جعفری کو انصاف کی امید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-23

سانس باقی آس باقی - ذکیہ جعفری کو انصاف کی امید

Ehsan Jafri with Zakia Jafri and son daughter
کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری اب بہت ہی کمزور اور تھکی تھکی سی نظر آتی ہیں۔ وہ 74 برس کی ہوچکی ہیں اور انہوں نے کمیشنوں اور ذرائع ابلاغ اور عدالتی سماعتوں کے دوران سینکڑوں بار اپنے بیانات دئیے ہیں لیکن کسی بات نے ان کے حوصلہ کو اب تک کمزور نہیں کیا ہے کہ وہ 2002ء کے گجرات فسادات کے متاثرین کو انصاف دلوانے کیلئے جن میں ان کے شوہر اور دیگر 68 افراد بھی شامل ہیں، جنہیں احمد آباد میں گلبرگ سوسائٹی میں بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا، پیچھے ہٹ جائیں۔
انہوں نے کہا "جی ہاں! میں تھک ضرور گئی ہوں مگر میرا عزم برقرار ہے"۔

ذکیہ نے اس وقت بھی اپنے صبر و استقلال کو برقرار رکھا جب احمد آباد کی میٹرو پولٹین مجسٹریٹ کی عدالت نے 26 دسمبر کو ان کی احتجاجی عرضی کو خارج کردیا۔ جو انہوں نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی اس کیس کو داخل دفتر کردئیے اور مودی اور ان کے 58 حواریوں کی پروانہ صفائی (کلین چٹ) دینے کے خلاف داخل کی تھی۔ حتی کہ وہ روپا مودی کو تسلی دیتی ہوئی بھی دیکھی گئیں جن کا بیٹا اظہر اب بھی لاپتہ ہے۔ یہ لڑکا گلبرگ قتل عام کے وقت غائب ہوگیا تھا۔
ذکیہ ذیابیطس کی مریضہ ہیں اور ان کے دونوں گھٹنوں کی سرجری بھی کی گئی ہے۔ وہ فیصلہ کے دن صبح سے شام 4:30 تک اس کے انتظار میں ایک کرسی پر بیٹھی رہیں۔ ان کے سب سے بڑے لڑکے کو کوڈر تھا کہ کہیں وہ گر نہ پڑیں۔ مگر مجسٹریٹ کے حکم کے بعد وہ اپنے لڑکے تنویر سے صرف یہ کہہ سکیں کہ "کیا ہماری تمام شکایت کو مسترد کردیاگیا؟"

جعفری خاندان اب مجسٹریٹ کی عدالت سے بڑھ کر عدالت سے اپیل داخل کرنے کی تیاری کررہا ہے جس کی مدد تیستا ستیلواد کا ادارہ سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس( سی جے پی) کررہا ہے۔ ذکیہ نے بتایاکہ میرے شوہر قانون داں تھے۔ میں نے انہیں سے جیتنے کا قوت ارادی کا سبق حاصل کیا ہے۔
ذکیہ، کھنڈوا، مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں، رستم پور کے زمیندار کی دختر ہیں۔ وہ معمولی تعلیم یافتہ ہیں مگر گھر پر انہیں بہترین تربیت حاصل ہوئی ہے۔ جعفری کی اہلیہ کی حیثیت سے وہ اکثر جلسوں میں شریک ہوا کرتیں اور ان کے ساتھ شہ نشین پر رہا کرتی تھیں۔ تنویر نے بتایاکہ "ہمارے گھر چائے پئے بغیر کوئی نہیں جاسکتا تھا۔ بابا امی سے کہا کرتے تھے کہ مہمانوں کیلئے چائے بنادو"۔
جعفری کے غیاب میں خواتین ذکیہ سے مشورہ کیا کرتی تھیں۔ فسادات نے ہر چیز کو بدل کر رکھ دیا۔ قتل عام کے چند ماہ بعد ذکیہ سورت میں منتقل ہوگئیں۔ جہاں ان کا لڑکا تنویر ایک مشہور فرم میں کام کیا کرتا ہے۔ ان کے دو بچے امریکا میں رہا کرتے ہیں۔

سابق ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس آربی سری کمار نے ایک حلف نامہ داخل کیا جس میں بیان کیا گیا ہے کہ 27فروری 2002ء کو گوداھر میں ریلوے کوچ کے نذر آتش کردئیے جانے کے بعد مودی نے اپنے ہندو پولیس افسروں سے کہا تھا کہ "ہندوؤں کو اپنا غصہ نکالنے کی چھوٹ دے دی جائے"۔ ایسے ہی حلفیہ بیانات نے ذکیہ جعفری کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے شوہر کیلئے بلکہ فسادات کے دیگر متاثرین کیلئے بھی انصاف کی لڑائی لڑیں۔ وہ کہتی ہیں "لوگ یونہی نہیں مرگئے میں سینکڑوں بے گناہوں کے قتل کیلئے انصاف حاصل کرکے رہوں گی"۔

ذکیہ اور تنویر اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ طویل قانونی لڑائی ہے تنویر بعض اوقات خواہش کرتے ہیں کہ وہ کاش! اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے اور ایک وکیل بن جاتے۔ انہوں نے بتایاکہ ان کے والد کی آمدنی اوسط تھی وہ عدالت کو اسکوٹر پر جایا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہہ تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی وکیل نہ بن سکا۔
ذکیہ جیسے جیسے بوڑھی اور کمزور ہوتی جارہی ہیں، تنویر اس خیال سے اپنے آپ کو اس کیس کیلئے تیار کررہے ہیں کہ شاید ان کی والدہ انصاف ہونے تک انتظار نہ کرسکیں۔ تاہم وہ اپنی ماں کی لمبی عمر کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہم اپنے والد کو واپس تو نہیں لاسکتے مگریہ لڑائی مستقبل کیلئے ہے کہ آنے والے دور میں لوگوں کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ نہ دھونا پڑے"۔
جعفری خاندان کو اب ایک نئی لڑائی لڑنی ہے۔ ستیلواد کے شوہر، جاوید آنند، تنویر اور دیگر لوگوں کے خلاف احمد آباد پولیس چوکی میں ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے کہ انہوں نے گلبرگ سوسائٹی کو میوزیم میں تبدیل کرنے کیلئے جو 51کروڑ روپئے اکٹھا کئے تھے ان پر قبضہ جمالیا ہے۔ مذکورہ سوسائٹی کے 12 رہنے والوں نے سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس (سی جے پی) کو حالیہ دہے میں نوٹس روانہ کی ہے کہ انہیں مالی امداد فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اسے پورا نہیں کیا گیا۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس رقم میں سے 63 لاکھ روپے سی جی پی کے کھاتے میں ہیں اور 28لاکھ روپئے سب رنگ ٹرسٹ کے کھاتے میں ہیں جس کے سیتلواد اور آنند دونوں ہی رکن ہیں۔ مذکورہ اہلیان سوسائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس رقم کی تقسیم عمل میں لائی جائے۔
تنویر نے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سوسائٹی کے رجسٹرڈ کسی بھی رکن نے اپنی زمین فروخت نہیں کی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ "سی جے پی یا سب رنگ سوسائٹی نے متاثرین سے یہ کیس لڑنے کیلے کوئی رقم نہیں لی۔ سیتلواد نے کہاکہ عمداً ایک تحریک طاقتور مفادات حاصلہ کی جانب سے مسلسل گجرات میں چلائی جارہی ہے تاکہ 2002ء کے تباہی کے متاثرین کیلئے انصاف کے حصول کو یقینی بنانے کی کوششوں کو ناکام کردیاجائے۔ گذشتہ ہفتوں میں یہ کوشش اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔

خوش قسمتی سے مودی کے خلاف ان کی لڑائی کے باعث تنویر کے دوستوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کے برتاؤ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ذکیہ بعض اوقات اپنے بیٹے کے ساتھ ان کے دوستوں کے گھر جایا کرتی ہیں جہاں فسادات یا ان کے کیس پر کوئی گفتگو نہیں ہوتی۔ مگر ذکیہ کیلئے یہی لوگ ان کی زندگی کا محور ہیں۔ ذکیہ کا ایقان ہے کہ ان کے کیس کا اختتام انصاف پر عمل میں آئے گا۔
وہ کہتی ہیں:
"مجھے امید ہے کہ کامیابی حاصل ہوگی کیونکہ امید پر ہی دنیا قائم ہے"۔

Holding on to hope. Article By Nandini Oza

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں