پرانے شہر کی خبریں - old city news 23 jan 2014 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-23

پرانے شہر کی خبریں - old city news 23 jan 2014


hyderabad old city news - حیدرآباد پرانے شہر کی خبریں
2014-jan-23

(اعتماد نیوز)
مدینہ گروپ آف تعلیمی ادارہ جات کو ریاستی وقف بورڈ کی جانب سے راست نگرانی میں حاصل کرنے کے فیصلہ کو سیاسی رنگ دینے کی مذمت کرتے ہوئے جناب شیخ محمد اقبال آئی پی ایس و اسپیشل آفیسر وقف بورڈ نے کہاکہ اس معاملہ میں صرف ہائی کورٹ کی ہدایت پر تحقیقاتی رپورٹ پر عمل آوری کی گئی ہے۔ اسپیشل آفیسر وقف بورڈ نے کہاکہ مدینہ گروپ تعلیمی اداروں کے خلاف جو تحقیقاتی رپورٹ عرصہ دراز قبل داخل کی گئی تھی اس پر عدم عمل آوری کے خلاف بعض افراد ہائی کورٹ سے رجوع ہوئے۔ ہائی کورٹ نے وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کو عدالت میں شخصی طورپر حاضر ہونے کی ہدایت دی جس پر انہوں نے متعلقہ فائل طلب کرکے اس کا جائزہ لیا اور صرف عدالت کے احکام کی عمل آوری کی۔ اسپیشل آفیسر وقف بورڈ نے بتایاکہ مجلس شوریٰ دستی پارچہ بافی حرمین شریفین ایک وقف اور خیراتی ادارہ ہے جس کا قیام 1932ء میں ہوا تھا۔ مدینہ منورہ کے عرب نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کیلئے تربیت فراہم کرنے اور انہیں خود روزگار کیلئے مدد کرنے یہاں سے خام مال روانہ کرنے اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ انہوں نے بتایاکہ گزٹ نمبر 32A مورخہ 30اگست 1984ء کے مطابق مذکورہ جائیداد باغ عامہ کے روبرو واقع ہے اور اس کے متولی کی حیثیت سے مجلس شوریٰ کے صدرکے نام اندراج ہے۔ اس کے ذریعہ انجمن مدینہ منور کی امداد کا گزٹ بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس ادارہ کے تحت بیت المدینہ واقع باغ عامہ نامپلی، مدینہ محل حیدر گوڑہ، مدینہ منزل حمایت نگر، ایک مکان دلاور گنج منگل ہاٹ، وٹھل واڑی نارائن گوڑہ میں تقریباً 8ملگیات اور دبیرپورہ میں ایک مکان شامل ہے۔ سوسائٹی ایکٹ کے تحت مذکورہ ادارے کو رجسٹر کیاگیا تھا اور 11رکنی کمیٹی بشمول صدر و سکریٹری بنائی گئی تھی جس میں شہر کے ممتاز فزیشن ڈاکٹر ایس اے منان صدر اور کے ایم عارف الدین سکریٹری بنائے گئے۔ منتخب کے مطابق باغ عامہ کے روبرو واقع 953 گز پر مشتمل جگہ اور حیدرگوڑہ میں 2175.66 مربع گز جگہ مجلس شوریٰ کو وقف کی گئی۔ منتخب میں بعد میں ترمیم کرتے ہوئے مذکورہ اداروں کی آمدنی ریاست کے مسلم طلبہ پر خرچ کرنے، انہیں تکنینی، پیشہ وارانہ اور مذہبی تعلیم فراہم کرنے کیلئے منشائے وقف میں تبدیل کی گئی۔ متولی کے کالم میں یہ بھی درج کیا گیا کہ کے ایم عارف الدین سکریٹری مجلس شوریٰ یا کوئی اور شخص جو مجلس شوریٰ کا سکریٹری منتخب ہو وہ مجلس شوریٰ کا متولی ہوسکتا ہے۔ اسپیشل آفیسر وقف بورڈ نے بتایاکہ مجلس شوریٰ کے مرحوم صدر ڈاکٹر منان کے مطابق ریاست کے مسلم نوجوانوں کو تکنیکی تربیت فراہم کرنے مجلس شوریٰ کے تحت بیت المدینہ باغ عامہ میں 1980ء میں مدینہ ٹکنیکل کالج، مدینہ منزل حمایت نگر میں 1982ء میں مدینہ پبلک اسکول، 1983ء میں مدینہ جونیر کالج برائے طالبات ، مدینہ محل حیدر گوڑہ میں 1987ء میں مدینہ اسٹوڈنٹس ہاسٹل اور مدینہ منزل باغ عامہ میں 1989ء میں مدینہ جونیر کالج برائے طالبات قائم کیا گیا۔ یہ تمام ادارے مجلس شوریٰ کا حصہ ہیں۔ مجلس شوریٰ نے کبھی ان اداروں کو کسی کو لیز یا کرایہ پر نہیں دیا۔ مجلس شوریٰ کے تحت تعلیمی سرگرمیاں 1980ء اور 1989ء کے درمیان ہوئیں جسے کے ایم عارف الدین نے سکریٹری کی حیثیت سے انجام دیں۔ اسپیشل آفیسر نے بتایا کہ کے ایم عارف الدین نے مذکورہ وقف جائیدادوں پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے ایک اور سوسائٹی مدینہ ایجوکیشن اینڈ ویلفیر سوسائٹی 1991ء میں قائم کی اور خود کو اس کا سکریٹری ظاہر کیا اور مذکورہ وقف جائیدادوں کو نئی سوسائٹی کے نام پر طویل مدتی لیز پر حاصل کرلیا جس میں نامپلی کی 8منزلہ عمارت کا کرایہ 500روپئے، حیدرگوڑہ کی 5منزلہ عمارت کا کرایہ 360روپئے، حمایت نگر کی 6منزلہ عمارت کا کرایہ 250 روپئے مقرر کرلیا اور تعلیمی اداروں کو نئی سوسائٹی کے نام پر منتقل کرلیا جس پر خود مجلس شوریٰ کے صدر ڈاکٹر ایس اے منان نے کے ایم عارف الدین کے خلاف مقدمہ نمبر OP No.697/92 دائر کیا کہ 1983ء سے مذکورہ وقف جائیدادوں کے اکاونٹس کی تفصیل پیش کی جائے۔ اس مقدمہ میں کے ایم عارف الدین نے یہ حلفنامہ داخل کیا کہ مجلس شوریٰ دستی پارچہ بافی حرمین شریفین کو تحلیل کردیا گیا اور انہوں نے اسکول اور کالجس اپنی ذاتی بنیاد پر قائم کئے ہیں اور وہ مذکورہ وقف عمارتوں کے کرایہ دار ہیں جس پر ڈاکٹر منان نے کے ایم عارف الدین کے خلاف 1993ء میں شکایت درج کروائی جس پر وقف بورڈ نے تحقیقات کا آغازکیا۔ تاکہ مذکورہ اداروں میں مالیاتی اور انتظامی بے قاعدگیوں کا پتہ چلاسکے۔ اس کے بعد انکوائری آفیسرس کا تقرر ہوا۔ اس سلسلہ میں ہاوز کمیٹی کی رپورٹ اور سرکاری احکامات بھی جاری ہوئے۔ 1999ء میں ہی انکوائری آفیسر کا تقر ہوا اور سابق میں کی گئی تحقیقات کو شامل کرتے ہوئے رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی گئی۔ انکوائری آفیسر نے 2003ء میں 65 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ داخل کردی۔ انکوائری آفیسرس نے کے ایم عارف الدین کے خلاف کئی الزامات عائد کئے اور بتایاکہ وہ منشائے وقف کی تعمیل میں ناکام رہے ۔ کے ایم عارف الدین نے اس انکوائری کو ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا۔ اس اپیل کو ہائی کورٹ نے مسترد کردیا اور تحقیقات جاری رہیں اور تحقیقاتی عہدیدار نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ مذکورہ وقف جائیداد کا غلط استعمال کیاگیا اور وہ حسابات کی تفصیلات، آڈٹ رپورٹس پیش کرنے میں ناکام رہے۔ دونوں اداروں میں سکریٹری ہونے کی حیثیت سے غیر قانونی طریقے سے اختیارات کا غلط استعمال کیاگیا۔ مجلس شوریٰ کے نام پر جائیدادوں اور اداروں کیلئے جمع کئے گئے فنڈس کی تفصیلات پیش کرنے میں ناکام رہے جبکہ خود انہوں نے یہ کہا تھا کہ مذکورہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں انہوں نے اپنے ذاتی صرفہ سے نہیں بلکہ عوامی فنڈ اور عطیات کی مد سے تعمیر کی ہیں۔ انہوں نے وقف بورڈ کی جانب سے دی گئی ہدایات کی پابندی نہیں کی۔ تحقیقاتی عہدیداروں کی مختلف رپورٹس پر عدم عمل آوری کے خلاف بعض افراد کے ہائی کورٹ سے رجوع ہونے پر اور عدالتی احکام پر ہی انہوں نے اداروں کی راست نگرانی میں حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور ان اداروں کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے حکومت کے تعاون سے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کرنے جارہے ہیں تاہم عدالتی احکام کے مطابق تین ہفتے تک تعلیمی اداروں میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

(یو این آئی)
آندھراپردیش کے اسپیشل چیف سکریٹری برائے سیاحت اور آندھراپردیش فروغ سیاحت کارپوریشن کے صدرنشین چندناکھن نے آج کہاکہ ریاستی حکومت نے گنبدان قطب شاہی کے تحفظ اور تزئین کے کام کیلئے جنیوا میں قائم آغا خاں فاونڈیشن چیرٹیبل ٹرسٹ کے ساتھ ایک یادداشت مفاہمت پر دستخط کئے ہیں۔ اس معاہدہ کے تحت آئندہ دس برسوں میں تقریباً 100کروڑ روپئے کی لاگت سے اسے عالمی ثقافتی مقام میں تبدیل کردیاجائے گا۔ مسن کھن نے آج ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ محکمہ آثار قدیمہ و میوزیمس کے تحت اے پی اسٹیٹ میوزیم اور سائٹ میوزیمس کے بشمول 26 میوزیمس ہیں۔ اسٹیٹ میوزیم قدیم سکوں کے عظیم کلکشن کیلئے شہرت رکھتا ہے جو اس معاملہ میں لندن میں قائم برٹش میوزیم کے بعد دوسرے نمبر پر شمار کیا جاتاہے۔ انہوں نے بتایاکہ 1960ء کے قانون کے تحت 619 تاریخی آثار اور مقامات کا تحفظ کیا گیا۔ محکمہ نے 13ویں فینانس برائے گرانٹس میں آثار قدیموں اور میوزیموں کے تحفظ فروغ کے مقصد سے 100کروڑ روپئے کے مصارف کا منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت 240 کام انجام دینے کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایاکہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹورازم اینڈ ہاسپٹالیٹی مینجمنٹ ثقافتی ورثہ کے تحفظ پر جولائی 2014ء سے ایک سالہ ڈپلوما کورس کا آغاز کررہا ہے۔


Hyderabad news, old city news, hyderabad deccan old city news, news of old city

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں