عام آدمی پارٹی - یہ عروج زوال میں نہ بدل جائے کہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-22

عام آدمی پارٹی - یہ عروج زوال میں نہ بدل جائے کہیں

عام آدمی پارٹی جیسا چمتکار ہندوستان کی سیاست میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آج تک ہندوستان میں کوئی ایسی پارٹی پیدا نہیں ہوئی جس کے روزانہ لاکھوں ممبر بن رہے ہیں اور جسے گھر بیٹھے لوگوں نے کروڑوں کا چندہ بھیج دیا ہو۔ ایسی پارٹی کوئی نہیں ہوئی جسے چلانے والے بالکل نوسکھیا ہوں اور جنہیں پہلے اپنے الیکشن میں ہی برسر اقتدار آنے کا موقع مل گیا ہو۔ کیا آپ کو کسی ایسی پارٹی کا سامنا ہے، جس نے اپنی پیدائش کے پہلے ہی سال میں لوک سبھا کے 400 امیدوار کھڑے کرنے کی امید کی ہو؟ ہاں چمتکار تو پہلے بھی ہوئے ہیں لیکن ان میں اور جواب ہورہا ہے اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ 1977ء میں اندرا گاندھی جیسی رعب والی وزیراعظم کا سوپڑا صرف کرنا اس لئے ممکن ہوا کہ ایمرجنسی کے سیاہ بادلوں نے سارے ہنوستان کو گھیر لیا تھا۔ اس کے علاوہ مخالفت کا پرچم ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ (جے پرکاش، مراجی، جگ جیون رام وغیرہ) جو اندراگاندھی سے بھی زیادہ تجربہ کار تھے۔ اسی طرح راجیو گاندھی کے خلاف 1989ء میں جو لہر چلی تھی اس کی قیادت چندر شیکھر، دیوی لال، وشوناتھ پرتاب سنگھ جیسے سرکردہ لیڈر کررہے تھے۔ بوفورس توپوں کی رشوت پورے ملک میں اتنے زور سے گڑ گڑا رہی تھی کہ کانگریس کی طوطی اس میں ڈوب گئی۔ لیکن جہاں تک عام آدمی پارٹی کا سوال ہے تو اس کے پاس نہ تو کوئی پرکھے ہوئے تجربہ کار لیڈر ہیں، نہ ہی اس کے پاس متبادل سیاست کا کوئی نقشہ ہے، نہ ہی کوئی ملک گیر تنظیم ہے اور نہ ہی اس کے پاس قارون کے خزانے ہیں( جیسا کہ دیگر پارٹیوں کے پاس ہیں) تو اس کے پاس کون سی ایسی جادو کی چھڑی ہے کہ جسے گھماکر دلی نام کی ریاست میں برسر اقتدار ہوگئی ہے؟ برسر اقتدار تو یہ اس لئے ہوئی ہے کہ کانگریس نے جوا کھیل لیا۔ برسر اقتدار تو ہونا تھا بی جے پی کو کیونکہ اس کو سب سے زیادہ سیٹیں ملیں تھیں۔ لیکن کانگریس نے ایک زبردست داؤ چلا۔ دہلی میں چکنار چور ہوئی کانگریس نے سوچا کہ پورے ملک میں اس کی اصل دشمن بی جے پی ہی ہے۔ کسی بھی قیمت پر وہ اسے تخت پر نہیں بیٹھنے دے گی۔ اس لئے اس نے تشتری میں رکھ کر دہلی سلطنت ’آپ، کو پیش کردی۔ یہ پیشکش یونہی دی گئی ہو ایسا مجھے شروع سے نہیں لگ رہا تھا۔ اس شک کی اب تصدیق ہورہی ہے۔ ’آپ، کے ایک ناراض ممبر اسمبلی کا تازہ ترین انکشاف اگر درست ہے تو دہلی کے ووٹر اپنا سر پیٹ لیںے۔ جس پارٹی کو انہوں نے کانگریس کو سبق سکھانے کیلئے سر چڑھایا وہی اب کانگریس کے قدموں پر بیٹھ کر اس کی چوکیداری کررہی ہے۔ اپنے چہرے پر سیاہی نہ پتے اس لئے کانگریس اب دہرا کھیل کھیل رہی ہے۔ وہ ایک طرف تو ’آپ، سرکار کے اقدامات پر تنقید کررہی ہے اور اس کی مذمت کررہی ہے اور اس کے وزیر قانون سے استعفیٰ مانگ رہی ہے اور دوسری طرف اس اقلیتی سرکار کو سہارا بھی دے رہی ہے۔ کانگریس کے لوگ دنیا میں سیاست کے سب سے شاطر کھلاڑی ہیں۔ "انہوں نے ’آپ، پارٹی کے منھ میں اقتدار کا رس گلہ ڈال کر اسے خاموش کردیا ہے۔ اب ’آپ، پارٹی کی بندوق کی نال بی جے پی کی طرف مڑ گئی ہے۔ ’آپ، پارٹی کے پنڈتوں سے کوئی پوچھے کہ اب آپ کس کے خلاف لڑیں گے۔ بدعنوانی کے خلاف لڑنے پر آپ کا دارومدار ہے اور اسی پارٹی کے کندھے پر کھڑے ہیں جو بدعنوانی کا دوسرا متبادل بن گئی ہے۔ کانگریس کو مبارکبادکہ ان نو سکھیے لیڈروں کو بہت سستے میں پٹالیا۔ اقتدار کا رس گلہ اتنا رسیلا تھا کہ کانگریس سے ہاتھ ملاکر ’آپ، کے لیڈروں نے اپنے بچوں کی قسم بھی توڑ دی۔ جو بھی ہو یہ اقتدار میں آنے کی کہانی ہے لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ دہلی کے الیکشن میں ’آپ، پارٹی کو 28سیٹیں مل گئیں؟ دہلی کے لوگوں کا دل کیا کسی نے پڑھا ہے؟ شاید نہیں۔ دہلی کے لوگوں کا دل دولت مشترکہ کھیلوں، ٹیلی کام گھپلہ، کوئلہ گھپلہ اور سب سے زیادہ رام لیلامیدان کی لیلاؤں سے اتنا عاجز تھا کہ وہ ’صرف لیڈروں، سے اکھڑ گئے تھے۔ اگر انہیں ذرا بھی بھنک لگ جاتی کہ ’آپ، پارٹی کو 28سیٹیں تک مل سکتی ہیں تو وہ اسے 60سیٹیں تک دے دیتے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی خالی کٹورا بجاتے رہتے۔ ایسا اس لئے نہیں ہوتا کہ ’آپ، پارٹی کی اپنی کوئی خوبی تھی بلکہ اس لئے ہوتا کہ دہلی کا کھسیا ہوا ووٹر کسی بھی نئے چہرے کو گلے لگانے پر آمادہ تھا۔ دہلی کے عوام نے بھی جوا کھیلا۔ ’آپ، پارٹی اقتدار کے لالچ میں پھنسنے کے بجائے مخالفت میں رہی اگر بی جے پی سرکار کو مروڑتی نچوڑتی تو اس کی کچھ کل ہند سطح کی امیج بنتی۔ لیکن اب کیا ہورہا ہے؟ لیکن اب غبارے میں روز روز نئے نئے سوراخ ہورہے ہیں۔ لوک پوچھ رہے ہیں کہ یہ پارٹی سادگی پسند اور اصول پسند لوگوں کی ہے تو اس کے وزیراعلیٰ نے10کمروں والے مکان کی حامی کیوں بھری تھی؟ وزیراعلیٰ کے روایتی رہائش گاہ میں رہنے کے خرچ سے بھی زیادہ اضافی خرچ اس عمارت میں ہوتا۔ ڈر کے سبب صحیح راستہ پکڑا یہ اچھاکیا۔ بجلی، پانی، وزراء کیلئے سادی کاریں وغیرہ اچھے فیصلے ہیں، لیکن تجربہ کار منتظمین اور لیڈروں کی رائے ہے کہ ان افلاطونی فیصلے سے سرکاری خزانہ خالی ہوجائے گی، لیکن’آپ، والوں کو کیا فکر ہے؟ انہیں کون سے 5سال تک راج کرنا ہے؟ اسی طرح غیر ملکی راست سرمایہ کاری اور رشوت کے اسٹینگ آپریشن جیسی باتوں کو بھی صرف دل بہلانے والی ترکیبیں مانا جارہا ہے۔ یہ سب کام اصل میں نگر پالیکا سطح کے ہیں۔ انہیں دکھا دکھاکر ہندوستان جیسے ملکوں کے ملک، برے ملک پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنا کیا بچکانا حرکت نہیں ہے؟ ابھی یہ ثابت نہیں کرپائے کہ آپ سائیکل کی سواری ٹھیک سے کرپائیں گے یا نہیں اور آپ جیٹ طیارہ کی پرواز کرنے کی ضد کرنے لگے۔ ہندوستان کے عوام جدباتی ضرور ہیں لیکن اتنے سمجھدار بھی ہیں کہ وہ کسی ڈگمگاتے سائیکل سوار کو جیٹ اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ عام آدمی پارٹی دو تین ہفتوں میں ہی عام پارٹیوں کی طرح برتاؤ کرنے لگی ہے۔ پارٹیاں تو پھر بھی پارٹیاں ہیں۔ یہاں تو میلے ٹھیلے کی سی ریلم پیل ہے۔ ایک بٹن دبایا اور پارٹی کے رکن بن گئے۔ ذرا سا پھٹکا ہوا نہیں کہ ایک ہ جھٹکے میں سب کھسک لیں گے۔ یہ پارٹی ہے کہ چوں چوں کا مربہ ہے؟ نہ کوئی لیڈر ہے اور نہ کوئی پالیسی۔ کشمیرہوں، ماؤنواز ہوں، غیرملکی سرمایہ کاری ہو، مودی ہو، ہوموسیکس کا معاملہ ہو، کانگریس ہو۔ ’آپ، پارٹی کی لیڈران کی اپنی اپنی بین ہے اور اپنا اپنا راگ ہے۔ ڈر یہی ہے کہ لوک سبھاانتخابات آتے آتے دہلی میں ملا یہ عروج سارے ملک میں زوال میں نہ بدل جائے۔

AAP - a fall after its peak. Article: Ved Pratap Vedik

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں