معراج فیض آبادی رحلت کر گئے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-01

معراج فیض آبادی رحلت کر گئے

meraj faizabadi
اردو کے مشہور شاعر 72 سالہ معراج فیض آبادی لکھنؤ میں رحلت کر گئے۔ وہ ایک مدت سے کینسر کی بیماری کے سبب صاحبِ فراش تھے۔
سید معراج الحق المعروف معراج فیض آبادی 1941ء میں فیض آباد کے معروف قصبے کولا شریف میں پیدا ہوئے تھے۔ جامعہ لکھنؤ سے 1962 میں انہوں نے بی ایس سی کی ڈگری لی ۔ سُنّی وقف بورڈ میں انہوں نے ملازمت کی اور 2003ء میں وہ اس ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔
معراج فیض آبادی اُردو مشاعروں کے مقبول ہی نہیں بلکہ ایک وقار کے حامل شاعر تھے۔ وہ چھوٹے سے گاؤں سے نکلے اور ادب کی دنیا کو اپنی شاعری سے روشن کر دیا۔ دنیا بھر کے مشاعروں میں وہ عزت و احترام کے ساتھ بلائے گئے ۔
معراج فیض آبادی، اخترالایمان کی مشہور نظم ' ایک لڑکا' کے بڑے مداح تھے۔ اُن کا شعری مجموعہ 'ناموس' جب 2004ءمیں شائع ہوا تو اُنہوں نے اس میں خود نوشت پیش لفظ کی ابتدا ہی ان لفظوں کے ساتھ کی :
" مجھے اختر الایمان کی نظم 'ایک لڑکا' بہت پسند ہے اور اکثر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ 'تند چشموں کے رواں پانی' جیسا وہ لڑکا میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھ سے بھی یہی سوال کرتا ہے کہ ' معراج تم ہی ہو' میرا یہ ہمزاد میرے لئے بلائے جاں بھی بنا ہوا ہے مگر یہ بھی لگتا ہے کہ اس کے بغیر میرا وجود ادھورا رہ جائے گا۔ اس ناسٹلیجیا کو میرے بچپن کے دوست کبیر انجم نے دو مصرعوں میں یوں باندھا ہے:
عمر کا راستہ روکے ہے یہ پاگل لڑکا
گاؤں کی گلیوں سے باہر نہیں جانے دیتا
مَیں قرة العین حیدر کے 'آگ کا دریا' کا گوتم نیلامبر تو نہیں جو تاریخ کے مختلف ادوار میں جنم لے کر تاریخ کا حصہ بنا ہے مگر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی جنم میں مَیں تاریخ کے کئی دور دیکھ چکا ہوں اور ان کا حصّہ بن چکا ہوں۔"

معراج فیض آبادی کی شاعری کے 3 مجموعے منظر عام پر آئے ، "ناموس" ، "تھوڑا سا چندن" اور "بےخواب ساعتیں"۔ اپنی شاعری کے ذریعہ وہ اپنے قاری/سامع کو غور و فکر کے ایسے مقام پر پہنچا دیتے تھے ، جہاں پر نظریاتی حلقہ بندی ، مذہبی حدبندی ، سیاسی مورچہ بندی سب کے سب خود بخود ٹوٹ جاتے تھے۔ معراج کی شاعری انسانی نفسیات کے ہر اس پہلو سے رابطہ کرتی ہے ہے جہاں درد ہے ، تڑپ ہے ، نا انصافی ہے۔ ان کی شاعری نے عام آدمی کو غربت کے باوجود خود داری کی حفاظت کرنا سکھایا . فرقہ وارانہ نفرت کی سیاست اور اس کی کوکھ سے پیدا ہونے والے فسادات کے قہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے ہوشیار کیا تھا :
ہماری نفرتوں کی آگ میں سب کچھ نہ جل جائے
کہ اس بستی میں ہم دونوں کو رہنا بھی ہے

وہ عام شعرا کی طرح کسی احساس برتری کا شکار نہیں ہوئے ۔ انہوں نے بڑی انکساری سے لکھا ہے کہ :
" میں جانتا ہوں کہ میرا یہ شعری مجموعہ کوئی ادبی شاہکار نہیں۔"
مرحوم نے ایک جگہ یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ :
" میں نے مشاعروں ہی پر قناعت کر لی تھی۔"
اسی کے ساتھ اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی شاعری کے تعلق سے کسی احساس کمتری کے شکار نہیں تھے ۔ انھیں اپنی شاعری پر اعتماد تھا۔ متذکرہ مجموعے میں اُنہوں نے کسی سے پیش لفظ نہیں لکھوایا بلکہ جو کچھ خود لکھا وہ تاثیر و تاثر سے بھر پور ہے۔
اُن کے پسماندگان میں چار بیٹے سید احمد ندیم، سید محمد راشد، سید احمد فراز اور سید محمد رامش کے ساتھ بیوہ صالحہ خاتون ہیں۔

ہفتہ کی دوپہر مرحوم کا جسد خاکی لکھنؤ سے وطنِ مالوف کولا شریف (ضلع فیض آباد) لے جایا گیا جہاں بعد نماز عشا سپرد لحد کیا گیا۔ اس موقع پر ان کے یہ شعر یاد کیے گئے :

میں نے کھوئے ہیں یہاں اپنے سنہرے شب و روز
در و دیوار کسی کے ہوں یہ گھر میرا ہے
میرا، اسلاف سے رشتہ تو نہ توڑ اے دُنیا!
سب محل تیرے ہیں لیکن یہ کھنڈر میرا ہے

معراج فیض آبادی کے یہ اشعار تو لوگوں کے ذہن میں نقش ہو چکے ہیں :
اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے
اب ابا بیلوں کا لشکر نہیں آنے والا

مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

وہ مانگنے نکلا ہے انصاف خدا خیر کرے
آج کی رات وہ گھر نہیں آنے والا

کس کو یہ فکر ہے کہ قبیلے کو کیا ہوا
سب اس پہ لڑ رہے ہیں کہ سردار کون ہے

renown poet Meraj faizabadi passes away

1 تبصرہ:

  1. Muhammad abbas6/25/2020 6:24 AM

    وہ مانگنے نکلا ہے انصاف خدا خیر کرے
    آج کی رات وہ گھر نہیں آنے والا
    صحیح اس طرح ہیں
    وہ مانگنے نکلا ہے انصاف خدا خیر کرے
    آج کی رات وہ بچ کر نہیں آنے والا

    جواب دیںحذف کریں