انہوں نے کہاکہ آنے والے انتخابات ہندوستانی عوام بالخصوص اقلیتوں کیلئے بہت بڑا امتحان ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ 2002ء میں گجرات میں جو کچھ رونما ہوا ہے، اس پر سیکولرازم کا دم بھرنے والی سیاسی جماعتوں نے سوائے ووٹ کی سیاست کے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں ایک تہائی نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلمان انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ قومی سطح پر ایک طاقتور مسلم تنظیم یا جماعت نہیں ہے۔ تاہم اطمینان کی بات یہ ہے کہ حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی جو ان کے ایک اچھے دوسرت بھی ہیں قومی سطح پر اقلیتوں میں بیداری کی کوشش کررہے ہیں۔ مظفر نگر کے فرقہ وارانہ فسادات ہوں یا آسام میں لاکھوں مسلمانوں کو بے دخل کردیاجانا، بیرسٹر اویسی محدود وسائل کے باوجود قومی سطح پر اقلیتوں کی ایک ایک آواز کو پیدا کررہے ہیں۔ انہوں نے مجلس کے بلند پایہ قائد سلطان صلاح الدین اویسی کو یاد کیا اور کہاکہ ان کے (محمد ادیب) پہلے الیکشن میں جناب سلطان صلاح الدین اویسی نے لکھنو میں 4دن قیام کیا تھا۔
محمدادیب کہتے ہیں کہ بیرسٹر اویسی قومی معاملات میں جس طرح ملک کی اقلیتوں کی ایک آواز بن رہے ہیں اس کو انتخابی میدان میں روبہ عمل لانا ہر فکر مند شخص کیلئے ضروری ہے۔
محمد ادیب کا کسی سیاسی خاندان سے تعلق نہیں لیکن ملت کے تئیں فکر نے انہیں عوامی زندگی سے وابستہ کردیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے باٹنی میں ایم ایس سی میں کامیابی حاصل کی اور یونیورسٹی کی طلباء یونین کے ایک مقبول قائد کی حیثیت سے انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو منوایا۔ طلبہ یونین کے صدر رہے اور اس وقت جبکہ سارے ملک میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا کافی زور و شور تھا، انہوں نے آنجہانی جئے پرکاش نارائن کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مدعو کرنے اور انہیں یونین کا تاحیات رکن بنانے کا جوکھم مول لیا۔ ملک میں جیسے ہی ایمرجنسی نافذ ہوگئی پولیس محمد ادیب کے پیچھے پڑ گئی۔ جے پرکاش نارائن نے انہیں راج نرائن کے سپرد کیا جن کے ساتھ مل کر محمد ادیب نے اپنی جوانی کے کئی سال سماج وادی تحریک میں لگائے۔ ایمر جنسی میں ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا تھا۔ محمد ادیب چھپتے چھپاتے بالآخر ملک سے باہر مشرق وسطی پہنچ گئے۔ ایمرجنسی کے دنوں میں روپوشی کے وقت ان کی جو حالت ہوئی اس کو دیکھتے ہوئے انہوں نے عملی سیاست سے توبہ کرلی تھی۔ بیرون ملک انہوں نے کئی مشقتیں جھیلیں اور 80 کے دہے میں ہندوستان واپس ہوئے۔ واپسی کے بعد عملی سیاست میں داخل ہونے کا ارادہ تو نہیں تھا، مولانا علی میاں، بشمبر ناتھ پانڈے، کلدیپ نیر کے ساتھ مل کر سوسائٹی فار کمیونل ہارمونی قائم کی اور تقریباً 10 سال اس سوسائٹی میں سرگرم رہے۔ 2002ء میں پیش آئے گجرات کے فسادات نے ان کی دنیا بدل دی۔ گجرات میں وہ لوگوں کی مدد کیلئے پہنچے۔ 8 دن وہاں رہے۔ ان فسادات کے متاثرین کو دیکھنے کے بعد انہوں نے کہاکہ لوگ اپنے لئے تو جی لیتے ہیں خود کی زندگی بنانا، تجارت کرنا، خود کے خاندان کی فکر کرنا، یہ اب اتنا ضروری نہیں بلکہ ایک تباہ شدہ طبقہ کو پھر سے دوبارہ اٹھانا، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور اسی چیلنج نے انہیں صدر کانگریس سونیاگاندھی سے ملاقات کی طرف مائل کیا۔
سونیا گاندھی نے پہلی ہی ملاقات میں یہ پوچھ لیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ الیکشن میں پارٹی کا ٹکٹ یا کسی ادارہ کا بڑا عہدہ یا کوئی اور بات۔ لیکن سونیا گاندھی کو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ملک میں مسلمانوں کی عزت نفس اور انہیں با اختیار بنانا چاہتے ہیں۔ ادیب کہتے ہیں کہ ان کی اس بات کا سونیا گاندھی پر کافی اثر ہوا۔ صدر کانگریس کے ساتھ کافی ملاقاتیں رہیں۔ مجھے اپنے کام کی فکر تھی اور سونیا گاندھی کو اپنی پارٹی کی۔ 2004ء سے 2012ء تک مسلمانوں سے متعلق کانگریس کے منشور، انتخابی حکمت عملی اور دوسرے امور میں ان کا بھی ایک حصہ رہا۔ کانگریس میں رہ کر اس کے وعدوں کوپورا کرنے یا دلاتا رہا۔ سونیا گاندھی کی وہ بڑی عزت و تعظیم کرتے ہیں۔ ان سے اور ان کے فرزندراہول گاندھی سے کوئی شکایت نہیں لیکن سوال شکایت یا اختلاف کا نہیں بلکہ کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا ہے۔ ایک مرتبہ کسی ٹیلی ویژن چیانل کے مباحث میں جب انہوں نے یہ بات کہی کہ کانگریس وعدہ کرتی ہے، عمل نہیں ۔ اس پر راہول گاندھی ناراض بھی ہوگئے تھے۔ ادیب کہتے ہیں کہ وہ کانگریسی ہیں لیکن کانگریس کی موجودہ پارٹی کی فلاسفی سے الگ ۔ ذہنی عملی طورپر کانگریس کا جو تصور ہونا چاہئے وہ اس پر ایقان رکھتے ہیں۔ مساوات، سیکولرازم اس پر لفظاً و معناً عمل ضروری ہے۔ سیکولرازم کے عنوان پر کانگریس کی روش سے ناراض محمد ادیب کو سماج وادی پارٹی سے بڑی امیدیں تھیں لیکن مظفر نگر کے فسادات نے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ملائم سنگھ یادو نے تقریباً 10 دنوں تک انہیں ہیلی کاپٹر میں اترپردیش کے چپہ چپہ کا دورہ کروایا۔
تب ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی کو یوپی میں اقتدار حاصل ہوا تو ایک امید بندھی تھی لیکن مجھ پر یہ عقدہ کھلا’ ان کا کام بھی وہی کہ مسلمانوں کو ہوا کھلانا"۔ انتحابات کے بعد جب انہوں نے ملائم سنگھ کو وعدے یاد دلائے تو وہ ضرور کہتے لیکن عمل کے میدان میں ضرور صفر قرار پاتا۔ اترپردیش میں سینکڑوں بے قصور مسلمان جیلوں میں بند ہیں۔ مایاوتی حکومت کی جانب سے قائم کردہ نمیش کمیشن نے اپنی رپورٹ بھی پیش کی لیکن مسلم نوجوانوں پر جبر کرنے والے پولیس آفیسروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ محمد ادیب کہتے ہیں کہ ہر جماعت کو الیکشن کے وقت ہمارے (مسلمانوں) کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ووٹوں سے سیاسی قائدین حاکم بن جاتے ہیں اور انہیں حاکم بنانے والے محکوم بنے رہتے ہیں۔ گجرات کے چیف منسٹر وزارت عظمی کیلئے بی جے پی امیدوار نریندر مودی کو ویزا نہ دینے سے متعلق صدر امریکہ بارک اوباما کو لکھے گئے ہندوستانی ارکان پارلیمنٹ کے مکتوب سے متعلق تنازعہ کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس خط میں دراصل کوئی تنازعہ ہیں۔ بات بڑی صاحب تھی۔ مارکسسٹ قائد سیتارام یچوری جوان کے مطابق ان کے اچھے دوست ہیں، نے اس خط کے بارے میں جو کچھ کہا اس سے انہیں تکلیف پہنچی۔ اس خط کے پیچھے طویل کہانی تھی اور بالکل حقیقت پر مبنی۔ آنے والے انتخابات کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ملک کی اکثریت سیکولر ہے۔ مستقبل میں وہ کسی غیر سیکولر چہرے کو ذمہ داری نہیں دے سکتے۔ مظفر نگر فسادات سنگھ پریوار کیلئے ایک تجربہ تھا۔ مغربی اترپردیش میں جاٹ اور مسلمانوں کے درمیان بے اعتمادی کی فضاء کو پیدا کرنے میں سنگھ پریوار کامیاب ہوگیا۔ 1947ء میں تقسیم کے بٹوارہ میں جہاں اعتماد کی فضا کو خراب ہونے نہیں دیا وہاں سیکولر جماعتوں کی ناکامی کے سبب سنگھ پریوار کی جیت ہوگئی۔ مغربی یوپی جہاں راشٹریہ لوک دل کا بڑا اثر ہے، جاٹ اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات سے اس پارٹی کو نقصان ہوسکتا ہے۔ آر ایل ڈی کے سربراہ اجیت سنگھ کا ان واقعات میں کوئی ہاتھ نہیں۔ کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو مغربی اترپردیش میں اجیت سنگھ کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ ان میں ملائم سنگھ یادو بھی شامل ہیں۔ یوپی میں کانگریس کی کمزوری کے بعد یہاں کے مسلمانوں نے کبھی ملائم سنگھ یادو کو تو کبھی مایاوتی کو اور مغربی یوپی میں اجیت سنگھ کو اپنی تائید دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوپی میں مسلمان ان جماعتوں کی ووٹنگ مشین بن گئے ہیں۔ مسلمانوں کو صرف استعمال کیا جاتا ہے۔ آنے والے انتخابات میں اترپردیش جہاں ذات پات کے علاوہ فرقہ وارانہ تقریق دیکھی جارہی ہے مسلمانوں کوکافی شعور کا ثبوت دینا ہوگا۔ عام رائے یہی ہے کہ مسلمان اپنے حلقوں میں ان ہی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے جو بی جے پی کو ہرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کانگریس کے راہول گنادھی کی طرح سماج وادی پارٹی کے قائد و چیف منسٹر اترپردیش اکھلیش سنگھ یادو کو ایک ہی زمرہ میں باندھتے ہیں ۔ اس کا خلاصہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں کے پاس منصوبے ضرور ہیں لیکن عمل میں یہ دونوں بھی کوئی ایسا کام ثابت نہ کرسکے کہ جس سے مستقل کیلئے کافی امید لگائی جاسکتی ہے۔ قومی سطح پر مسلمانوں کو تحفظات کیلئے انہوں نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ وہ آنے والے انتخابات میں اترپردیش کے حلقہ بجنور سے مقابلے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یونین پبلک سرویس کمیشن کے امتحانات سے عربی اور فارسی کو خارج کئے جانے کے بعد سے وہ ان دونوں زبانوں کی سرویس کمیشن میں واپسی کیلئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہندوستان میں مسلم قیادت کیلئے حیدرآباد جوکوششیں ہورہی ہیں وہ یقیناً ایک نہ ایک دن رنگ لائیں گی۔
Asaduddin Owaisi seeks to encourage the voice of Muslims at the national level
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں