hyderabad old city news - حیدرآباد پرانے شہر کی خبریں 2013-dec-03 |
منصف نیوز بیورو
تحصیل علم کے بعد ترسیل علم ایک بہت ہی اہم فریضہ ہے۔ یہ فریضہ انسانیت کی بنیاد اور مخلوق کی خدمت کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ ایسی خدمت ہے جو عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ پروفیسر بیگ احساس نے اپنے فرائض خوس اسلوبی سے انجام دیے۔
پروفیسر محمد سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ نے " سہ روزہ جشن بیگ احساس" کے اختتامی جلسہ ، منعقدہ نہرو آڈیٹوریم ، مدینہ ایجوکیشن سنٹر ، نامپلی میں اپنی صدارتی تقریر میں کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیگ احساس نے درس و تدریس کے میدان میں جو مقام حاصل کیا وہ ان کے بہت کم ہم عصروں کو حاصل ہوا۔ اب وہ ایک منجھے ہوئے استاد اور اسکالر ہیں۔ ان سے استفادہ کرنے کا یہی صحیح وقت ہے۔ وہ اپنی انفرادی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ممتاز مزاح نگار پدم شری مجتبیٰ حسین نے بعنوان "بیگ احساس تم ہی ہو" ایک دلچسپ خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ بیگ احساس کے چہرے سے ان کی عمر کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وہ ایک پروفیسر نہیں بلکہ ریسرچ اسکالر لگتے ہیں۔ اپنے تاثراتی خاکے میں بیگ احساس کی شخصیت کے مختلف پہلو پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بحیثیت وزیٹنگ پروفیسر انہیں پہلی بار اندازہ ہوا کہ آج کے اس دور میں اردو کے طلبہ کو پڑھانا کتنا مشکل کام ہے۔ بیگ احساس اپنے طالب علموں کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں عہد حاضر کے پانچ بڑے افسانہ نگاروں میں بیگ احساس کا شمار کرتا ہوں۔ اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں کہا کہ بیگ احساس کے بعض افسانوں کے عنوانات سمجھنے کے لیے ڈکشنری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
پروفیسر ایس اے شکور سکریٹری ڈائرکٹر اردو اکیڈمی آندھرا پردیش نے بحیثیت مہمان خصوصی اپنی تقریر میں کہا کہ پروفیسر بیگ احساس کا وہ بہت احترام کرتے ہیں۔ وہ ایک اچھے استاد ، افسانہ نگار ، نقاد ، محقق اور مدیر ہی نہیں بلکہ ایک اچھے انسان بھی ہیں۔ اردو اصناف میں جس طرح غزل کو خاص امتیاز حاصل ہے ، اردو افسانہ نگاری میں پروفیسر بیگ احساس وہی امتیازی وصف رکھتے ہیں۔ بحیثیت استاد انہوں نے طلبا کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں اہم رول ادا کیا ہے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں تسلسل کے ساتھ اردو فیسٹول کا انعقاد عمل میں لایا۔ وہ چار برس تک عثمانیہ یونیورسٹی میں اور چھ برس تک یونیورسٹی آف حیدرآباد میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز رہے جو ایک انفرادی اعزاز ہے۔
پروفیسر اشرف رفیع سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے کہا کہ شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی میں خوشگوار فضا قائم کرنے اور اساتذہ میں اتحاد و اتفاق بنائے رکھنے میں بیگ احساس نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر مصطفیٰ کمال مدیر "شگوفہ" نے بیگ احساس سے اپنی دیرینہ رفاقت کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ بیگ احساس نے جس طرح ترقی کی منزلیں طے کی ہیں وہ قابل رشک ہے۔
مضطر مجاز نے کہا کہ وہ "حلف" کے ذریعے بیگ احساس سے متعارف ہوئے۔ ساہتیہ اکیڈمی کے مشاورتی بورڈ کے رکن کی حیثیت سے بیگ احساس نے حیدرآبادی فنکاروں کو فیض پہنچایا ورنہ عموماً دلی کے بڑے اداروں میں حیدرآبادی فنکاروں کی نمائندگی کم ہی ہوتی ہے۔
ممتاز افسانہ نگار نور الحسنین (اورنگ آباد) نے تاثراتی و تنقیدی مضمون پیش کیا۔ رؤف خیر نے منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر نسیم الدین فریس نے کہا کہ بیگ احساس نے اپنے استاذ مغنی تبسم صاحب کا اثر قبول کیا ہے۔ وہ انتہائی صاف گو انسان ہیں اور کسی مصلحت سے کام نہیں لیتے۔
پروفیسر بیگ احساس نے تمام مقررین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے موقع پر جشن کا اہتمام کر کے ایک نئی روایت قائم کی گئی ہے۔ انہیں حیدرآباد کے دانشوروں کی محفلوں میں بیٹھنے اور اساتذہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔ انہیں اپنے شاگردوں سے بےپناہ محبت اور عزت ملی۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ اس جشن میں چاہنے والوں کی کثیر تعداد دیکھ کر بعض مقررین نے کہا کہ جشن مخدوم کی یاد تازہ ہو گئی ہے تو میں اسے کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھتا۔
ڈاکٹر حبیب نثار نے ابتدا میں مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ پروفیسر شمیم علیم نے بحیثیت مہمان خصوصی تقریر کی۔ ثوبیہ ارسلان نے اپنے والد کے بارے میں تاثرات پیش کیے۔ ڈاکٹر اے آر منظر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ پروفیسر ایس اے شکور نے یادگاری تحفہ پیش کیا اور کثرت سے بیگ احساس کی گلپوشی بھی کی گئی۔
Hyderabad news, old city news, hyderabad deccan old city news, news of old city
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں