ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:17 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-14

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:17


گذشتہ اقساط کا خلاصہ :
ونود نے اگات پور میں ایک حویلی خریدی۔ اس کے پرانے کنویں کی صفائی کی گئی تو اس میں سے ایک بت نکلا۔ بت ایک خوبصورت نوجوان اور گمنام عورت کا تھا۔ ونود نے یہ بت اپنی حویلی کے سامنے حوض میں نصب کر دیا لیکن ایک رات یہ بت اپنی جگہ سے غائب تھا۔ ونود کی بیوی شانتا نے کہا کہ بت کی عورت میرے بستر کے قریب کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ بھید کی کھوج میں دہشت زدہ ونود حویلی کے تہہ خانے میں پہنچا جہاں اسے ایک لاش چبوترے پر رکھی ملی۔ سہم کر وہ واپس اپنے کمرے میں پہنچا تو دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ چند لمحوں بعد بت جیتے جاگتے روپ میں آ نمودار ہوا۔ بت نے ونود سے کہا : "میرا نام شاتو ہے ، میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ ایک زندہ عورت پتھر کے بت میں کیسے تبدیل ہو گئی؟"۔ لیکن کہانی ادھوری رہ گئی ۔۔۔ چند دن بعد وہ ایک پروفیسر کو اپنی حویلی میں لایا اور اسی رات پروفیسر اپنے کمرے میں بت کے جاگنے کے فوراً بعد مر گیا اور پولیس انسپکٹر نے ونود کو پروفیسر کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ونود کے دوست کمار نے ڈاکٹر سے پروفیسر کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے متعلق دریافت کیا اور حوالات میں ونود سے بھی ملاقات کی۔ پھر کمار حویلی کو لوٹ آیا۔

قسط : 1 --- قسط : 16

یہ یقیناً شاتو کی آواز تھی ۔
آواز میرے بالکل قریب آرہی تھی ۔۔
چند لمحات تک میں اس آواز کے سحر میں مبتلا رہا ۔ میں نے اب تک شاتو کی آواز سنی نہیں تھی جو میں اس آواز کو پہچان جاتا ۔ میں نے اب تک شاتو کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ لیکن چوں کہ شاتو کا بت اپنے چبوترے پر موجود نہیں تھا ، اس لیے شاتو کی آواز کو پہچانے بغیر میں سمجھ گیا کہ یہ آواز شاتو کی ہے ۔
شاتو مجھ سے کہہ رہی تھی ۔۔" کالکا کو آواز نہ دو ۔۔ وہ سو رہا ہے ۔۔تم شانتا کو بھی نہ پکارو وہ اس وقت دلہن بن رہی ہے ۔۔۔"
شاتو نے اپنا یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور پھر کہا "میں تمہارا انتظار ہی کر رہی تھی ، حالانکہ تم مجھ سے بارہ بجے رات کو ملاقات کرنے کے لیے کہا تھا ۔۔۔"
"لیکن تم ہو کہاں ۔۔۔ تمہارا زندہ وجود مجھ کو نظر کیوں نہیں آرہا ہے ۔۔" میں نے اپنے حواس جمع کرتے ہوئے بڑی بہادری سے کہا ۔
"میں تمہارے بالکل قریب موجود ہوں ۔" شاتو نے جواب دیا ۔ اب میں نے محسوس کیا کہ آواز پشت کی جانب سے آرہی تھی میں نے پلٹ کر دیکھا اور جیسے میری آنکھوں کے سامنے بجلی کوند گئی ۔
شاتو اپنی بے مثال راجپوتی حسن کا ایک زندہ مجسمہ بنی میری طرف اپنی چمکتی نظروں سے دیکھ رہی تھی اور اس طرح مسکرا رہی تھی جیسے مسکراہٹ اس کے لبوں کا حصہ بن چکی ہو ۔ میرا دل دھڑکنے لگا ۔
دل کا قاعدہ ہے کہ وہ کبھی سونے اور چاندی کا غلام نہیں بنتا ، دل ہمیشہ آنسوؤں اور مسکراہٹوں کا غلام بننے میں ایک مسرت سی محسوس کرتا ہے ۔ یہی مسرت اس وقت میرے دل نے بھی شاتو کو مسکراتے دیکھ کر محسوس کی ۔۔۔۔ شاتو کو اس طرح مسکراتے دیکھ کر میں نے دوسرے ہی لمحہ ایسا محسوس کیا جیسے ہوا میں بھینی بھینی خوشبو پھیل گئی ہو جیسے فضا میں ایک انجانی موسیقی بکھر گئی ہو ۔ جیسے اندھیرے میں ایک ننھی سی کرن نے چاروں طرف روشنی کردی ہو ۔
میں نے غور سے شاتو کی چمکتی آنکھوں کی طرف دیکھا ۔۔واقعی اس کی سیاہ آنکھوں میں پہاڑی جھیلوں کی سی گہرائی تھی ۔۔۔ وہ ایک خواب کی طرح نظر آرہی تھی اور اس سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ جوانی میں رنگین خواب سے زیادہ زندگی میں کوئی چیز حسین نظر نہیں آتی ۔۔۔
میں شاتو کی طرف والہانہ انداز میں دیکھتا رہا ۔۔۔
اچانک شاتو کی مسکراہٹ ایک طویل ہنسی میں تبدیل ہوگئی اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے چاند کی کرنوں سے بنے ہوئے تاروں پر کوئی نغمہ چھیڑ دیا گیا ہو ۔۔۔ ایک ایسا نغمہ جو براہِ راست دل کی گہرائیوں میں اترتا چلا جاتا ہے ۔
میں نے شاتو سے پوچھا" تم ہنس کیوں رہی ہو ۔"
"میں ونود کے انجام پر ہنس رہی ہوں " شاتو نے بدستور ہنستے ہوئے جواب دیا ۔
"یعنی اپنے محبوب کی تباہی پر تمہارا دل خوش ہو رہا ہے ۔" میں نے کہا ۔۔۔ اب میں اپنے عارضی جذبات پر قابو پا چکا تھا جو شاتو کے بے مثال حسن کودیکھ کر مجھ پر طاری ہوگئے تھے ۔
"ہاں ۔۔۔" شاتو نے کہا " اب تم مجھ کو یہ بتاؤ کہ تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے۔"
"تم سے پروفیسر کی موت کا اصل سبب پوچھنے کے لیے اور یہ دریافت کرنے کے لیے کہ ۔۔۔۔" میں ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوگیا ۔۔۔" ہاں ۔۔۔ہاں ۔۔۔ اپنا جملہ پورا کرو، خاموش کیوں ہوگئے ۔" شاتو نے کہا ۔۔۔ " اور تم سے یہ دریافت کرنے کے لیے کہ تم چاہتی کیا ہو ؟" میں نے اپنا جملہ پورا کردیا ۔ "مجھے معلوم ہے کہ ونود تم سے سب کچھ کہہ چکا ہے ۔""ہاں ۔۔" اور پھر بھی تم مجھ سے یہ دریافت کر رہے ہو کہ میں کیا چاہتی ہوں "
شاتو نے اچانک بڑی سنجیدہ آواز میں کہا ۔ اب تک وہ بڑے شوخ لہجے میں بات کر رہی تھی ۔
لیکن میں تمہارے مونہہ سے سننا چاہتا ہوں کہ تم کیا چاہتی ہوں ۔۔" میں نے کہا ۔
"میں ونود کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہوں ۔"
"لیکن کہاں ۔۔۔"
"جہاں میرا دل چاہے ۔۔۔" شاتو نے مختصر جواب دیا ۔
"تمہاری بات میر ی سمجھ میں نہیں آئی شاتو۔۔" میں نے کہا
"تم مردہ ہو ۔۔۔ تمہاری صرف رو ح زندہ ہے تمہارے جسم کا کوئی وجود نہیں ہے ۔۔۔ تم زندہ اور گوشت پوست کے ایک وجود کو جس کا نام ونود ہے لے کر کیا کروگی ۔"
"میں مردہ نہیں ہوں ۔۔"شاتو نے کہا "میں ونود کے لیے اب تک زندہ ہوں اور اس وقت تک نہیں مروں گی جب تک میں ونود کو حاصل نہ کرلو ں ۔"
اب شاتو کا لہجہ سخت ہوچکا تھا ۔
اس نے مجھ سے مزید کہا "پروفیسر کا قتل ونود نے نہیں کیا اور نہ میں نے اس کا قتل کیا ہے ، وہ مجھ کو دیکھ کر خوف زدہ ہوا اورمرگیا ۔۔۔۔ وہ مجھے دیکھتے ہی غالباً پاگل بھی ہوگیا تھا ۔ کیوں کہ وہ خود بخود اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا دبانے لگا تھا ۔۔"
"تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔"میں نے کہا ۔ کیوں کہ پروفیسر کے گلے پر کسی بھی انگلیوں کے نشان نہں پائے گئے ہیں ۔"
"میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں ، کیوں کہ میں کسی سے نہیں ڈرتی ہوں اور جھوٹ وہی بولتے ہیں جو کسی سے ڈرتے ہیں ۔"شاتو نے بڑے اطمینان سے جواب دیا اور پھر مجھ سے کہا "میں تمہارے بارے میں بھی سب کچھ جانتی ہوں مجھے تمہارے اور شانتا کے پرانے تعلقات کا اچھی طرح علم ہے ، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تم شانتا کے لیے اپنے دل میں اب بھی ایک نرم گوشہ رکھتے ہو ۔۔۔۔ میں نے اسی لیے شانتا کو دلہن بنا دیا ہے ۔۔۔۔ وہ تمہارا انتظار کررہی ہے ۔۔۔ اور آج کی رات بہت خوب صورت بھی اور تنہا بھی ۔۔"
"دغا باز عورت ۔۔" میں اچانک چیخا ۔۔۔ اور شاتو کا وجود دوسرے ہی لمحے میری نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ البتہ اس کے ہلکے ہلکے قہقہوں کی آواز دیر تک فضامیں گونجتی رہی ۔
میں دیر تک وہاں کھڑا حوض کے خالی چبوترے کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ شاتو اس وقت کہاں ہوگی ؟ ایک سوال یہ بھی میرے ذہن میں کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا کہ آخر شاتو کا بت وقت مقررہ سے قبل ہی کیوں زندہ ہوگیا ۔
شاتو نے شانتا کے بارے میں جو آخری جملے مجھ سے کہے تھے وہ جیسے اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے تھے اور میرے تن بدن میں آگ سی لگتی جا رہی تھی ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شاتو مجھے اتنا گھناؤنا مشورے دے گی ۔
شاتو واقعی ونود سے بڑا سخت انتقام لینا چاہتی تھی ۔
اچانک میں نے سوچا کہ خود شانتا دلہن بننے پر راضی کیوں ہوگئی ؟ آخر وہ کون سی پر اسرارطاقت تھی جس نے شانتا کو دلہن بننے پر مجبور کردیا ؟ لیکن ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی سوچا کہ کہیں شاتو نے ایک تیر سے دو شکار تو نہیں کھیلے ہیں ۔
یہ بات میرے ذہن میں اس لیے آئی کہ شانتا مجھ سے کہہ چکی تھی کہ اس حویلی میں شاتو کی روح کے علاوہ ایک مرد کی روح بھی موجود ہے جو شانتا کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہے ۔۔۔۔
میں نے سوچا کہ کہیں شاتو نے اس روح کی تسکین کے تو شاتو کو دلہن نہیں بنایا ہے ؟ ۔۔ اور اگر ایسا ہے تو واقعی اس وقت شانتا خطرے میں ہے ۔
چنانچہ ۔۔۔
اپنا ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر میں کالکا کو پکارتا ہوا شانتا کے کمرے کی طرف دوڑنے لگا۔۔ لیکن جیسے ہی میں شانتا کے کمرے کے قریب پہنچا میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کالکا کمرے کے باہر فرش پر اوندھا پڑا ہوا تھا ۔ میں نے اس کو سیدھا کیاتو وہ گہری نیند میں تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ وہ سو نہیں رہا ہے بلکہ بے ہوش ہے ۔
اب میں نے پریشان ہوکر شانتا کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا دروازہ اندر سے بند نہیں تھا وہ فورا ًکھل گیا ۔ میں بد حواسی کے عالم میں اندر داخل ہوا تو میرے قدم زمین پر جم کے رہ گئے کیونکہ ۔۔۔ اندر پلنگ پر شانتا نیم عریاں حالت میں پڑی تھی اور ایک ایسا وجود جس کی حیثیت ایک گہرے دھوئیں کی سی تھی اس پر جھکا ہوا تھا ۔۔ میں چیخا "شانتا۔۔"اور جیسے ہی میری آواز کمرے میں گونجی یہ دھواں فضاء میں تحلیل ہوگیا ۔۔۔ شانتا بدستور پلنگ پر لیٹی رہی ۔۔۔ میں لپک کر اس کے قریب آتا تو یہ دیکھ کر اور بھی زیادہ حیران رہ گیا کہ شانتا جاگ رہی تھی اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور اس کے چہرے پر کسی پریشانی یا الجھن کے آثار نہیں تھے ۔
میں شانتا کے چہرے کی اس تبدیلی کو دیکھ اور بھی زیادہ حیران پریشان ہوگیا کیوں کہ جس شانتا کو میں صبح حویلی میں چھوڑ کر گیا تھا وہ مردوں سے بد تر تھی اس کا چہرہ برسو ں کے بیماروں کا سا تھ ا، اس کی آنکھیں خشک تھیں ہونٹ مرجھائے ہوئے تھے اور وہ غم کی وجہ سے بالکل دیوانی نظر آرہی تھی لیکن اس وقت جو شانتا میری نگاہوں کے سامنے پلنگ پر نیم عریاں حالت میں پڑی تھی اس کا انداز ہی کچھ اور تھا ۔
یہ شانتا سولہ سنگھار کئے ہوئے تھے اس کے بال بڑے خوبصورت انداز میں گندھے ہوئے تھے وہ تمام زیور پہنے ہوئے تھی اس کے چہرے پر شادابی ہی شادابی تھی اور ہ اپنے بہترین لباس میں تھی ۔
میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر شانتا کو دیکھتا رہا جیسے مجھے یقین ہی نہ آرہا ہو کہ میں شانتا کو دیکھ رہا ہوں ۔
چند لمحات کے بعد میں نے آگے بڑھ کر شانتاکا بلاؤز جو قرب ہی رکھا تھا اس کی عریاں سینے پر ڈال دیا ۔۔ مجھ سے شانتا کی عریانیت دیکھی نہیں جارہی تھی ۔۔۔ اب میں نے بہت آہستہ آواز میں اسے پکارا ۔۔۔۔۔
لیکن ۔۔۔۔
اس مرتبہ بھی شانتا نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ وہ اپنی نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی رہی اور میری الجھنوں میں اضافہ ہوتا رہا ۔ میں نے اسے دوبارہ پکارا سہ بارہ پکارا لیکن شانتا نے کوئی حرکت نہیں کی ، اس پر نہ میرے پکارنے کا اثر ہوا اور نہ میری موجودگی کا ۔۔ اب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے جھنجھوڑ ا اور پوری قوت سے چلایا "شانتا۔۔" اور جیسے شانتا کوہوش آگیا ۔۔۔ وہ بڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی ۔۔۔ وہ حیران حیران نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی ۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:17

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں