ہندوستانی رائے دہندہ اور 20 سال کا سیاسی سفر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-14

ہندوستانی رائے دہندہ اور 20 سال کا سیاسی سفر

تقریباً 20سال پہلے جس موضوع نے ہندوستانی سیاست کا جیسے نقشہ ہی بدل دیا تھا آج اُس کے بارے میں کیا سمجھا جائے؟ ہاں! یہ ذکر 6دسمبر کو بابری مسجد کی شہادت کا ہے۔ ان 20 سال میں ہندوستانی سیاست نے لگتا ہے جیسے ایک لمبا سفر طئے کرلیا ہے۔ ہندوستانی سیاست اگر وہیں رکی رہتی تو شاید آج کے زمانے میں اس میں کئی قسم کے بدلاؤ نظر نہیں دکھائی دیتے۔
یقیناً ایودھیا موضوع کو لے کر جو جھنڈا اُس وقت بی جے پی اور اس سے جڑے لوگوں نے اٹھایا تھا اس کی وجہہ سے اس پارٹی کی ہندوستانی سیاست اور پارلیمنٹ میں پہلے کے مقابلے میں کافی بڑھ گئی لیکن یہ بھی نہیں بھلایا جاسکتا کہ مرکزی سیاست میں آگے بڑھنے کیلئے اسی پارٹی کو اپنا سابق موقف اسی موضوع تبدیل کرنا پڑا۔ اُس وقت یہ فیصلہ لینا شاید بی جے پی کیلئے آسان کام نہیں تھا لیکن اُس نے لیا تھا اور ان 20 سالوں میں ہ پارٹی شاید اس بات سے اچھی طرح سے واقف ہوگئی ہے کہ صرف اپنے ہی دم پر اس کیلئے مرکزی سیاست میں اپنی جگہ بڑھانا آسان کام نہیں ہے۔
کس حد تک بی جے پی نے یہ سیاسی حقیقت کو مان لیا ہے، یہ بات اس کی ریاستی انتخاب کی مہم میں ظاہر ہوگئی تھی۔ چاہے دکھاوے اور نام کیلئے ہی صحیح، بی جے پی کیلئے اپنے پبلک پروگراموں میں مسلمانوں کا ساتھ دکھانا کافی ضروری سمجھا گیا تھا۔ یہاں ظاہر ہے سوال یہ اٹھتا ہے کہ کہاں گیا وہ 20سال پہلے والا کمیونل نظریہ؟ ممکن ہے اُس وقت سیاست میں آگے بڑھنے کیلئے بی جے پی نے اُس انداز کو ضروری سمجھا۔ اور اب یہ مان لیا ہے کہ اسے اس پرانے سیاسی طریقے کو سیاست میں آگے بڑھنے کیلئے پیچھے چھوڑنا پڑے گا۔
کس حد تک بی جے پی نے اپنا سیاسی طریقہ بدلا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ا س سے اور ضروری بات یہ ہے کہ کس حد تک آج کا ہندوستانی ووٹر اس پارٹی کو اپنی اور ملک کی ترقی سے جوڑتا ہے۔ ریاستی انتخابات کے نتیجے کا صرف ایک حصہ ظاہرکریں گے۔ اصلی فیصلہ تو پارلیمانی انتخابات کے وقت سامنے آئے گا۔ ان 20 سالوں میں ہندوستانی ووٹر کے انداز میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔
آج کے زمانے مے ہر ووٹر اپنی سیاسی اہمیت پہلے سے زیادہ سمجھتا ہے۔ ایک وقت تھا جب گنے چنے لیڈر عام ہندوستانی کیلئے بہت اہمیت رکھتے تھے۔ ذرا یاد کیجئے، کس یقین کے ساتھ لوگ مہاتما گاندھی کا ساتھ دیتے تھے۔ بندوق کی گولی سے نہیں بلکہ عام ہندوستانی کے جذبہ حریت سے ہندوستان کو آزادی ملی تھی۔ 20 سال پہلے تک کئی حصوں میں عام ہندوستانی اپنے اپنے لیڈروں کی بات میں آسانی سے آجاتے تھے۔ آج چاہے مختلف لیڈر جتنا بھی دعویٰ کریں، یہ بات عام ہندوستانی کیلئے کافی بدل گئی ہے۔ چاہے وہ لیڈروں کی بات کو جتنی توجہ دیں ان کا فیصلہ اپنی خود کی پسند کا ہوتا ہے۔
ظاہر ہے یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان 20 سالوں میں ہندوستانی سیاست کا ماحول اتنی تیزی سے کیسے بدل گیا ہے؟ پہلے تو یہ مان لینا ضروری ہے کہ 20 سال کا وقت کم نہیں ہوتاہے۔ اور آپ اپنے پاس، اپنے گھر اور آس پاس ذرا غور کیجئے۔ تب کیا تھے ہندوستانی ٹی وی کے پروگرام؟ کتنے چیانل آتے تھے؟ کیا رنگین ٹی وی سب کے پاس تھا؟ آج تو ٹی وی ایک اہم ضرورت سمجھا جانے لگاہے۔
جب20 سال پہلے ملک کے کئی حصوں میں فساد ہوئے تھے تو اس کی خبر فوراً سب کو نہیں ملی تھی۔ دس سال پہلے جب گجرات میں ہنگامہ ہوا تھا تو اس کا لائیو ٹیلی کاسٹ کئی لوگوں نے پورے ملک اور دنیا میں دیکھا۔ اور شائد اسی وجہہ سے گجرات کا ہنگامہ اسی ریاست تک محدود رہا۔ دوسری ریاست کے ہندوستانی نہیں چاہتے تھے کہ اس کا اثر ان تک پہونچے۔

ٹی وی کلچر کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر نے بھی اپنا اثر دکھایا ہے اور دکھارہا ہے۔ اس سے جڑا انٹرنٹ اور موبائیل فون کا اثر۔ کچھ حد تک یہ مانا جاسکتا ہے کہ انٹرنٹ کا پورا استعمال پڑھے لکھے لوگ ہی کرسکتے ہیں، لیکن اسی کے ذریعہ ٹی وی، ریڈیو کی خبریں تو سب تک پہونچ جاتی ہیں۔ موبائیل سے بھی یہی کام کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ان چیزوں کی اہمیت عام ہندوستانی کیلئے صرف خبر تک محدود نہیں ہے بلکہ شائد جتنا وقت پہلے ٹی وی اور ریڈیو کو بھی خبر کیلئے دیا جاتا تھا، آج اتنا نہیں دیا جاتاہے۔ مثلاً جیسے پہلے کم سے کم دس فیصد استعمال ان چیزوں کا صرف خبروں کے لیا کیا جاتا تھا، آج شائد پانچ فیصد بھی نہیں کیا جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے زیادہ وقت ٹی وی ریڈیو کے دوسرے پروگرام، ڈرامے، گانے اور ایسے ہی اور پروگرام پر چلاجاتا ہے۔ شائد اسی وجہہ سے کئی چینل پر توخبریں تقریباً آتی ہی نہیں، صرف اس طرح کے پروگرام کو زیادہ سے زیادہ وقت دیا جاتا ہے، اور کیوں کے عام لوگ انہیں پسند کرتے ہیں یہ چینل اچھی طرح سے چل رہے ہیں۔ یہ حال ہندوستانی ٹی وی کلچرکا 20 سال پہلے نہیں تھا۔
20 سال پہلے موبائل فون کا تو کئی لوگوں نے نام بھی نہیں سنا تھا۔آج یہ تقریباً سبھی کیلئے ضروری ہوگیا ہے۔ بیس سال پہلے مختلف پارٹیوں اور لیڈروں کیلئے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنا جتنا آسان تھا، وہی بات آج کے زمانے کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔ شائد اسی وجہہ سے اب ووٹرکیلئے یہ سہولت شروع کردی گئی ہے جس کے مطابق وہ کسی کو بھی ووٹ نہ دے کر اپنے اس حق اور فرض کااستعمال کرسکتا ہے۔
میڈیا میں ملی توجہ اور ان کے مہم کے پروگرام میں جمع لوگوں کو،ان لیڈروں کی سیاست کی صرف ایک جھلک سمجھنا بہتر ہوگا۔ میڈیا کا توکام ہے، انتخابات کے وقت لیڈروں کی مہم لوگوں کے سامنے پیش کرنا، اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کافی حد تک کئی پارٹیاں اور لیڈر اپنی مہم کو وہ رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہہ سے ان پر میڈیا کی توجہ رہے ، زیادہ سے زیادہ۔ بھیڑ جمع کرنا بھی الگ، الگ طریقوں میں سے ایک ہے۔
لیکن، آج کے زمانے میں خبریں دیکھنا، پڑھنا یا ان کا حصہ بننے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ اصلی جمہوری سیاست، یعنی عام آدمی کی رائے کی صحیح تصویر ہے۔ جو تصویر خبروں کے ذریعہ سامنے آتی ہیں جسے عام رائے کی طرح پیش کیا جاتا ہے، انتخاب کے وقت اس کا رخ کافی حد تک بل سکتا ہے۔ اب ذرا دہلی کے ریاست انتخاب کے بارے میں سوچئے، کچھ دن پہلے الگ الگ قسم کی تصویریں پیش کی جارہی تھیں۔ کبھی کہا جارہا تھا کہ کانگریس بچالے گی اپنی حکومت، کچھ کا ماننا تھا کہ کیجریوال دونوں پارٹیوں کیلئے بھاری پڑیں گے اور یہ بھی دعویٰ کیا جارہا تھا کہ بی جے پی یہ بازی مار لے گی۔ اب آنے والے دنوں میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ ووٹر کی چال نے کس وجہہ سے یہ رنگ دکھایا ہے؟ 20 سال میں سیاست میں تبدیلی کی اصلی وجہہ ہے ووٹر کے سیاسی نطریہ میں بدلاؤ آنا۔ سب سے دلچسپ سفر رہا ہے یہاں کے ووٹر کا جسے ابھی تک سب لیڈر پوری طرح سے سمجھ نہیں پائے ہیں!

20-years of political career of indian voter. Article: Niloufer Soharwardi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں