« پچھلی قسط --- تمام اقساط »
پیشاب کے سوراخ سے کچھ نیچے ایک سوراخ نما نالی ہوتی ہے جسے "فرج" کہتے ہیں ۔ یہ مرد کے "ہتھیار" کے لیے نیام کا کام دیتی ہے۔
فرج کے بھی دو لب ہوتے ہیں جن کے اندرونی جانب گلابی رنگ کا ایک باریک جھلی کا پردہ ہوتا ہے ۔ جیسے "پردہ بکارت" کہتے ہیں ۔ یہ پردہ گویا خزانہء حسن کا چوکیدار ہے ۔ کیونکہ وہ کسی چیز کو فرج کے اندر داخل ہونے سے روکتا ہے ۔ اس پردے کے درمیان یک بالکل باریک سا سوراخ ہوتا ہے جس کے ذریعہ ماہورای کاخون باہر نکل سکتا ہے ۔ اس پردے کی موجودگی اس بات کا ضرور ثبوت ہے کہ اس کے ساتھ مباشرت نہیں کی گئی لیکن یہ پردہ اس قدر نازک ہوتا ہے کہ اکثر کھیل کود یا بھاگ دوڑ ہی میں پھٹ جاتا ہے ۔ اس لیے موجودہ دور میں اس پردے کی غیر موجودگی کا یہ مطلب نہیں کہ عورت با عصمت نہیں ہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ سہاگ رات یا پہلی مباشرت تک یہ پردہ برقرار رہے ۔ جن عورتوں کا یہ پردہ برقرار رہتا ہے پہلی مباشرت میں اعضاء تناسل داخل کرنے سے پھٹ جاتا ہے لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بتایا گیا ہے کہ بعض مرتبہ بچپن ہی میں کھیل کود کی وجہ سے یہ پردہ پھٹ جاتا ہے ۔ کبھی کبھی تو عورتوں میں یہ پیدائشی طور پر مفقود ہوتاہے ۔
فرج کی نالی اصل میں عیش نشاط کی دل فریب وادی ہے ۔ قدرت نے اس نالی کے بالائی حصہ کو تنگ بنایا ہے لیکن آگے بتدریج کشادہ ہوتی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ آخر میں اس کا منہ اس قدر کشادہ ہوگیا ہے کہ رحم کی گردن اس کے اندر آجاتی ہے !
فرج عورت کے اعضائے تناسل میں ایک اہم ترین حصہ ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتو جماع ہی نہ ہو سکے اور افزائش کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہے ۔ اس لیے اس کی ساخت بھی مخصوص انداز میں ہوتی ہے ،پیاز کے چھلکوں کی طرح ، فرج کی نالی کی دیوروں میں پرت ہوتے ہیں ۔ فرج کی دیواروں سے ایک کھٹار رس نکلتا رہتا ہے جس سے اس نالی کی حفاظت ہوتی ہے ۔ اس رس کی وجہ سے باہر سے کوئی بھی مرض کے جراثیم فرج کی نالی پر حملہ نہیں کرپاتے ۔ اس کھٹے مادے میں مرد کی منی کے جراثیم بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔
لیکن اس سیال مادےکا اثر فرج کے اگلے نصف حصہ پر ہی ہوتا ہے ۔پچھلے نصف حصے میں رحم کے منہ سے ایک دوسرا نمکین مادہ رِستا رہتا ہے جس میں منی کے جراثیم محفوظ رہتے ہیں ۔ فرج کی نالی کی دیواروں کی آخری پرت میں ایک لعب دار جھلی ہوتی ہے ، جس سے مباشرت کے وقت رطوبتیں خارج ہوتی ہیں ، جس سے مرد کے آلۂ تناسل کی آمدو رفت میں آسانی ہوجاتی ہے ۔
جنسی تحریک کی حالت میں ان رطوبتوں میں زیادتی ہوجاتی ہے ۔ دراصل یہ رطوبتیں جنسی ملاپ میں بڑی مدد دیتی ہیں کیوں کہ ان کی چکناہٹ اور تری سے عورت ،مرد کے عضوِ تناسل کے دخول کی تکلیف برداشت کرلیتی ہے ۔ کسی خرابی کی وجہ سے جب یہ رطوبتیں ختم ہوجاتی ہیں تو دخول میں تکلیف ہوتی ہے اس لیے جنسی ملاپ سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ رطوبتیں بہتی ہوئی فرج کے باہر ی سرے تک آجائیں۔ اس میں کچھ وقت لگتا ہے ۔ جب ہی تو ماہرین کا مشورہ ہے کہ جنسی ملاپ کے عملی اقدام سے پہلے ہی پوری طرح جنسی تحریک کو بیدار کرنا چاہیے۔
فرج کی لمبائی اور گہرائی عام طور پر ڈھائی انچ سے چار انچ تک ہوتی ہے ۔۔لیکن بعض قوموں اور ملکوں کی عورتوں میں یہ لمبائی 6 انچ تک بھی پائی جاتی ہے ! فرج کے پٹھوں کے لچکیلے پن کی وجہ سے فرج میں مرد کے عضوِتناسل سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے ۔ مباشرت کے خاص طریقے اپنانے سے فرج کی نالی کی لمبائی کسی قدر گھٹائی بڑھائی جاسکتی ہے ۔ بچہ کی پیدائش کے وقت فرج غیر معمولی طور پر پھیل کر بچے کو جنم دیتی ہے ۔۔کیونکہ فرج کے راستہ ہی بچہ راستہ طے کر کے رحم مادری سے عالم وجود میں آتا ہے لیکن آخر یہ تنگ وادی اس قدر کشادہ کس طرح ہوجاتی ہے ؟ قدرت نے اس کی ساخت ہی کچھ اس طرح بنائی ہے کہ یہ ضرورت کے وقت بہت زیادہ کشادہ ہوجائے ۔ فرج کے اندرونی حصے میں اس طرح کی بہت سی چنٹیں یا شکنیں ہوتی ہیں جیسے کہ کسی بٹوے میں ہوتی ہیں ۔ اگر فرج کے اندورنی حصے پر یہ چنٹیں نہ ہوتیں تو بچے کی پیدائش کے وقت وہ اس قدر کشادہ ہونے کے بجائے شق ہوجاتی اور آئندہ عورت افزائش نسل کے کام ہی کی نہ رہتی ۔
یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ زجگی کے چالیس دن بعد فرج اپنی اصلی حالت پرآجاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے پانی میں ایک بڑا سا پتھر مارو تو پانی پھیل کر پھر اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے ۔ اگر فرج کی ساخت ایسی نہ ہوتی کہ وہ وضع حمل کے بعد اپنی اصلی حالت پر نہ آسکتی تو یقین مانئیے کہ مردوں کو ہر زچگی کے بعد عورت بدلنا پڑ جاتی !
عیش و مسرت کی وادی "فرج" جس عضو سے ملحق ہوتی ہے وہ انسان کا پہلا گہوارہ ہے ۔ ہستی کے دائرہ میں آکر انسان سب سے پہلے جس جگہ نشوونما پاتا ہے اسے رحم کہتے ہیں ۔ اسی لیے یہ عورت کے اعضائے تولید کا سردار سمجھا جاتا ہے ۔ رحم اعضائے نسوانی کا اہم ترین حصہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نازک ترین بھی ۔ اس کی گردن فرج کے اندر ہوتی ہے اور اگر اس میں ذرا سی ٹھیس لگ جائے تو اس کی گردن دوسری جانب جھک جاتی ہے ۔ جس کو عام طور پر رحم کا الٹ جانا کہتے ہیں ، رحم کے اس طرح الٹ جانے سے عورتوں کو بعض شدید ترین امراض میں مبتلا ہونا پڑتا ہے ۔ خرابی ء رحم کا اثر براہ راست عورت کے دل و دماغ پر پڑتا ہے اور خرابیء رحم کی وجہ سے بعض عورتیں پاگل ہوجاتی ہیں یا انھیں قسم قسم کے دورے پڑنے لگتے ہیں ۔
عورت کے اعضائے تولید میں رحم کو ایک خاص درجہ حاصل ہے کیونکہ اس میں بچہ پرورش پاتا ہے ۔ رحم اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے اور اس کی شکل ناشپاتی سے مشابہ ہوتی ہے ۔۔۔ کیونکہ اس کا بالائی حصہ کشادہ ہوتا ہے اور نچلا حصہ لمبا اور تنگ ہوتا ہے ۔ رحم کا جو حصہ فرج کی نالی کے اندر ہوتا ہے اس کو رحم کا منہ کہتے ہیں ۔ جس کے دو لب ہوتے ہیں ، جو صدفِ تشنہ کی طرح قطرہء نیساں کے انتظار میں کھلے رہتے ہیں اور اس وقت بند ہوتے ہیں جبکہ قطرہء نیساں تو ہر یک دانہ بننے کے لیے ان کے اندر داخل ہوجائے ۔ جنسی فعل میں مرد کا عضوِ تناسل رحم کے منہ سے ٹکراتا ہے ۔ جس سے عورت کافی لطف اندوز ہوتی ہے ۔ بشرطیکہ وہ ہلکے ہلکے ٹکرائے ۔ رحم لچکیلے مہین تاروں سے بنا ہوتا ہے اور اس کے پٹھوں میں پھیلنے اور سکڑنے کی عجیب صلاحیت ہوتی ہے ۔ عام حالت میں رحم ، تین انچ لمبا اور دو انچ موٹا ہوتا ہے لیکن حمل کے دوران یہ پھیل کر نو سے بارہ انچ ہوجاتا ہے ۔ بعض اوقات جب رحم کو قائم رکھنے والے بندھن ڈھیلے پڑ جاتے ہیں تو یہ اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے ۔ ایسی حالت میں عورت کو عموماً مباشرت میں تکلیف ہوتی ہے ۔
جس طرح پرندوں میں نر اور مادہ کے جنسی ملاپ کے بعد مادہ انڈے دیتی ہے اور اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے بالکل اسی طرح انسان بھی عورت کے انڈے سے پیدا ہوتا ہے ! عورتوں کے رحم کے دائیں اور بائیں سرے ایک ایک نلی نکلتی ہے جو رحم میں آکر کھلتی ہے ۔ رحم کے دونوں جانب کبوتر کے انڈے کے برابر بیضوی شکل کے کے دو غدود یا بیضہ دانیاں ہوتی ہیں ۔ ہر غدود میں ،جب کوئی لڑکی عالم شباب کی منزل میں پہنچے تو چھوٹے انڈے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان ہی انڈوں سے انسانی زندگی کی تشکیل ہوتی ہے ۔ عورت کے جسم میں ان بیضہ دانیوں یا غدود کا کام ٹھیک وہی ہے جو مردوں کے فوطے جسم کے باہر ہوتے ہیں جبکہ عورت کی بیضہ دانی جسم کے کے اندر ہوتی ہے ۔ بیضہ دانیو ں یا غدودکاکام ٹھیک وہی ہے جو مردوں کے فوطے انجام دیتے ہیں ۔ لیکن مرد کے فوطے جسم کے باہر ہوتے ہیں ۔ جبکہ عورت کی بیضہ دانی جسم کے اندر ہوتی ہے ۔ بیضہ دانیوں کی شکل بادام کی طرح ہوتی ہے ۔ یہ رحم کے دونوں طرف تقریباً تین تین انچ کے فاصلہ پر ہوتی ہیں ۔ جس طرح مرد کے فوطوں میں بے شمار منی کے جراثیم پیدا ہوتے ہیں اسی طرح عورتوں کے ان غدودں میں جراثیم پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان میں باری باری ایک مہینے میں ایک ہی بیضہ پختہ ہوکر نکلتا ہے یعنی ایک مہینے میں بائیں غدود سے سے تو دوسرے مہینے ، دائیں غدود سے ۔ منی کے جراثیم اسی ایک بیضہ سے ملتے ہیں تو حمل قرارپاتا ہے ۔ بیضہ بنانے والے ان غدودوں کا دوسرا اہم کام زنانہ ہارمونس عورت کے جسم میں نسائیت پیدا کرتے ہیں ۔ ماہواری ان ہی ہارمونس کا نتیجہ ہے کہ زنانہ جسم کی نزاکت ، کشش ، حسن چھاتیوں کا ابھار اعضاء کا توازن و تناسب ، کولھوں کی ساخت ، آواز کی شیرینی اور مزاج کی نزاکت ، یہ سارے مخصوص زنانہ اوصاف ان ہی ہارمونس کی بدولت وجود میں آتے ہیں ۔
عورت کے رحم کے دائیں اور بائیں سروں پر ایک ایک بیضہ نالی نکلتی ہے بیضہ ان ہی نالیو ں کے راستہ سے ہوکر رحم میں پہنچتا ہے اور منی کے جراثیم کے ملنے کا مقام بھی یہی بیضہ نالیاں ہوتی ہیں ۔ دراصل ایک پختہ بیضہ ، نالی کا دو تہائی فاصلہ طے کرکے وہیں وہ منی کے جراثیم کا انتظار کرتا ہے ۔ اگر منی کے جراثیم سے اس کی مڈ بھیڑ ہوجائے تو حمل ٹھہر جاتا ہے اور بیضہ رحم کی دیوراوں سے چپک کر بڑھنے لگتا ہے اور اگر جراثیم اور بیضے کا ملاپ نہیں ہوتا تو وہ رحم میں نہیں ٹھہرتا بلکہ وہ حیض کے خون کے ساتھ باہر نکل جاتا ہے ۔
Jins Geography -episode:17
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں