بہترین متاع - نیک بخت و صالحہ عورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-27

بہترین متاع - نیک بخت و صالحہ عورت

good-muslim-wife
استخارہ کہتے ہیں طلب خیر کو یعنی اسلام کی ہدایت کے مطابق دو رکعت نفل نماز اس مقصد کیلئے ادا کرکے استخارہ کی دعا کی جائے۔ جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ حق سبحانہ کی حمد و ثناء بیان کرکے اپنی عاجزی و بے بضاعتی پیش کی جائے اور دعا کی جائے کہ رب العالمین میں آپ سے آپ کے علم کے ساتھ خیر مانگتا ہوں اور آپ کی قدرت کے ساتھ آپ کی طاقت مانگتا ہوں اور آپ سے آپ کے بڑے فضل کا سوال کرتا ہوں کیونکہ آپ قدرت والے ہیں، مجھے کچھ قدرت نہیں آپ جانتے ہیں میں نہیں جانتا آپ تو غیبوں کے خوب خوب جاننے والے ہیں اے مولیٰ اس امر (رشتہ) میں میرے دین، میری معیشت اور میرے انجام کار یعنی عاقبت کے اعتبار سے آپ کے علم کے مطابق خیر و بھلائی ہے تو اس کو میرے لئے طئے فرماد یجئے اور اس میں میرے لئے آسانیاں پیدا فرمائیے۔ پھر اس کو میرے لئے بابرکت بنادیجئے۔ اور اگر یہ رشتہ میرے لئے مذکورہ امور دین و معاش و عاقبت کے لحاظ سے خیر والا نہ ہو تو مولیٰ اس کو مجھ سے دور کردیجئے اور مجھ کو اس سے دور کردیجئے اور جہاں میرے لئے خیر مقدر ہو اس کا فیصلہ فرمائیے اور اس پر مجھے راضی رہنے کی توفیق مرحمت فرمادیجئے۔ استخارہ کے ساتھ جس دوسرے امر کے اہتمام کی اہمیت ہے وہ ہے "استشارہ" یعنی دیندار متقی و پرہیزگار اپنے خاندان کے بزرگ یا امت کے بزرگ حضرات سے مشورہ کرلیا جائے۔ ان دونوں طرح کے اہتمام کے بعد ان اشاء اﷲ جو رشتہ ہوگا وہ یقیناًباعث رحمت و برکت ہوگا۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے جو استخارہ کرلے اور استشارہ کرلے اس کو ندامت نہیں ہوگی۔ "من استشارہ ومن اسختارہ لم یندم" رشتہ نکاح کے بارے میں عام طورپر جو ترجیحات معاشرہ میں ملحوظ رہتی ہیں ان میں مال بھی ہے اور جمال بھی، حسب و نسب بھی ہے اور دینداری بھی۔ حضرت نبی پاک سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حدیث پاک میں ان ترجیحات کا ذکر فرمایا : "تنکح المرأۃ لا ربع لما لھا ولحسبھا والجمالھا ولدینھا"۔ لیکن اﷲ کے نبی سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان ترجیحات میں سب سے زیادہ جس کو ترجیحاً پسند فرمایا وہ ہے دینداری۔ ارشاد فرمایا "فاظفر بذات الدین" یعنی دین و مذہب عزیز رکھنے والے آخرت کی سرفرازی و کامیابی کو دنیا اور دنیا کے عیش و آرام و راحت پر مقدم رکھنے والے کو چاہئے کہ وہ رفیق زندگی کے انتخاب میں دینداری کو اولین ترجیح دے دیگر تمام ترجیحات یا بعض۔ دینداری کے ساتھ رفیق زندگی میں پائی جارہی ہوں تو نور علی نور ورنہ دینداری کے بغیر کوئی اور شئے خواہ وہ مال و منال ہو کہ حسن و جمال ہو خواہ نسب و حسب اور اعلیٰ خاندان ہو کہ کس کام کا جس کہ ان میں سے کوئی بھی کمال نہ دنیا میں باعث سکنیت ہے نہ آخرت میں موجب نجات۔ استخارہ اور استشارہ سے پیشتر حسن انتخاب میں ترجیحا دینداری ملحوظ ہو۔ سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی رشتہ کرنے والے کے پیش نظر رہے "الدنیا کلھا متاع و خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ" کہ دنیا تمام کی تمام متاع ہے یعنی جن سے انسان نفع حاصل کرتا ہے لیکن بہترین متاع نیک بخت و صالحہ عورت ہے۔ رفیق زندگی کے انتخاب میں اولاً دینداری کو ترجیح دینا ثانیا استخارہ اور استشارہ پر اچھی طرح عمل کرلینے کے باوجود زندگی میں رفیق زندگی سے بعض امور میں عدم موافقت کا وقوع فطری ہے اس صورتحال میں صدر بالا سطور میں بیان کردہ حقائق کو نشان راہ بنالیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ نفسیاتی پہلو ہیں جن پر غور و فکر کرنے اور روبہ عمل لانے سے رہی سہی شکایات کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ عام طورپر انسان کو اپنی کمزوریاں دکھائی نہیں دیتیں جیسے محاورہ ہے اپنی پیٹھ اپنے آپ کو نظر نہیں آتی۔ عام طورپر بعض انسانوں کی روش اپنے حال سے بے خبر دوسروں کے عیبوں پر نظر اور ان پر تنقید و تبصرہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو حسب محاورہ دوسروں کی آنکھ کا تنکہ تو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا اس لئے رفیق زندگی (بیوی) میں کچھ کمزوریاں دکھائی دے رہی ہوں یا اس میں کسی طرح کی کمی کا احساس ہورہا ہوتو اس کا آسان حل یہ ہے کہ اس بارے میں غوروفکر میں غلطاں و پیچاں ہونے اور دل و دماغ کو پراگندہ کرلینے سے قبل خود اپنے گریبان میں جھانک لیا جائے، اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لیا جائے تو اس سے خود بخود یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ قلبی و ذہنی الجھن سے نجات مل جائے گی۔ یہ کام اگرچیکہ آسان نہیں لیکن صاحبان عزیمت کیلئے یہ ضرورآسان ہے اپنی فکر میں اس طرح کا احساس تازہ کرلیا جائے تو یقیناً خوبیوں اور کمزوریوں کے ساتھ اپنی رفیقہ حیات فرشتہ رحمت نظر آنے لگے گی اور نفسیاتی الجھن سے آزادی مل جائے گی۔ ایک اور ترکیب بھی نفسیات بلکہ روحانی امراض کے ماہرین بتاتے ہیں وہ یہ کہ اس طرح کی صورتحال درپیش ہوتو اپنے آپ کو فریق مخالف (رفیق حیات) کی جگہ رکھا جائے اور فریق مخالف (بیوی) کی جگہ اپنے آپ کو تصور کیا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ اس طرح کا معاملہ پیش آجاتا تو خود اس کا ردعمل کیا ہوتا وہ کس چیزکو اپنے لئے پسند کرتا اور اس احساس کو تازہ کرلینے سے بھی بہت سے نفسیاتی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اﷲ کے نبی سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جو نفسیات کے بھی امام ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پاک کہ تم دوسروں کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو کہ سرمہ بصیرت بنالینے سے شکایات کا ازالہ بھی ہوجاتا ہے اور زندگی کا سکون میسر آجاتا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ انسان خود کچھ بھی رہا ہو لیکن رفیق حیات سے وہ بہت سی توقعات وابستہ کرلیتا ہے جب اس کی فکری جولان گاہ میں وہ پورا اترتا ہوا نہیں دکھائی دیتا تو پھر یہاں سے الجھنوں کا آغاز ہوتا ہے ظاہر ہے اس کا آسان حل تو یہی ہے کہ اپنے ساتھی کے بارے میں افسانوی انداز کے توقعات وابستہ کرنے کے بجائے اپنے آپ کو اپنے ساتھی کی توقعات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ اپنے زاویہ فکر کو بدلنے اور اس کو صحیح رخ دینے سے ازدواجی زندگی میں ہونے والی حقیقی و امکانی شکایت خود بخود رفع ہوجائیں گی۔

a good and righteous woman is the best ever asset

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں