ججوں کے تقررات کیلیے مجوزہ کمیشن کو دستوری موقف - حکومت کی منظوری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-27

ججوں کے تقررات کیلیے مجوزہ کمیشن کو دستوری موقف - حکومت کی منظوری

ملک کے ماہرین قانون اور اصل اپوزیشن جماعت بی جے پی کے مطالبات کے بیچ حکومت نے آج عدلیہ کے ججوں کے تقرر اور تبادلوں کیلئے ایک مجوزہ کمیشن کو دستوری موقف عطا کرنے کی منظوری دے دی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس کمیشن کی ہئیت ترکیبی کو کسی عام قانون سازی کے ذریعہ تبدیل نہ کیا جاسکے۔ پارلیمنٹ کی اسٹانڈنگ کمیٹی نے جس نے عدلیہ تقررات کمیشن (جے اے سی) بل 2013ء کا جائزہ لیا، اسی نوعیت کی ایک سفارش بھی کی ہے۔ حالیہ عرصہ میں یہ مطالبات کئے جارہے تھے کہ مجوزہ عدلیہ تقررات کمیشن کی ہےئت ترکیبی اور کارکردگی؍ اختیارات کا تذکرہ دستور میں کیا جانا چاہئے تاکہ مستقبل میں تبدیلیوں سے تحفظ مل سکے۔ مذکورہ کمیشن کو دستوری موقف دینے کا فیصلہ آج کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ مذکورہ تجویز کے تحت دستور کی نئی دفعہ 124(A)کی رو سے جے اے سی کی ہئیت ترکیبی کی تشریح کی جائے گی اور فعہ 124(B) کے تحت اس کمیشن کی کارکردگی و اختیارات و فرائض کی تشریح کی جائے گی۔ بحالت موجودہ مجوزہ پیانل کی ہےئت ترکیبی کی تشریح عدلیہ تقررات کمیشن بل 2013ء میں کی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے دوران اس بل کو ایک علیحدہ دستوری ترمیمی بل کے ساتھ راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا تھا۔ دستوری ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ تقررات کمیشن تو ہوگا لیکن یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس کے صدر، چیف جسٹس آف انڈیا ہوں گے۔ اس بل میں کمیشن کی ہےئت ترکیبی کے بارے میں بھی نہیں کہا گیا ہے۔ دستوری ترمیمی بل کو ایوان بالا میں منظوری حاصل ہوگئی تھی اور اس بل کو اسٹانڈنگ کمیٹی سے رجوع کیا گیا تھا۔ اس بل کے مجوزہ باڈی؍کمیشن کے قیام کی تشریح کی گئی ہے۔ یہ کمیشن، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کے تقررات اور تبادلوں کے بارے میں سفارش کرے گا۔ وزیر قانون کپل سبل نے یہاں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ "ہم نے اس بل کو سب کیلئے قابل قبول اور تسلی بخش بنانے سمجھوتے کئے ہیں اور سب کے مطالبات کی تکمیل کی ہے۔ اس بل کو سرکاری ترمیمات کے ساتھ لوک سبھا میں پیش کیا جائے گا"۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ کسی دستوری ترمیمی بل کی منظوری کیلئے ایوان میں دو تہائی اکثریت کی تائید درکار ہے جبکہ عام قانون سازی کیلئے سادہ اکثریت کافی ہے۔ عدلیہ تقررات کمیشن بل 2013کے ذریعہ موجودہ کالجیم سسٹم کو برخواست کرنے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ مذکورہ سسٹم کے تحت ججوں کا تقرر، ججس کرتے ہیں۔ بعض ماہرین قانون اور بی جے پی نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مستقبل میں کوئی حکومت اس کمیشن کی ہےئت ترکیبی میں الٹ پھیر کرسکتی ہے۔ اس طرح توازن تبدیل ہوسکتا ہے۔ مذکورہ ماہرین نے یہ بھی کہا تھا کہ دستور میں ترمیم کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کمیشن کے صدر کی حیثیت سے چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدہ کانام، دستوری ترمیمی بل میں شامل کیا جانا چاہئے۔ مذکورہ پیانل (کمیشن) وزیراعظم، چیف جسٹس آف انڈیا اور لوک سبھا کے قائد اپوزیشن پر مشتمل ہوگا جو اس کمیشن کے ارکان ہوں گے۔ سکریٹری (امور انصاف) وزارت قانون، مذکورہ جے اے سی کے کنوینر ہوں گے۔ معلوم ہوا ہے کہ وزارت قانون نے ریاستی سطح پر ایک علیحدہ جے اے سی کے قیام سے متعلق پارلیمانی پیانل کی سفارش کو قبول نہیں کیا ہے۔ ریاستی سطح کے جے اے سی کے ذمہ 24 ہائی کورٹس کے ججوں کے تقررات اور تبادلوں کے کام سپرد کئے جانے کا امکان تھا۔ پارلیمانی پیانل نے یہ بھی سفارش کی تھی کہ مذکورہ کمیشن 7 رکنی ہونا چاہئے جس میں دو بجائے تین ممتاز شخصیتیں شامل ہوں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ طاق عدد ہونے کے سبب کسی فیصلہ میں "ٹائی" کی صورت میں امکانی تعطلل سے گریز ہوسکے گا۔ اسی دوران وزیر قانون کپل سبل نے کہاہے کہ "کشادہ دلی سے کام لینے اور انصاف کے کاز کو آگے بڑھانے پر میں کابینہ کو مباکباد دیتا ہوں۔ مختلف مطالبات کو قبول کرنا ایک خوش آئندہ سمجھوتہ ہے۔ ہر شخص، اس بل کی تائید میں تھا اور اب مطالبات کی تکمیل ہوگئی ہے۔

Cabinet clears constitutional status for Judicial Appointments Commission

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں