انجمن ترقی و بقائے اردو حیدرآباد اور قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی کے اشتراک سے منعقدہ قومی اردو سمینار
حیدرآباد اُردو کا دارالخلافہ ہے اُردو کی پہلی جامعہ ،جامعہ عثمانیہ کم و بیش سو سال قبل یہیں قائم کی گئی تھی جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ اس شہر سے اردوکے بڑے اور میعاری اخبارا ت بھی شائع ہوتے ہیںیہاں پر اُردو ذریعہ تعلیم کے سینکڑوں اسکولس کارکرد ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اردو ذریعہ تعلیم فراہم کرنے والی مولانا آزاد نیشنل اُردویونیورسٹی کا قیام بھی اسی شہر میں عمل میں لایا گیا جہاں اردو میں مختلف مضامین کے علاوہ سوشیل سائنس، پالیٹکنیک،انجینئرنگ،ایم بی اے اور جرنلزم کی روایتی اورفاصلاتی دونوں طرح کی تعلیم کا نظم ہے۔ اردو زبان کی بقاء اور ترقی کے لئے بلا شبہ حیدرآباد کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ادارہ سیاست نئی نسل کو اردو سکھانے کا اہتمام کر رہا ہے۔ای ٹی وی اردو چیانل ساری دنیا میں حیدرآباد سے اردو کی روشنی بکھیر رہا ہے۔ اردو مشاعرے اور دابی تنظیمیں اپنے اپنے اعتبار سے فروغ اردو کے اقدامات کر رہے ہیں۔ محبان اردو کی اسی کوشش سے حیدرآباد سے اردو کے فروغ کے کام ہورہے ہیں۔
حیدرآبادکی ایک معروف انجمن،انجمن ترقی وبقاء اُردوبھی اردو کے فروغ کیلئے مسلسل مصروف عمل ہے۔ اس انجمن کے روح رواں جناب اعجاز قریشی صاحب ایڈوکیٹ ہیں۔ جنہیں اردو سے بے پناہ لگاؤ ہے اور اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے باجود وہ انجمن کے تحت ہونے والے پروگراموں میں اپنا وقت دیتے ہیں۔ دراصل اس انجمن کے قیام کے مقصد یہ ہے کہ اُردو زبان کے فروغ اور تحفظ کی ہر ممکن کوشش کی جائے اس ضمن میں انجمن اپنی جانب سے مسلسل کوششیں کررہی ہے ساتھ ہی حکومت کے مختلف محکموں سے نمائندگی کی جارہی ہے۔ اُردو میں سائن بورڈ نصب کرنے اور سرکاری محکموں میں اردو میں درخواستوں کو قبول کرنے کے علاوہ اردو میڈیم اسکولس کے معیار میں بہتری کیلئے مسلسل نمائندگی کی جارہی ہے۔ انجمن کے پروگراموں سے مطمئن ہوکر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے انجمن کو ایک قومی اردو سمینار کے انعقاد کے لئے رقمی منظوری دی۔ اور سمینار کی منظوری کے بعد انجمن کے ذمہ داروں نے جناب مصطفی علی سروری اسوسی ایٹ پروفیسر مانو کے مشوروں سے ایک سمینار بعنوان "اردو ذریعہ تعلیم اور ہماری ذمہ داریاں"کاا نعقاد عمل میں لایا گیا۔
اُردو ذریعہ تعلیم سے دورحاضر میں کیامسائل ہیں اور ان کاحل کیسے پیش کیاجاسکتاہے ان باتوں کاجائزہ لینے اور ایک لائحہ عمل بنانے کیلئے وقت کی اہم ضرورت والے اس موضوع پر انجمن ترقی وبقائے اردو حیدرآباد کی جانب سے ایک روزہ قومی سمینار 21؍ڈسمبر بروز ہفتہ10؍بجے دن لکچر ہال (ایسٹرن بلاک)سالار جنگ میوزیم حیدرآباد میں منعقد ہوا۔ سمینار میں شرکت کے لئے ماہرین تعلیم کے علاوہ مختلف شہروں سے آئے یونیورسٹی اور کالجس کے اساتذہ نے شرکت کی۔ اس سمینار کا آغاز اسماء تبسم طالبہ صفدریہ ہائی اسکول کی تلاوت قرآن سے ہوا۔ وصی الدین فاروقی ایڈوکیٹ نے انجمن ترقی و بقاء اردو حیدرآباد کا تفصیلی تعارف پیش کیااور نظامت کے فرائض بھی انجام دیئے۔ افتتاحی سیشن میں پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹر اُردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے شرکت کی اور خطاب فرمایا۔ انہوں نے سمینار کے مرکزی موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ دراصل سمینار کا عنوان اپنے اندر ہمہ گیریت لئے ہوئے ہے اور یہ دور حاضر کا ایک اہم مسئلہ ہے حکومت اردو کے فروغ کیلئے اپنا تعاون پیش کررہی ہے۔ لیکن ا ردو سے وابستہ افراد حکومت کی اسکیمات سے بہتر طورپر مستفید نہیں ہوتے ۔اُردو سے متعلق سمینار کا انعقاد اور عصری موضوعات کا احاطہ اچھا رجحان ہے سمینار میں پیش کی گئی تجاویز اور مشوروں پر ہم کہاں تک عمل کررہے ہیں؟ حکومت اپنا کام انجام دے رہی ہے کیا ہم اپنی ذمہ داریاں بہتر طورپر ادا کررہے ہیں؟ انہوں نے اردو اکیڈیمی کی نئی اسکیم کااعلان کرتے ہوئے کہاکہ اردو میڈیم اسکولس کوانفراسٹرکچر کی فراہمی اردو اکیڈیمی اے پی کی جانب سے شروع کی گئی ہے جس کیلئے پہلے پہل دو(2) کروڑ کا بجٹ منظور کیاگیا ہے اس میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ پروفیسر ایس اے شکور نے اردو ذریعہ تعلیم سے متعلق اردو میڈیم اسکولس کی خستہ حالی اور اساتذہ کی کمی سے متعلق اعداد وشمار بیان کئے۔ اور اردو کے فروغ کے لئے ہونے والے اس طرح کے پروگراموں سے تعاون کا تیقن دیا۔
پروفیسر اکبر علی خان وائس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی نظام آباد نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ دور حاضر میں مسابقتی جذبہ میں بہت زیادہ اضافہ ہواہے ایسے میں اُردو ذریعہ تعلیم طلباء مسابقتی امتحانات میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوائیں۔ دور حاضر کے مسابقتی امتحانات میں دواہم عوامل ہیں جن سے طلباء یا ملازمت کے حصول کیلئے نوجوانوں سے پرسنل انٹرویو لیاجاتاہے اور گروپ ڈسکشن کے ذریعہ ان کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایاجاتاہے طلباء جب تک اپنی مادری زبان میں علم حاصل نہ کریں تو ان کے اندرادب، اخلاق اور تخلیق کا مادہ پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنی زبان میں عبوریت حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے حق تعلیم کے ذریعہ اسکولوں کے قیام کی حکومت کی کوششوں کو سراہا اور ادبی انجمنوں کو مشورہ دیا کہ وہ طلباء میں اردو ذریعہ تعلیم سے متعلق شعور کی بیداری کا کام انجام دیں اور ساتھ ہی اردو مدارس کیلئے NGOsکے تعاون کو ضروری قرار دیا۔ سمینار میں ڈاکٹر ونئے شیلا ٹیچر صفدریہ ہائی اسکول حیدرآباد کو اردو کی خدمات سے متعلق پروفیسر اکبر علی خان اور پروفیسر ایس اے شکور کے ہاتھوں تہنیت پیش کی گئی۔
سمینار میں مقالوں کی پیشکشی کے سیشن کی صدارت مصطفی علی سروری نے کی ۔ جب کے مہمان کے طور پر جناب انور خان صاحب پرنسپل انورالعلوم کالج اور محترمہ ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ پروفیسر شعبہ ویمنس اسٹڈیز اردو یونیورسٹی نے کی۔اس سمینار میں سب سے پہلے تبریز حسین ریسرچ اسکالر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآبادنے" اردو میں روزگار کے مواقع "کے عنوان پر اپنا مقالہ پڑھا اور کہاکہ اردو زبان کا مستقبل درخشاں ہے اردو ذریعہ تعلیم کے طلباء کیلئے کئی شعبوں میں روزگار کے بہت سے مواقع موجود ہیں جس کی مثال کے طورپر ڈاکٹر شاہ فیصل کشمیرIASٹاپر کو پیش کیا اور مزید کہاکہ مثبت سونچ کے ذریعہ اُردومیں ذریعہ تعلیم کو اپنا یاجائے اور اپنے مستقبل کو درخشاں بنانے محکمہ ڈاک ،بنک اور دیگر شعبوں میں اُردو کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ دوسرے مقالہ نگار ڈاکٹر حمیراسعید لیکچرار NTRگورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر نے اپنا مقالہ" اردوذریعہ تعلیم اور اساتذہ کی ذمہ داریاں "کے عنوان پر پیش کیا اور کہاکہ عالمی سطح پر ماہرین تعلیم مادری زبان کو ہی ذریعہ تعلیم کو ضروری قرار دیا ہے اس کے ذریعہ سے فرد میں تہذیب اور اخلاق پیدا ہوتے ہیں ۔شخصیت کی موثر ذریعہ بھی ہے ساتھ ہی تخلیقی صلاحیتیں بھی مادری زبان سے بچوں میں پیدا ہوتی ہے اساتذہ کو چاہئے کہ طلباء کو اردو ذریعہ تعلیم اختیار کرنے پر آمادہ کریں اور اپنے پیشہ سے محبت رکھنے کا مشورہ دیا تاکہ اردو ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والوں کامستقبل تابناک ہو اور روزگار کے مواقع بھی آسانی سے مل جائیں ۔تیسرے مقالہ نگار محمد عبدالعزیز سہیل لیکچرارMVSڈگری کالج محبوب نگر ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے سمینار کے مرکزی موضوع"اردو ذریعہ تعلیم اور ہماری ذمہ داریاں" کے عنوان پر مقالہ پیش کیا اور کہا کہ اردو اسکولوں میں اردو ذریعہ تعلیم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کمپیوٹر کو اردو کے فروغ کیلئے استعمال کیا جائے ٹکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ اردو زبان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ساتھ ہی اردوذریعہ تعلیم طلباء میں پائے جانے والی مایوس منفی سونچ کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اس کیلئے اساتذہ اور والدین اپناکردار ادا کریں۔
ڈاکٹر انور خان انوارالعلوم کالج حیدرآبادنے" اردو ذریعہ تعلیم اور اساتذہ کی ذمہ داریاں" کے تحت اپنا مقالہ سنایا اور کہا کہ اساتذہ عصری تقاضوں کے تحت اردو زبان کو ذریعہ تعلیم کیلئے طلباء کو تیار کریں اور اس اردو تحریک کو سب سے پہلے ہمارے گھروں سے شروع کرنا ہے ہم تقاریر اردو کے متعلق کرتے ہے اور اپنے بچوں کو انگریزی ذریعہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے روانہ کرتے ہیں۔ سید سیف اللہ باشاہ لیکچرار کرنول ڈگری کالج نے "اردو ذریعہ تعلیم اور ہماری ذمہ داریاں" ایک جائزہ کے عنوان پرمقالہ پیش کیا اور کہاکہ اردو ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو نیچی نظر سے دیکھا جاتاہے جبکہ اردومدارس میں اساتذہ اور انفراسٹرکچر کی بہت زیادہ کمی پائی جاتی ہے اردو کو عالمی طورپر ٹکنالوجی سے جوڑنے کی ضرورت پرزور دیا۔ ڈاکٹر ناظم علی پرنسپل مورتاڑ ڈگری کالج نے اپنے مقالہ" اردو کے عصری مسائل اور ان کا حل" پر مقالہ پیش کیا اور کہاکہ اردو ذریعہ تعلیم سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا اور روزگار کا حصول دراصل کسی چیلنج سے کم نہیں ہے دور حاضر میں اردو زبان کو فروغ حاصل ہورہاہے ایسے میں طلباء اردو ذریعہ تعلیم سے اپنے مستقبل کو بہتر بناسکتے ہیں۔ ڈاکٹر موسی اقبال اسٹنٹ پروفیسرتلنگانہ یونیورسٹی نے "اردو ذریعہ تعلیم اور ہماری ذمہ داریاں ' کے موضوع پر خطاب فرمایا اورکہا کہ تمام ماہرین تعلیم اور ماہر ین نفسیات تعلیم کی متفقہ رائے کے مطابق تعلیم اور اس کی جانچ مادری زبان میں ہی میں ہونی چاہئے لہذا ردو ذریعہ تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کریں اور طلباء کو اس جانب راغب کیا جائے۔ ڈاکٹرعبدالرب منظر اسوسی ایٹ پروفیسر HCUنے "اُردوذریعہ تعلیم اساتذہ و والدین کیلئے چیالنجس" پر اپنا مقالہ پڑھا اور کہاکہ انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے کوایک اعزاز سمجھاجارہاہے جبکہ اردو ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والے ملک گیر سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواسکتے ہیں انہوں نے کہاکہ اردو کے مستقبل پر مزید گفتگو کی ضرورت ہے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اردو میں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیں۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو گری راج ڈگری کالج نظام آبادنے" اُردوذریعہ تعلیم سے روزگار کے مواقع اور امکانات "پراپنا مقالہ پڑھا اور کہا کہ اردو ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے سامنے روزگار کے بہت اچھے مواقع موجود ہیں طلباء ٹیچر کے پیشہ کو اختیار کرسکتے ہیں اور IAS،IPS، بینک، ریلوے و دیگر یونین سرویس کمیٹی کے امتحانات کے ذریعہ مستقل ملازمت حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں دارالترجمہ قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس سے اردو میں فنی اور تکنیکی تعلیم کی کتابیں دستیاب ہوں گی اور اردو ذریعے تعلیم کے مسائل حل ہوں گے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرابرار الباقی 'ڈاکٹر ناظم الدین منور'ڈاکٹر جعفر جری شاتاواہانا یونیورسٹی کریم نگر'ڈاکٹر معید جاوید'ڈاکٹر عبدالقوی عثمانیہ یونیورسٹی محمد محبوب ،ڈاکٹر صبغت اللہ نے بھی اپنے مقالا ت کو پیش کیا ۔ پروفیسر اکبر علی خان پروفیسر ایس اے شکور کے ہاتھوں سرٹیفکیٹ کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔ پروفیسر ریحانہ سلطانہ شعبہ ویمنس اسٹڈیز مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے اپنے خطاب میں کہاکہ اردو کے فروغ کیلئے مختلف انجمنیں اپنا رول اد اکریں اور سنجیدہ کوششیں جاری رکھیں۔ انجمن ترقی بقائے اردو حیدرآباد کے ذریعہ اس سمینار کو انہوں نے خوش آئندقرار دیا اور مزید کہاکہ اردو کا مستقبل تاریک نہیں ہے اخلاص ،اقدار وہمت افزائی کا جذبہ دور حاضر میں کم ہوگیاہے نئی نسل میں اردو کے فروغ کے احساس کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ صدر اجلاس جناب محمد مصطفی سروری شعبہ جرنلزم مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے اپنے صدارتی خطاب میں مقالہ نگاروں کے مقالوں پر روشنی ڈالی اور کہاکہ اردو ذریعہ تعلیم بنانے کیلئے اساتذہ والدین اور طلباء ادبی انجمنوں کو اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی اور اردو زبان وادب کے فروغ کیلئے متحدہ کوشش کی جانی چاہئے اردو صحافت میں بھی روزگار کے مواقعوں کی کمی نہیں ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اردو ذریعہ تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں اور اردو زبان کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ انہوں نے کہا کہ سمینار کے مقالوں کو کتابی شکل دی جائے گی اور اس کے نتائج کو اخبارات اور میڈیا کے ذریعے عام کیا جائے گا اور حکومت کے ایوانوں تک اردو کے مسائل کو پہونچایا جائے گا اور ان کے حل کے لئے انجمن ترقی وبقاء اردو کام کرے گی۔ محمد الیاس علی طاہر معتمد انجمن نے سمینار کے انعقاد کی غرض وغایت بیان کی ۔ اعجاز علی قریشی صدر انجمن کے شکریہ پر سمینار کااختتام عمل میں آیا۔ وصی الدین فاروقی ایڈوکیٹ نے سمینار کی کامیاب نظامت کی۔ سمینار کے انعقاد پر مصطفی علی سروری، اعجاز علی قریشی کو تہنیت پیش کی گئی۔ محمد محسن خان، محمد ایوب خان ،نے انتظامی فرائض انجام دیئے۔
***
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل، لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeez.sohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل، لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeez.sohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل |
Seminar on Urdu-medium education and our responsibilities. Reportaz: M.A.A.Sohail
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں