اولاد کی تربیت - موجودہ حالات کے تناظر میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-20

اولاد کی تربیت - موجودہ حالات کے تناظر میں

Training-of-children
فطرت انسانی کا یہ پہلو بڑا ہی افسوسناک ہے کہ انسان کی مرعوب ذہنیت اسے باطل قوموں، ان کا چکا چوند اور چمک دمک سے متاثر کردیتی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ انسان یورپ کی تہذیب کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ سائنسی ترقی میں یوروپین بہت آگے ہیں۔ اس لئے ہر میدان میں ان کی تقلید باعث افتخار ہے۔ صرف سائنس ترقی کی حد تک انہیں اپنا پیشوا سمجھ لتیے ہیں اور خود بھی سائنس ترقی میں آگے بڑھتے تو مضائقہ نہیں تھا، لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے، علمی جستجو، جدوجہد اور محنت و مشقت میں تو ان کے نظائر پر عمل پیرا نہیں ہیں البتہ تہذیب کے نام پر ان کے باطل فرسودہ اور شرمناک افعال کو اپناچکے ہیں۔ یہ بات نہ دین کے اعتبار سے صحیح ہے اور نہ ہی نہ دنیا کے اعتبار سے۔
اسلام کسی اور کی اچھی چیز کو بے وجہ برا نہیں کہتا اور محض تعصب کی بنیاد پر اس کی مخالفت نہیں کرتا۔
اگر یوروپی قوموں میں کچھ اچھائیاں ہیں جیسے تجارت میں سچائی، دھوکہ دہی سے احتراز اور کسی حد تک بعض انسانی حقوق کا پاس و لحاظ وغیرہ، یہ خوبیاں قابل قدر اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ اسلام خود اس کی دعوت دیتا ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم ان خوبیوں کو تو نظر انداز کردیتے ہیں اور جو خرابیاں ہیں اس کو گلے سے لگاتے ہیں۔ یہ دو رنگی کبھی فائدہ نہیں دے سکتی۔

مسلمان موجودہ حالات میں اپنے موقف کو سمجھیں اور دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں۔ موجودہ دور کی ایجادات انسانی عقل کیلئے حیران کن ہیں، جہاں یہ انسنی معاشرہ کیلئے سہولت خش ہیں وہیں پریشان کن بھی ہیں۔ ہر چیز میں کچھ فوائد اور کچھ نقصانات ہوتے ہیں۔ اسلام کا یہی حکم ہے اور عقل بھی یہی کہتی ہے کہ فوائد سے استفادہ کیا جائے اور نقصانات سے اپنے آپ کو بچایا جائے۔
جیسے سیل فون، ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ وغیرہ۔ آپ ان چیزوں سے اپنے دین یا دنیا کا جو بھی فائدہ ہوسکتا ہے حاصل کریں۔ بعض لوگ سیل فون میں قرآن مجید کو محفوظ کرلیتے ہیں اور حسب سہولت تلاوت کرتے ہیں، کچھ کاروباری لوگ اپنے کاروباری چیزوں کو محفوظ کرلیتے ہیں اور وقت ضرورت اس کے اونچ نیچ کو دیکھتے رہتے ہیں۔ اسکالرس اس سے علمی استفادہ کرتے ہیں۔
اس کے برخلاف کچھ لوگ ان کا غلط استفادہ کرتے۔ یقیناً یہ عمل برا ہے لیکن ہم اس برائی کی وجہہ سے سیل فون کی ایجاد کو یا بیع و شراء کو یا اس کے استعمال کا ناجائز نہیں کہہ سکتے۔ یہ بھی حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ سیل فون کے عام ہونے کی وجہہ سے لڑکے اور لڑکیوں کے معاملات میں شرمناک خرابیاں رونما ہورہی ہیں۔ اس کی وجہہ سے کئی گھر پریشان ہیں۔ ماں باپ معاشرہ میں اپنے لئے خف و شرمندگی محسوس کررہے ہیں۔
اس طرح ٹی وی کی کھلی چھوٹ اور اس کے سیرئیل پروگراموں کی وجہہ سے بچوں اور بچیوں کے اخلاق و کردار پر خطرناک حد تک برا اثر پڑرہا ہے۔ اگر اس جانب روک تھام کا اقدام نہ کیا جائے تو آئندہ نہایت خطرناک نتائج سامنے آنے کا امکان ہے۔
ان چیزوں کی اباحت و اجازت ایک طرف ہے دوسری طرف ان چیزوں کی خرابی و بربادی ہے، اس کیلئے ہم کو چاہئے کہ اپنے گھر کے ماحول کو درست رکھیں، جب تک ماں باپ گھریلو معاملات پر نظر نہ رکھیں گے اور بچوں کی بچپن ہی سے صحیح تربیت نہیں کریں گے تو آگے چل کر ان پر کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ لکڑی جب تک نرم ہے جس طرف چاہو موڑلو، سخت ہوجانے کے بعد وہ موڑی نہیں جاسکتی، ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے۔
یہ علماء، واعظین، دانشوران قوم اور ملی تنظیموں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ کوئی فرد یا جماعت اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ نہیں کرسکتی، ان تمام میں سب سے زیادہ ذمہ داری خاندان کے بڑوں اور بزرگوں کی ہے کیونکہ مابقی تمام لوگ بیرونی طورپر افہام و تفہیم کرسکتے ہیں، لیکن اولاد کی عملی طورپر نگرانی رکھنا اور ان کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہنا ماں باپ اور سرپرستوں کا کام ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اعلیٰ تعلیم لڑکے اور لڑکیوں کیلئے مساوی طورپر ضروری ہے لیکن اس بہانے جو حالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اس کے کئی اسباب ہیں، جیسے دین سے دوری، معاشی مسائل، لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر، ماں باپ یا سرپرستوں کا نگرانی سے تغافل، غلط لٹریچر کا مطالعہ، ٹی وی اور سیرئیل کے ذریعہ فحش چیزوں کا مشاہدہ وغیرہ۔ مطلب یہ کہ خرابیاں اور بربادیاں ہر طرف سے گھیری ہوئی ہیں۔ ایسے میں اولاد کی تربیت ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کیلئے بڑی جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے۔
سابقہ زمانوں میں یہ مسائل نہیں تھے، شادیاں بھی جلد ہوا کرتی تھیں جس کی وجہہ سے اس طرح کے واقعات سننے اور دیکھنے میں نہیں آتے تھے۔ اب لڑکیوں کیلئے شادی کی حد عمر کم ازکم 18 سال کردی گئی ہے، یہ بھی ایک طرح کی زیادتی ہے، پھر مخلوط تعلیم کا رواج عام ہوگیا ہے، اسلام دشمن نام نہاد دانشوروں کی جانب سے آئے دن حجاب پر اعتراضات اور تنقیدات بھی ماحول کو بگاڑ رہے ہیں۔ ان تمام چیزوں کا مفصل جائزہ لینا اور انسداد کی تدابیر پر غور کرنا ضروری ہے۔
اسلام ایک کھلا مذہب ہے اس کے احکام ہر ایک کیلئے واضح اور آسان ہیں۔ سابقہ امتوں کی طرح سارا معاملہ علماء کے ہاتھ میں نہیں دیاگیا کہ وہ مذہب میں من مانی تخریف کریں اور جس طرح چاہیں مذہب کو اپنی مرضی اور پسند کے مطابق ظاہر کریں کیونکہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے "لن تجتمع امتی علی الضلالۃ" یعنی میری پوری امت گمراہی پر اتفاق نہیں کرسکتی۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ علم کے باوجود گمراہی کا شکار ہوں اور دین میں بے بنیاد اور غلط باتیں داخل کریں اور اس کو دین کے طورپر پیش کریں لیکن اہل حق کی جماعت اس کو کبھی قبول نہیں کرتی بلکہ اس طرح کے باطل کو پیچھا کرتی ہے اور حق کو حق کے طورپر پیش کرتی ہے اور باطل کو ابطال کرتی ہے۔ اسی لئے اسلام میں یہ طمانیت ہے کہ یہاں کوئی بھی جماعت دین کو بگاڑ کر اپنی مان مانی نہیں کرسکتی۔

اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں چوکس ہوجائیں، لڑکیوں کا معاملہ چونکہ از حد نازک ہے اس لئے ان پر بطور خاص نظر رکھیں، اﷲ ہم کو نیک توفیق عطا فرمائے۔

Training of children in the context of the present situation

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں