موسیقی کی دنیا کے روشن ستارے - ملکہ غزل بیگم اختر کی صدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-20

موسیقی کی دنیا کے روشن ستارے - ملکہ غزل بیگم اختر کی صدی

music-of-india
اگلے برس موسیقی کی دنیا کے روشن ستارے اور ملکہ غزل کی صدی منانے کا اہتمام ان کی ایک شاگردہ ریٹا گنگولی کررہی ہیں۔ جی ہاں! بیگم اختر جو کبھی اختری بائی کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ وہ 1914ء میں کولکتہ میں پیدا ہوئیں۔ لکھنو میں تربیت ہوئی۔ پٹیالہ گھرانے کے عطا احمد خاں سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ ویسے وہ کلاسیکل موسیقی سے زیادہ دلچسپی نہیں لیتی تھیں مگر ٹھمری، دادرا، پران کی اچھی گرفت تھی جس کیلئے وہ پہچانی جاتی تھیں، مگرغزل ان کی پسندیدہ تھی اور انہوں نے اس میں اپنا اعلیٰ مقام بنایا۔
حیدرآباد میں ان کی آواز نظام کی سلور جوبلی کے موقع پر گونجی تھی۔ جب انہوں نے مبارکبادی گائی تھی۔1936ء میں حیدرآبادیوں نے بیگم اختر کو پہچانا۔ اس کے بعد ان کی شادی بیرسٹر اختر سے ہوگئی۔ کافی عرصے تک بیگم اختر نے گانا چھوڑ دیا وہ شدید بیمار ہوگئیں۔ ان کے شوہر نے بہت سے ڈاکٹروں کا علاج کروایا مگر افاقہ نہ ہوا۔ 1941ء میں امریکہ کے ایک ماہر نفسیات نے بتایا کہ بیگم اختر کو گانا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی ان کی صحت ہوجائے گی ، چنانچہ وہ چیاریٹی پروگرام پیش کرنے لگیں۔ ان کا پہلا ہی پروگرام چھ گھنٹے تک جاری رہا اور آٹھ ہزار روپئے انہوں نے بطور عطیہ دیا۔

ایک دلچسپ واقعہ ان کی زندگی کا ہے کہ ایک سوال چل پڑا تھا کہ اگر نہرو وزیراعظم بنیں گے تو پہلا کام کیا کریں گے؟ نہرو صاحب نے ازارہ مذاق اپنی بہن وجئے لکشمی پنڈت سے کہاکہ وہ ہارمونیم کو ممنوع قراردیں گے۔ آزادی کے بعد وزیر نشریات نے آل انڈیا ریویڈ سے ہارمونیم برخواست کروادیا، ان ہی دنوں بیگم اختر کا پروگرام تھا۔ جواہرلال جی بے چین تھے کہ وہ پروگرام سنیں گے۔ ادھر بیگم اختر ہارمونیم کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئیں لیکن ممنوع ہار مونیم روک دیا گیا۔ وہ واپس چلی گئیں، پروگرام پیش نہ ہوسکا۔ نہرو جی نے پوچھا تو ان کو پتا چلا کہ ان کے مذاق نے کس طرح ہارمونیم کی بے عزتی کی اور نہرو جی نے ہارمونیم کو آل انڈیاریڈیو پر واپس لانے کی ہدایت جاری کی۔ بیگم اختر حیدرآباد آتیں تو بہت سے شائقین موسیقی ان کی محفلوں میں شریک ہوتے۔

میں ماسکو میں تھی، بہار کی آمد آمد تھی اور ہم ہندوستانی طالب علم ازبک ریستوراں میں روٹی لینے پہنچے تو ریستوراں پر اشتہار دیکھا کہ سڑک کی دوسری طرف جو تھیٹر ہے اس میں ہندوستانی موسیقی کا پروگرام ہے اور بیگم اختر اس وفد میں شامل ہیں۔ اب ہمارے اشتیاق کے باندھ ٹوٹ گئے اور ہم سب تھیٹر پہنچے مگر وہی روسی افراد نے سارے ٹکٹ خرید لئے تھے۔ تھیٹر کے چوکیدار نے ہم کو اندر جانے سے منع کردیا۔ اب ہمارے ذہن سے تیزی سے کام کیا اور ہم نے چوکیدار کو بتایاکہ وہ مسم گلوکارہ ہیں ہم ان کے شہر کے رہنے والے ہیں اور وہ ہماری پڑوسن ہیں۔ ہم اپنے گھر والوں کے بارے میں ان سے معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کے پاس جو خط ہے وہ لینا چاہتے ہیں۔ چوکیدار نے ہمارے اس سفید جھوٹ کو کالا سچ مان لیا اور اندر جانے کی اجازت دیدی۔ ہم نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہم ابھی خط لے کر آتے ہیں، انتظار کرو۔ اندر پہنچے تو بیگم کو ہارمونیم سنبھالے دیکھا، ان کی ناک کی کیل سارے کمرے میں روشنی کررہی تھی، سلام کیا تو بڑے پھیار سے جواب دیا۔ ہم نے معذرت چاہی کہ ہم ان کے خیالات میں دخل انداز ہوئے۔ ہم نے کہا "ہم حیدرآباد سے ہیں اور آپ کو سننا چاہتے ہیں مگر ماسکو میں اشتہار بازی کم ہے لہذا ہم بروقت ٹکٹ نہ خرید سکے اگر آپ ہماری مدد کریں تو ہم تین ہندوستان اور ایک روسی اندر آسکتے ہیں اور کسی کونے میں بیٹھ کر آپ کو سن لیں گے۔" وہ مسکرائیں اور اپنی مترجم کو بلاکر کہا کہ بھئی یہ ہماری جان پہچان والی ہیں، ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بلا لیجئے، وہ اسٹیج کے ایک طرف بیٹھ کر ہم کو سن لیں گے۔ پھر پوچھا کہ اچھا بتاؤ کس کو سنوگی؟ ہم نے کہا ایک غالب دوسرے فیض۔ اچھا ایک کلاسک اور ایک ترقی پسند۔ پھر مسکرا کر اپھنی ڈائری سے دو غزلیں نکالیں۔
غالب کی غزل تھی:
ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

اور فیض کی غزل تھی:
ویران ہے مئے کدہ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

دونوں ہی چھوٹی بحر کی غزلیں تھپیں اور اس کا خلاصہ روسی میں کرنا، مترجم کیلئے آسان تھا۔ بیگم اختر نے دو شخصیتوں کے بارے میں پوچھا ایک تھے شیخ داؤد اور دوسرے رؤف صاحب۔ جب پروگرام ختم ہوا تو انہوں نے ہم سب کو کہا کہ چلو سفارت خانہ چلتے ہیں، مزہ آئے گا۔ ہم سب ڈرگئے کہ اگر کسی نے ہمارے وہاں آنے پر سوال کیا تو کیا جواب دیں گے؟ یہ سن کر بیگم اختر ہنس پڑیں اور کہاکہ بھئی پڑوسن ہیں لکھنو اور حیدرآباد کے۔ غرض ساری رات بیگم اختر کی محفل چلی۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر حیدرآباد آئیں گی تو ہم سے ضرور ملیں گی۔ ہم نے بھی کہا تھا کہ جیسے ہی ہم کو اطلاع ملے گی ہم آپ کی ہوٹل پر حاضر ہوجائیں گے۔
افسوس کہ ہو نہ سکا، بیگم اختر گجرات میں ایک پروگرام دیتے ہوئے اس دنیا سے چل بسیں۔ ان کے ریکارڈ جو ایچ ایم وی کمپنی نے بنائے تھے، بعد میں کیسٹ پھر، سی ڈی ان کی آواز کی حفاظت کررہے ہیں۔

ہمارے ہندوستانی موسیقاروں میں اکثریت مسلم موسیقاروں کی ہے، ان سب میں، میں بڑا نام استاد علاؤ الدین کا سمجھتی ہوں جو ہر ساز اسی مہارت سے بجا لیتے تھے جس مہارت سے کوئی بھی اس ساز کا ماہر بجاتا ہو۔ استاد علاؤ الدین خاں تریپورہ کے رہنے والے تھے۔ وہ 1922ء میں مدھیہ پردیش کے چھوٹے سے گاؤں مہیر پہنچے جہاں سرسوتی کا مندر ہے اور آج بھی پوجا ہوتی ہے۔ ہندوستان میں چار مندر سرسوتی کے ہیں جو علم کی دیوی سمجھتی جاتی ہے۔ ایک آندھراپردیش میں باسر ، نظام آباد اور عادل آباد کی سرحد پر، دوسرا پشکر اجمیر میں جہاں پوجا نہیں ہوتی، تیسرا کشمیر میں جموں کے آگے۔ اس طرح مدھیہ پردیش میں دو مقام ہیں، ایک مہیر اور دوسرا پشکر۔

ہم کئی حضرات کی صدی منارہے ہیں ہم کو چاہئے کہ ان سبھی کو صدی منائیں جنہوں نے موسیقی میں اپنا رول ادا کیا ہے۔ ہمارے موسیقار تو ایسے بھی ہیں جو صرف اور صرف موسیقی کیلئے زندہ ہے جیسا پنا لال گھوش (1911ء) میں جو آل انڈیا ریڈیو پر پروگرام کی ریکارڈنگ ختم کرکے خود بھی ختم ہوگئے۔
بڑے غلام علی خان جن کی آخری آرام گاہ حیدرآباد میں ہے، ہم انہیں مشکل سے یاد کرتے ہیں۔ مجھے ان کی تاریخ وفات یاد ہے، 23 اپریل 1965ء اور دائرہ میر مومن میں وہ دفن ہیں۔

The shining star of indian music world

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں