ہند و پاک تعلقات - زیادہ ذمہ دار کون ؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-25

ہند و پاک تعلقات - زیادہ ذمہ دار کون ؟

india-pakistan-relations
پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف نے بار بار مذاکرات بحال کرنے کیلئے کہا ہے جو نومبر 2008ء میں ممبئی پر دہشت گردانہ حملے کی وجہہ سے منقطع ہوگئے تھے۔ ان کے بھائی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے چند روز پہلے ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے دورے کے موقع پر ایسے ہی جذبات کااظہار کیا ہے۔ انہوں نے دونوں ملکوں کو مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کا مشورہ دیا تاکہ دونوں اپنے مسائل کو حل کرسکیں کیونکہ جنگ اب کوئی متبادل نہیں رہ گئی ہے۔
ہندوستانی وزیر برائے امور خارجہ سلمان خورشید نے بھی کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے خلاف نہیں ہیں، لیکن اپنے بیان کے ہمراہ انہوں نے یہ شرط بھی سنائی کہ مذاکرات کو بار آور بنانے کا ماحول بھی ہونا چاہئے۔ شاید ان کے ذہن میں وہ اختلافی مسائل ہیں، جن سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تراشی آتی رہتی ہے۔
ایک اڑچن ممبئی پر حملہ ہے۔ قصور واروں کو سزا نہ دینے کا جو رویہ پاکستان نے اختیار کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض ایک مشق جاری رکھے ہوئے ہے۔ پانچ سال بعد بھی عدالت میں مقدمہ اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی ہے۔ مقدمے کی سماعت کرنے والے کئی ججوں کا یا تو تبادلہ کردیا گیا یا انہیں چھٹی پر جانے کیلئے کہہ دیا گیا۔
کاش کہ پاکستان کے چیف جسٹس محمد افتخار چودھری، جنہوں نے قول و عمل سے اپنے ملک کے آئین کو سر بلند رکھا۔ چند روزقبل سبکدوش ہونے سے پہلے اس معاملے کو ازخود نمٹا دیتے۔ شاید اس تجویز کا بہت سے وکلاء مذاق اڑائیں لیکن 26/11 کے دہشت گردوں کو سزا دینا دونوں ملکوں کے درمیان روابط کی استواری کی اولین شرط ہے۔
حافظ سعید جس پر ہندوستان کو ممبئی پر حملے کے منصوبے میں ملوث ہونے کا شک ہے اور جسے پاکستانی عدالت نے ثبوتوں کی کمی کی وجہہ سے بری کردیا، لوگوں کو ہندوستان کے خلاف جہاد پر اکسار رہا ہے۔ شاید یہ مضحکہ خیز بات لگے لیکن ہندوستان میں بہت سے افراد سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کے خلاف پاکستان کی پالیسی وہی مرتب کررہا ہے۔

ان منفی عوامل کے باوجود ہندوستان کا عام آدمی پاکستان کیلئے ہمدردی رکھتا ہے۔ پاکستان سے لوٹنے والے زائرین اس محبت اور اپنائیت کا ذکر کرتے نہیں تھکتے، جو وہاں کے عوام سے نہیں ملتی ہے اور یہی تاثر ان پاکستانیوں کا ہے جو ہندوستان آتے ہیں۔ اس لئے سارا الزام سیاستدانوں اور افسر شاہوں پر آنا چاہیے جو اختلاف کو ختم کرنا نہیں چاہتے۔ شاید دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے دور رکھنے سے ان کا ذاتی مفاد وابستہ ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ سبکدوشی کے بعد بھی وہی سیاستداں اور بیورو کریٹ ٹریک II کے مذاکرات میں مصروف رہتے ہیں۔
ایسی ہی سوچ رکھنے والے ایک پاکستانی بیورو کریٹ نے پچھلے دنوں اخبارات کو یہ بتایاکہ نواز شریف نے متنبہ کیا ہے کہ کشمیر، ہند اور پاکستان کے درمیان چوتھی جنگ چھڑنے کا سبب بن سکتاہے۔ نواز شریف کے دفتر نے فوراً ہی تردیدی بیان جاری کیا، لیکن جو نقصان ہونا تھا ہوچکا۔ منموہن سنگھ نے جو ایک باشعور سیاستداں ہیں غیر ذمہ دارانہ عمل کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ "پاکستان زندگی بھر ہندوستان کے ساتھ جنگ میں جیت نہیں سکتا"۔ مجھے شک ہے کہ ان کا ردعمل آئندہ پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر "طاقت" کا مظاہرہ تھا۔
وزیراعظم یا کانگریس کو جس کی نمائندگی وہ کرتے ہیں، احساس نہیں کہ بی جے پی تک نے پاکستان مخالف پروپگنڈہ ترک کردیا ہے کیونکہ اس پر عوام کی توجہ میں کمی آرہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پارٹی کے اندر بعض لوگ یا اس سے باہر تاریخ کے بوجھ اور 1947ء میں ہندوستان کو تقسیم کو ڈھورہے ہوں، لیکن پاکستان مخالف انداز فکر کو قبول کرنے والے اب نہیں رہے۔
پاکستان میں ایک غلط پروپگنڈہ کئے جانے کی کوشش ہورہی ہے کہ ہندوستانی میڈیا پاکستان کو بدنام کرنے کے درپے ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ تاہم میری خواہش ہے کہ پاکستان کے بارے میں ہندوستانی میڈیا میں اور خبریں ہوں، لیکن اس کیلئے دونوں ملکوں کی حکومتیں ہی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے صرف ایک نیوز ایجنسی اور ایک اخبار کو ویزا دیا ہے۔ صرف ایک ٹیلی ویژن چینل ہے جس کے تیو جنگ نما ہوتے ہیں، لیکن ہندوستان میں 34 چینل ہیں جو دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کی خبریں بھی دیتے ہیں۔ ہم کدھر جارہے ہیں؟ دونوں ملک دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کیلئے متحدہ ہوسکتے ہیں۔ نواز شریف نے ایک خاص تجویز یہ رکھی ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی پر گفتگو کیلئے اپنے فوجی سکیورٹی ایڈوائزروں کی میٹنگ کے نظام کو ادارہ جاتی شکل دیں۔ آخر کار دونوں ملکوں نے جموں و کشمیر سرحد پر لائن آف کنٹرول کے تقدس کو یقینی بنانے کیلئے اپنے اپنے ڈائرکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز کی میٹنگ مقرر کی ہے۔ یہ تبدیلی مثبت سمت میں ہے۔
پھر بھی اس وقت اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کو باہمی اعتماد پر کیسے آمادہ کیا جائے۔ نواز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوری کا اصل سبب’ اعتماد کا خسارہ، ہے۔
پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بنیادی مسئلہ کشمیر ہے۔ یہ ایک علامت ہے نہ کہ مرض۔ اگر باہمی اعتماد نہیں ہے اور ہم مسئلہ کشمیر حل کرلیں تو بھی کوئی اور مسئلہ اٹھ کھڑا ہوگا۔
دونوں ممالک بجا طورپر ان نیوکلیائی اسلحے کی تباہی کے بارے میں فکر مند ہیں، جو ان کے پاس ہیں۔ اس لئے انہیں اپنے مسائل پرامن انداز میں حل کرنے چاہئیں۔ یہ پالیسی پہلی بار 1965ء کی جنگ کے بعد تاشقند میں اختیار کی گئی تھی۔ اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم لال بہادر ساشتری نے مسائل کے حل کیلئے پرامن ذرائع کے اختیار کرنے پر تاکید کی تھی۔ اس وقت پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب نے اقوام متحدہ کی میثاق کے حوالے سے کہا کہ یہ شرط پوری کی جاچکی ہے۔ مسودہ مشترک بیان میں یہی الفاظ تھے۔ ساشتری نے ایواب سے لکھوایا کہ "ہتھیاروں کا سہارا لئے بغیر"۔
اسلام آباد نے کہا ہے کہ ایل او سی کی پابندی دونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے۔ نئی دہلی کا مبینہ ردعمل یہ ہے کہ ایل او سی ایک فوجی معاملہ ہے نہ کہ سیاسی مسئلہ۔ اگر یہی رول کا پاکستان کا ہوتا، جہاں فوج کا دخل زیادہ ہے تو یہ سمجھ میں آنے والی بات ہوئی، لیکن جمہوری ہندوستان یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس کا فیصلہ طرفین کی فوجیں کرسکتی ہیں۔
ایل او سی کی توثیق شملہ میں وزرائے اعظم اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی میٹنگ کے موقع پر ہوتی تھی۔ فوجی کمانڈروں نے زمین پرصرف وہ لائن کھینچی تھی جن کی نشاندہی سیاسی آقاؤں نے کی تھی۔ نئی دہلی کو اس کی مثال پر ایک بار پھر غور کرنا چاہئے تاکہ دونوں ملک تعلقات کی استواری کی سمت میں پیشرفت کرسکیں۔
حالات کا تقاضہ یہی ہے۔

Raising the India-Pakistan trust quotient. Article: Kuldip Nayar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں