میٹرو ریل لائن سے تاریخی قانون ساز اسمبلی عمارت ک خطرہ لاحق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-23

میٹرو ریل لائن سے تاریخی قانون ساز اسمبلی عمارت ک خطرہ لاحق

حیدرآباد۔
(ٹائمز آف انڈیا)
چارمینار کے بعد قانون ساز اسمبلی حیدرآباد کی معروف عمارتوں میں شامل ہے۔ قانون ساز اسمبلی کی تعمیر کے 100 سال مکمل ہورہے ہیں۔ اس موقع پر صدی تقاریب کے ایک حصہ کے طورپر ریاستی حکومت نے فن تعمیر کی اس خوبصورت عمارت کے تحفظ کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ قانون ساز اسمبلی کے قریب حیدرآباد میٹرو ریل اسٹیشن کی عمارت تعمیر کی جارہی تھی، جس کے ستونوں سے شہر کی اس عمارت کو خطرہ لاحق ہے۔ حکومت کا ایماء پر جنوبی کوریا میں میٹرو ریل کے کوچس تیار کئے جارہے ہیں۔ میٹرو ریل سے حیدرآباد میں واقع قانون ساز اسمبلی کی عمارت کی اہمیت گھٹ جائے گی۔ میٹرو ریل سطح زمین سے 12 میٹر بلند پٹریوں پر چلائی جائے گی جس سے اسمبلی کی عمارت نظر نہیں آئے گی۔ شہر میں حمل و نقل کے نظام کو بہتر بنانے حکومت نے دنیا کے سب سے بڑے میٹرو ریل پراجکٹ کا آغاز کیا۔ اسمبلی کے روبرو میٹرو ریل کے باعث تاریخی عمارت نظر نہیں آئے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی تنگ نظری کے باعث تاریخی ورثہ کی حامل تاریخی عمارت کے تحفظ پر غور نہیں کیاگیا۔ میٹرو ریل 16ہزار کروڑ کا پراجکٹ ہے۔ تاریخی ریکارڈس کے بموجب اسمبلی کا محبوبیہ ٹاون ہال نظام ششم میر محبوب علی خان کو خراج پیش کرنے ان کی 40 ویں سالگرہ کے موقع پر عوامی عطیات سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر 1905ء میں شروع ہوئی تھی۔ نظام ششم میر محبوب علی خان اس شاندار ہال کی تعمیر مکمل ہونے تک بقید حیات نہیں رہے۔ 45 سال کی عمر 1911 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ہال کی تعمیر کیلئے دیوان بہادر رام گوپال نے عطیات وصول کئے تھے۔ وہ ایک صنعت کار اور مخیر شخصیت کے حامل تھے۔ تمام بڑے رتبوں کے حامل مخیر شخصیتوں جیسے پائیگاہ، امراء، عظام اور نوابوں نے اس کاز کیلئے عطیہ دیا تھا۔ باغ عامہ میں اس عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اسمبلی کی عمارت کو تاریخی ورثہ کی عمارتوں کی فہرست میں شامل نہ کرنا شرم کی بات ہے۔ کئی سیاستداں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس عمارت میں آتے ہیں تاہم انہوں نے عمارت کے تحفظ کیلئے کچھ نہیں کیا۔ ایچ ایس سی سی اور دیگر سرگرم کارکنوں نے میٹرو ریل سے سفارش کی ہے کہ عمارت کے تحفظ کیلئے میٹرو ریل کو اس علاقہ میں زیر زمین بنایا جائے، تاہم تمام نمائندگیاں ناکام ثابت ہوئیں۔ میٹرو اور سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ زیر زمین میٹرو ریل سے اسمبلی عمارت کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ہیرٹیج کنزرویشن کمیٹی کے رکن سجاد شاہد نے اظہار افسوس کرتے ہؤئے یہ بات بتائی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ دیگر شہروں جیسے بنگلور میں میٹرو ریل وددھا سدھا کے قریب زیر زمین بنائی جاسکتی ہے تو حیدرآباد میں اسمبلی کی عمارت کے تحفظ کیلے ایسا ممکن قدم اٹھانے کیا خدشہ لاحق ہے۔ ممتاز آرکٹیکٹ سنجے توروی نے کہاکہ حکومت کو چاہئے کہ قدیم ٹاون ہال جو پروٹوکول ڈپارٹمنٹ کے قبضہ میں ہے، شہریوں کیلئے کھول دیا جائے۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ اسمبلی عمارت کی صدی تقاریب منائی جارہی ہیں۔ شہر کے عوام اس تاریخی عمارت کو دیکھنے سے قاصر ہیں، جہاں پالیسیاں اور قواعد حکومت کی جانب سے مدون کئے جاتے ہیں۔ اس خوبصورت عمارت کی قدیم اور جدید کئی تصاویر دستیاب ہیں جن کی نمائش کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ محکمہ بلدی نظم و نسق و شہری ترقیات اور حیدرآباد میٹرو ریل کو کئی مکتوب روانہ کئے گئے ہیں، جن میں تاریخی عمارت کے تحفظ پر زور دیا گیا تاہم اس نمائندگی کو نظر انداز کردیاگیا۔ توروی نے کہاکہ اس تاریخی عمارت کے اندرونی حصوں میں کئی تبدیلیاں کرنے کے علاوہ پروٹوکل محکمہ نے عمارت کے تاریخی حصوں میں ایسی رنگ ریزی کی ہے جس سے عمارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عمارت کو رنگنے کے بجائے سفید چونے یا گچی کے استعمال سے اس کو بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ شہر میں تاریخی ورثہ کی حامل درجنوں عمارتیں ہیں تاہم انہیں فہرست میں شامل نہیں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں ابراہیم باغ کی مثال پیش کی، جہاں مشہور شخصیتوں کی شادیوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ سکندرآباد آرٹس اینڈ سائنس کالج ایسی ہی عمارتوں میں شامل ہے۔ سکندرآباد کنٹونمنٹ ایریا اور سیتارام چندرا سوامی دیواستھانم شمس آباد میں واقع دکن ہاو ایسی ہی عمارتوں میں شامل ہے۔ جہاں اعظم جاہ اور معظم جاہ فوجی تربیت حاصل کرتے تھے۔ گچی باؤلی روڈ پر واقع لکشمن باغ بھی ایسی عمارتوں میں شامل ہے۔ جواب شہر کے ممتاز صنعتکاروں کے قبضہ میں ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں