سوشل میڈیا کے سماج پر منفی اثرات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-17

سوشل میڈیا کے سماج پر منفی اثرات

social media
یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ موجودہ دور میں معاشرتی سطح پر جو برائیاں پائی جارہی ہیں، ان میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
حالانکہ معاشرہ کو تباہ کرنے والی ان برائیوں کے خاتمہ کیلئے بڑے پیمانہ پر اصلاحی کوششیں بتدریج کم ہوتی جارہی ہیں اور ائیوں کی طرف اکسانے والی بہت سی نت نئی چیزیں وجود میں آرہی ہیں۔ یہاں وہ ذرائع اور اشیاء جن سے وسیع پیمانہ پر اصلاحی کام لئے جاسکتے تھے، ان کے ذریعہ بھی برائیوں کو پھیلانے کا کام کیا جارہا ہے، جیسے ذرائع ابلاغ سے جڑی ہوئی تمام چیزیں عوامی و سماجی اصلاح کیلئے بڑی معاون ثابت ہوسکتی ہیں، لیکن اب ان اہم چیزوں کو برائیاں پھیلانے میں استعمال کیا جارہا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں اخبارات و رسائل، کتابیں، ریڈیو، ٹی وی ، انٹرنیٹ وغیرہ ایسی چیزیں ہیں، جن سے اصلاحی کام موثر انداز سے لئے جاسکتے ہیں، جیسا کہ ٹی وی پر ایسی چیزوں کو نشر کیا جاتا، جو عوام الناس کی اچھی چیزوں کی طرف رہنمائی کرتیں، انہیں اچھے کاموں کی طرف بلاتیں، ان کی معلومات میں اضافہ کرتیں، انسانی و اخلاقی اقدار کی اہمیت بتاتیں، لیکن صورت حال برعکس ہے۔
ٹی وی پر ایسے فحش اور لغو پروگراموں کی بھرمار ہے جو سماج کو بگاڑ رہے ہیں۔ ایسے چینلوں کی کمی نہیں ہے جو نوجوانوں کو بے حیائی کے سمندر کی طرف دھکیلنے کا کام کررہے ہیں۔ عریانیت و فحاشیت کے سیلاب کو لانے کا کام موجودہ دور کے ٹی وی چینل کررہے ہیں۔ اگر ٹی وی چینلوں کو صرف اچھی اور مثبت باتوں کی نشرو اشاعت کیلئے استعمال کیا جاتا اور واہیات پروگراموں کے نشر کرنے کی اجازت نہ دی جاتی تو ٹی وی کے ذریعہ سماج میں جو پراگندگی پھیل رہی ہے وہ نہ پھیلتی۔ اسی طرح معاملہ ریڈیو کا بھی ہے، ریڈیو پر آج کل خبریں یا معلوماتی چیزیں کم اور گانے اور واہیات چیزیں زیادہ پیش کی جارہی ہیں جو سامعین کے ذہن کو متاثر کرنے کا کام کررہی ہیں۔ اگر بات اخبارات و رسائل کی کی جائے تو یہاں بھی مایوسی نظر آتی ہے، کیونکہ زیادہ تر اخبارات و رسائل زیادہ کمانے کیلئے اب فحش مواد بیچنے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں، اس معاملہ میں انگریزی اخبارات آگے آگے دکھائی دے رہے ہیں۔
کتابیں کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتی ہیں، قوموں کو آگے بڑھانے، ان کی ذہن سازی کرنے، ان کو تعمیری راہ پر لانے میں کتابیں اہم رول ادا کرتی رہی ہیں لیکن اب کتابوں کے موضوعات اور مواد کو بھی کمرشیلائزڈ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اب زیادہ تر ایسی کتابیں اشاعت پذیر ہورہی ہیں جو پیشہ وارانہ چیزوں کو ابھارتی ہیں، پہلے اخلاقیات وغیرہ پر کافی کتابیں لکھی جاتی تھیں، مگر اب اس طرح کے موضوعات پر بہت کم کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ حالانکہ آج اخلاقیات و روحانیت سے متعلق زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی و کتابیں جو سماج کی اصلاح اور نسل نو کے ذہن کو تعمیری رخ دینے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں، انہیں نئی نسل کے اذہان و قلوب کو پراگندہ کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔
اس تغیر کو انسانی ہلاکت کا پیش خیمہ نہیں کہا جائے گا تو کیا کہا جائے گا۔ موبائل اور ٹیلی فون کی بات کریں تو یہ دور جدید کی ایک ایسی ایجاد ہے، جس نے یقیناًانسانی روابط کے دائرے کو وسعت دی ہے تاہم دوسری طرف اس کے ذریعہ سے سماج میں جو برائیاں در آئی ہیں وہ نہایت تشویشناک ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی وی اور ریڈیو گذشتہ کئی دہائیوں سے سماج کو پراگندگی کی طرف لے جانے کی کوشش کررہے ہیں مگر چند برسوں کے اندر جو کام موبائل نے کر دکھایا وہ ٹی وی اور ریڈیو سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ موبائل آج ہر گھر میں داخل ہوچکا ہے، ہر فرد تک اس کی پہنچ ہوچکی ہے، صرف مرد اور لڑکوں تک ہی نہیں، بلکہ عورتوں اور لڑکیوں تک بھی۔ جس کے بھلے ہی کچھ فوائد گنائے جاتے ہوں مگر سماجی سطح پر جو برائیاں اس کے ذریعہ سے عام ہوئی ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ اجنبی مرد و خواتین،لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان معاشقوں کو پروان چڑھانے اور پھر انہیں ناجائز تعلقات تک لے جانے میں موبائل کا بڑے پیمانہ پر استعمال ہوا ہے۔

ایک اور چیز جو سماج کے تانے بانے کو منشتر کرنے میں کلیدی رول ادا کررہی ہے وہ انٹرنیٹ ہے، جی ہاں یہ انٹرنیٹ ہی ہے جس نے زمین کی وسعتوں کو سیکڑنے اور وسیع و عریض دنیا کو ایک قریہ کی شکل میں لانے کا کام کیا ہے۔ اگر اس کے ذریعہ اصلاحی کاموں کو انجام دینے کی کوشش کی جاتی اور برائیوں کو مٹانے کا کام کیا جاتا تو یقیناًاس کے بہتر نتائج برآمد ہوسکتے تھے، لیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ انٹرنیٹ جیسی چیز کو بھی برائیوں کیلئے بڑے پیمانے پر استعمال میں لایا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ویب سائٹ دنیا بڑی وسیع ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر غلط مواد ڈالنے والوں کو گرفت میں نہیں لیا جاسکتا، وہ تمام ویب سائٹس جو لوگوں کے اذہان کو پراگندہ کرتی ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جاتی، ایسے لوگوں کو اس کی سزا دی جاتی اور قطعی طورپر ایسی ویب سائٹوں کو ممنوع قرار دیاجاتا، مگر افسوس اس تعلق سے انٹرنیٹ کو بالکل آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ آوارہ اور اوباش لوگوں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا اور ناجائز طریقہ سے پیسہ بنانے والے افراد اور کمپنیوں نے منظم طورپر ایسا لفظی و تصویری مواد انٹرنیٹ پر ڈال دیا ہے جو عوام الناس کو صد فیصد بگاڑنے کا کام کرتا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر اب سوشل ویب سائٹوں کے نام سے سماج کو پراگندہ کرنے کی خطرناک مہم چھیڑی ہوئی ہے۔ فیس بک جیسی ویب سائٹس گھروں کے اندر داخل ہوکر مرد و خواتین اور لڑکوں و لڑکیوں کو آوارہ بنارہی ہیں اور خاندان کے نظام کو تتر بتر کررہی ہیں۔ اب لوگ فیس بک پر غیر عورتوں اور اسی طرح بہت سی عورتیں غیر مردوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں دلچسپی لیتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اس صورتحال کے باعث میاں بیوی کے درمیان تعلقات خراب ہورہے ہیں۔ بلکہ طلاق تک نوبت پہنچ رہی ہے۔ ایسی رپورٹیں منظر عام پر آئی ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ متعدد لوگوں نے اپنی بیویوں کو فیس بک پر دوسرے مردوں کے ساتھ تعلقات کے سبب طلاق دے دی، اسی طرح بعض عورتوں نے اپنے شوہروں کو فیس بک پر دوسری عورتوں سے بات کرتے ہوئے دیکھ کر ان سے طلاق لے لی۔ اس صورتحال نے موجودہ معاشرہ کو نہایت پیچیدہ صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو خاندانی ڈھانچہ ہی تبدیل ہوکر رہ جائے گا اور طلاق کے واقعات کثرت سے پیش آئیں گے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات مغربی دنیا میں ہی نہیں پیش آرہے ہیں بلکہ مشرقی ممالک میں بھی سامنے آرہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مسلم سماج بھی سوشیل میڈیا کے منفی اثرات کی زد میں آتا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے وہ ممالک جو موجودہ دور میں اسلام کے عظیم ممالک شمار کئے جاتے ہیں، وہاں بھی سوشیل میڈیانے اپنی تباہی پھیلانی شروع کردی ہے۔ مثلاً سعودی عرب میں فیس بک جیسی ویب سائٹوں کا استعمال وہاں کے لوگوں پر بڑا برا اثر ڈال رہا ہے اور سعودی عرب جیسے ملک میں بھی سوشیل میڈیا کی وجہہ سے طلاق کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو ہمارے معاشرہ کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے، بلکہ پورے انسانی سماج کیلئے تباہ کن صورتحال ہے۔ ایسے میں ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں سے عوام الناس کو واقف کرایا جائے اور انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہ سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے گریز کریں۔ اس بات کی طرف بھی لوگوں کی رہنمائی کی جاسکتی ہے کہ وہ ان ذرائع کا استعمال اصلاحی امور کی انجام دہی کیلئے کریں، کیونکہ یہ بات ذہن نشین رکھنی بہت زیادہ ضروری ہے کہ موجودہ دور میں اصلاحی کوششوں کی شدید ضرورت ہے۔
آج جب کہ شیطانی وطاغوتی طاقتیں منظم انداز میں انسان کی معاشرتی زندگی پر حملہ آور ہورہی ہیں اور خوبصورت و نت نئے انداز سے انہیں برباد کرنے کی متواتر کوششیں کررہی ہیں تو سماج کے ذمہ دار طبقے اور افراد کی بایں معنی اور زیادہ ذمہ دار طبقے اور افراد کی بایں معنی اور زیادہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ نئی نسلوں کو شیطانی اثرات اور حربوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ہر ممکن موثر جدوجہد کریں۔ اپنی نسلوں کو بالکل آزادانہ چھوڑیں۔ اگر انہیں آزادچھوڑا گیا تو آنے والے چند برسوں میں مزیدخطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔

آج بہت سے لوگ سوشل میڈیا سے اس لئے جڑ رہے ہیں کہ انہیں اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی، برائی کا پتہ اس وقت انہیں چلتا ہے، جب وہ اس میں ملوث ہوچکے ہوتے ہیں، اس وقت وہاں سے ان کی واپسی مشکل ہوجاتی ہے ایسے حالات میں اگر انہیں پہلے ہی پوری جانکاری دے دی جائے تو یہ زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔ بہرحال آج ہمیں نکتہ پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ تمام ذرائع اور اشیاء جن سے اصلاحی، اخلاقی و روحانی کام لئے جاسکتے ہیں ان سے اسی طرح کے کام لینے کی بھرپور سعی کی جائے۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

(مضمون نگار رکن پارلیمان اور آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کے صدر ہیں)

اسرار الحق قاسمی

Negative effects of social media on society. - Article : Asrar ul Haq Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں