منجمد مناظر - مقصود الٰہی شیخ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-21

منجمد مناظر - مقصود الٰہی شیخ

Munjamad-Manazir-Story-Maqsood-Sheikh
میں سونے کے لئے اوپر گیا، کھڑکی کا پردہ گرا ہی ر ہا تھا کہ دھماکہ ہوا ۔ گاڑی، پر شور تیز رفتاری سے بھاگی ۔ جھانکا تو سڑک پر بجلی کے کھمبے کی روشنی میں کوئی لڑ کھڑاتا دکھائی دیا ۔ یہ کہنے میں ذرا وقت لگا مگر ہوا یہ سب کچھ اڑتے لمحے میں، پل میں ہوا یعنی پردہ گراتے سمے دھماکہ کی سماعت، گاڑی بھاگنے کی آواز اور کسی کو نیچے گرتے دیکھنا ! یہ سب عمل پل چھن میں ایک ساتھ واقع ہو بھی گئے ۔

میں بجلی کا کوندا بن، نیچے اترا، کھونٹی سے اپنے اوپر لمبا ٹاپ کوٹ ڈال، نہایت عجلت سے فل گم بوٹ پہن باہر دوڑا ۔

کئی روز سے برف پڑ رہی تھی ۔ اس روز تو انتہا ہو گئی ۔ منٹوں میں برف کے ڈھیر لگ گئے جیسے آسمان نے زمین کو دبوچنے کے لئے غیض و غضب کے ساتھ برف ہی کو آلۂ کارچنا ہو۔ یہاں دروازے اندر کی طرف کھلنے کا رواج نہ ہوتا تو برف کی تہہ پر تہہ اتنی دبیز ہو چکی تھی کہ باہر کی طرف دروازہ کھلتا نہ اندر کے لوگ باہر نکل سکتے ۔ یہ حقیقت تو پھوار کی طرح تھی جو اس جذبے کی بوچھاڑ میں تحلیل ہو گئی کہ دوڑو اور کسی کی جان بچاؤ ۔

اس سڑک پر، جب سے میں اس بستی میں آیا ہوں کبھی ٹریفک حادثہ نہیں ہوا ۔

چھوٹا سا شہر ہے ۔ تلہٹی میں، قدیم رومن زمانے کا بڑے سے کھیلوں کے دائرے کی شکل کا میدا ن مخلوق خدا سے بھرا، بسا ہو ا اور اوپر اٹھتی پہاڑیوں پر چاروں طرف آبادی ! دن کی روشنی میں اچھی لگے تو رات کی جگ مگ کرتی روشنیوں میں نور کا ہالہ دکھائی دے! جی چاہے ہیلی کوپٹر میں گھومو اور نظارہ کرتے جاؤ ، کرتے جاؤ !

سٹی سنٹر سے چاروں سمتوں میں بڑی سڑکیں قریبی چھوٹے بڑے کئی شہروں میں جاتی ہیں ۔ میں شہر کے بیچوں بیچ دو متوازی شاہراہوں کو جوڑتی سڑک مڈوے کے اول حصے میں بر لب سڑک مکان سے جڑ ے، بائیں طرف مڑتی گلی سنینگڈیل کے پہلے مکان میں ماں کے ساتھ رہتا ہوں ۔ سڑک کی دوسری جانب بالکل سامنے دو بنگلے ہیں جن میں دو سینئر جوڑے آباد ہیں اور پھر ان بنگلوں کے پیچھے، دائیں، بائیں پھیلتی بستی ہائی پارک ڈرائیو ہے ۔ بنگلوں کے سامنے ہماری طرف کے فٹ پاتھ پر بجلی کا کھمبا اور لیٹر بکس کھڑا ہے ۔

یہ حادثہ اسی مقام پر ہوا تھا ۔ میرے وہاں پہنچتے پہنچتے دونوں بنگلوں کے مکین بھی نکلتے دکھائی دئیے ۔ ایک کے پاس تکیہ تھا دوسرے کے ہاتھ میں ہاٹ واٹر بوٹل اور ان کے ہمسائے کمبل اٹھا ئے آ رہے تھے ۔ ان میں سے کسی نے بلند آواز میں کہا کہ وہ ایمبولنس اور پولیس کو فون کر آئے ہیں ۔ میں ان سب سے پہلے زخمی کے پاس پہنچ چکا تھا اور اسے تھام رہا تھا اس کی حالت خراب تھی ۔ خون ابل رہا تھا مگر کہاں سے یہ اس وقت مجھے دکھائی نہ دیا ۔ اس نے گرم کپڑے اور بھاری ٹاپ کوٹ پہن رکھا تھا ۔ وہ ابھی ہوش میں تھا ۔ اس کوشش میں تھا کہ دو قدم چلے اور آگے بڑھے ۔ اس کا ایک بازو اٹھا ہوا تھا ۔ اس کے لرزتے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ وہ لیٹر بکس کی طرف کھسک اور گھسٹ رہا تھا گویا لمحہ ؑ موجود کا سب سے اہم کام خط کا پوسٹ کرنا ہی ہو!!

میں اس کی پیٹھ کو تھا م کر سہارا دینے کے لئے ہاتھ بڑھا نے کی فکر میں تھا کہ اس نے بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے اشارہ کیا ، مجھے چھوڑو یہ خط پوسٹ کر دو ۔ اس کی ملتجی آنکھوں کی درخواست صاف پڑھی جا رہی تھی ۔ میں نے سر کی جنبش سے ہاں کہتے ہوئے جتا دیا کہ مجھ پر خط کی اہمیت واضح ہے اور میں یہ کام کر دوں گا ۔ خط میں نے جیب میں ٹھونس لیا اور اس کو تھامنے میں لگ گیا ۔ اتنے دونوں بنگلوں کے مکین بھی پہنچ گئے ۔

زخمی کی حالت ناقابل بیان تھی ۔ اس کی حالت سخت دگرگوں انتہائی خراب و خستہ و خجستہ نظر آ رہی تھی ۔ اس پل ہم میں سے کوئی بھی یہ طے نہ کر پارہا تھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئیے یا کیا کرنا ہے؟

ایک بزرگ عورت نے برف پر تکیہ میری طرف پھینکا کیونکہ وہ جھک نہ سکتی تھی ۔ اس کے شوہر نے گرم پانی کی بوتل، خون سے رنگین ہوتی سفید برف پر زخمی کے پہلو کے ساتھ لگا دی ۔ ساتھ والی ہمسائی نے شوہر کو کمبل دیتے ہوئے اشارہ کیا کی زخمی پر ڈال دو لیکن اس سے قبل ہی ایمبولنس اور پیچھے پیچھے پولیس پہنچ گئی ۔ پیرا میڈکس زخمی کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ ایمبولنس کے جاتے ہی پولیس کے دونوں جوانوں نے ہم سے ابتدائی معلومات لیں اور وہ بھی چلے گئے ۔


ہماری سڑک مڈوے پر میری موجودگی میں یہ پہلا حادثہ تھا ۔ دائیں بائیں کی دونوں متوازی سڑکوں کو مڈ وے سے پہلے تین یا چار جگہوں سے کئی درمیانی سڑکیں جوڑتی تھیں چنانچہ مڈوے پر ٹریفک کم رہتا تھا اور شایداسی بنا پر حادثے بھی کم ہوئے یا ہوئے ہی نہ ہوں ۔بعد میں یہی میں نے دوسرے لوگوں کے رد عمل سے بھی اخذ کیا ۔ پولیس کے جانے کے بعد چاروں بزرگ شہری بھی اپنے اپنے گھر سدھارے مگر میں وہاں خاموش کھڑا رہا ۔

وہ منظر میرے ذہن میں یوں منجمد ہے جیسے گھر کے کوریڈور میں آویزاں پینٹنگ جسے آپ نے خود لگایا ہے اور جو نظروں میں ہوتی ہے پر نہیں بھی ہوتی!یہ ایک احساس ہی ہے جو ہونے یا نہ ہونے کے فرق کی تمیز کراتا ہے ۔

میں وہاں یک و تنہا کھڑا، سرد رات، اوپر سے برستی برف میں کیا سوچ رہا تھا ؟ مجھے معلوم نہ تھا ۔ زخمی ہونے والا بچے گایا نہیں ؟ جانناچاہتا تھا مگر اس وقت ، اس موسم میں ہسپتال جانا ممکن ہے ؟ ایک سوالیہ نشان بنا مقابل تھا ۔ کون سے ہسپتال؟ دوسرا اور تیسرا سوال تھا، وہ کون ہے ؟ شاید سامنے کی اسٹیٹ (بستی) سے ہی آیا ہو کہ یہ والا اکیلا لیٹر بکس سبھوں کے استعمال کے لئے تھا ۔ مین روڈ کے پار فاصلے پر ڈاک خانہ تھا جس سے تھوڑی دور پرے بس اسٹینڈ کے قریب، اندر جاتی گلی کے نکڑ پرایک لیٹر بکس تھا جو دیر سویر یا ڈاک خانہ کے بند ہونے کے بعد استعمال کیا جاتا ہو گا مگر وہاں ہماری طرف سے کوئی بھی نہ جاتا ہو گا لہذا ایکسیڈنٹ کا شکار ہونے والا شخص جو مری ہی عمر کا ہو گا اس کی آمد کے رخ سے کھوج لگتا تھا کہ وہ سامنے والے سیمی مکانوں میں سے ہی آیا ہو گا ۔ اکیلا تھا ، شادی شدہ تھا یا بال بچوں والا تھا ۔ ناشاد گیا یا گھر والوں کو برباد کر گیا ؟ رات گہری ہو جانے پر، برفبار ہو رہی ہو یاسے میں خط پوسٹ کرنے کے لئے آنا جبکہ ارد گرد رہائش رکھنے والوں کو معلوم تھا کہ ڈاک ہر روز شام ساڑھے پانچ بجے ہی نکلتی ہے ۔ خط صبح پوسٹ ہو سکتا تھا ، سارا دن پڑا تھا کسی وقت پوسٹ ہو سکتا تھا خط۔ آخر یہ بھائی اتنی رات گئے گھر سے کیوں نکلا ؟ فریش ائر لینے یا محض خط پوسٹ کرنے ؟سوالات کی یورش سے میں گبھرا گیا ۔ یہ کار سے ٹکرایا یا کوئی شرابی ٹکر مار گیاِ ؟ بے شمار سوالیہ نشانات میری نگاہوں میں ناچ رہے تھے ۔

سردی میری ہڈیوں میں سرائیت کر نے لگی تب میں کھوئی کھوئی کیفیت سے نکلا ۔ تھکا، نڈھال گھر چلا آیا ۔ بستر پر لیٹا دیر تک سوچتا رہا ۔سونے نہ سونے کے بیچ صبح ہوئی پھر ہر ، اگتے، ڈوبتے سورج کے ساتھ فکرمندی گہری ہوتی گئی۔ کیا مڈے وے پرہونے والا ٹریفک کا یہ حادثہ ایک حادثہ تھا یا قتل کی واردات ؟ میرے ذہن میں کھلبلی مچی رہنے لگی ۔ پریشانی بڑھ جاتی جب بعض ایسے اشارے ملتے جو حادثے کے بجائے اس کو قتل کی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ظاہر کر رہے ہوتے ۔ یہ ٹارگٹ کلنگ بھی ہو سکتی ہے ۔

غور کرنے والی بات یہ بھی ہے ۔

ایک شب میں پارٹی میٹنگ سے لوٹا تو گھر میں داخل ہوتے ہی ماں نے بتایا ، ایک مرد اور عورت آئے تھے ۔ دونوں چٹے تھے پر اس سے قبل ماں نے انہیں کبھی میرے پاس آتے جاتے نہیں دیکھا تھا ۔ میں نے کہا " ماما! سخت بھوک لگی ہے ۔پہلے کھانا، پھر خبریں "۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی ۔ جیسا کہ ماما نے بتایا تھا وہاں دو سفید فام ،مرد اور عورت سفید کپڑوں میں چوکنے کھڑے تھے ۔ انہوں نے اپنے گلوں میں لٹکتے شناختی کارڈ (آئی ڈی )دکھائے ۔ میں نے انہیں اندر آنے کی دعوت دی مگر انہوں نے سر جھٹک کر انکار کر دیا اور پوچھا "آپ چند روز پہلے ، حا دثے پراپنے ہم وطن زخمی کی مدد کے لئے گئے تھے " ۔ (ہم وطن؟) میرا جواب تھا "ہاں " اور اشارے سے بتایا سامنے کے بنگلوں کے رہائشی بھی وہاں آ گئے تھے ۔
"ہم ان سے مل آئے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ زخمی نے وہ خط آپ کو دیا تھا جو وہ پوسٹ کرنے آیا تھا ۔"

وہ جملہ معلومات جمع کر کے آئے تھے ۔

اب میرے ہوش اڑنے کو تھے ۔ میں اپنے خیالوں کی گتھی سلجھانے میں خط پوسٹ کرنا ہی بھول گیا تھا۔ میرے منہ سے نکلنے والا تھا کہ ہاں وہ خط میری جیب ہی میں پڑا رہ گیا ۔ ابھی لاتا ہوں مگر دونوں کی پر اسرار عقابی نگاہوں نے مجھے نہ صرف چوکنا کر دیا بلکہ آنے والے دنوں میں خفیہ تفتیش کے خوف نے میری چھٹی حس پوری طرح جگا دی ۔ میں جان گیا کسی سنئیر سٹی زن نے بیان دیتے ہوئے اپنے مشاہدے کا حق ادا کر دیا تھا ۔ آج ، پولیس کی اکثریت کو میرے ہموطنوں، ہم مذہبوں، سبھوں پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگا دکھائی دیتا ہے ۔ چھاپے مارتے ہیں، پکڑتے ہیں ۔ عدالت چھوڑ دیتی ہے ۔ بعض وقت پولیس مقدمہ خارج ہو جانے / ہارنے پر ہرجانہ دیتی ہے پھر بھی شک و شبہ کی ہرکھڑی فصل کاٹنے کی غرض سے بدستور مستعد ہے ۔

جو اب دینے سے پہلے میں نے پوچھا "کیا زخمی زندہ ہےْ ؟ اس کی حالت بڑی مخدوش تھی " ۔ میرے اند یشہ ظاہر کرنے پر بتایا گیا ۔ "وہ ہسپتال جاتے ہوئے راستے ہی میں دم توڑ گیا " ۔ وہ منتظر تھے کہ میں ان کے سوال کا جواب دوں ۔ ادھر میں جیوری میں بیٹھنے کے ا پنے تجربے یاد کرتا سوچ رہا تھا کہ سچ بتاؤں یا جھوٹ بول دوں؟ میرے پیچھے ماں آ کھڑی ہوئی تھی ۔ ماں کی موجودگی کا احساس میری ڈھارس بنا کہ مصلحت بھی توہوتی ہے ۔

اس سے پہلے میں کوئی اور سوال داغتا ۔عورت نے اس طاقت کے زیر اثر جو اس اپنے محکمے میں کام کرنے اور تفتیشی اختیارات کی بنا پر حاصل تھی، بھوئیں سکوڑتے ہوئے بڑے گمبھیر لہجے میں پوچھا
خط
ایک سرد لہر میرے بدن میں داخل ہو گئی ۔
میرا ذہن بن چکا تھا
وہ خط میں نے پوسٹ کر دیا تھا۔
مرد نے شکریہ ادا کیا اور عورت نے کہا ہم پھر آئیں گے ۔

جاتے جاتے وہ ایک تلوار میرے سر پر لٹکا گئے ۔

ماما نے پوچھ تاچھ سے گریز کیا ۔ کھانا دوبارہ گرم کیا ۔ میں کھاتا رہا وہ پیار سے مجھے دیکھتی رہی اور میرے اندر تقویت کا احساس گھولتی گئی ۔ وہ جانتی تھی کہ میں کس قسم کا آدمی ہوں ۔ اس نے جھوٹے برتن بھی مجھے اٹھانے نہ دئیے اور گرما گرم چائے لا کر میرے سامنے رکھ دی ۔ اس مرحلہ پر ماں سونے کی غرض سے اپنے بڈروم میں چلی جاتی ہے مگر آج رک گئی اور چائے نوشی کے دوران مجھے ابا کی باتیں سناتی رہی جنہوں نے مرتے دم تک ہمیشہ حق و صداقت کا ساتھ کبھی نہ چھوڑاتھا ۔

اس روز ورلڈ نیوز کا ناغہ ہو گیا ۔ میں ٹی وی کھولے بنا اوپر جاتے ہوئے مسکرایا کہ کل کو تمہاری اپنی نیوز ٹی وی پر نہ آ جائے !

ایک دو دن کی چپ چاپ سی کھوج لگا کر نہایت اھتیاط سے میں نے مرحوم نوجوان کے گھر کا نمبر معلوم کر لیا ۔ ان کا سر نیم معلوم کر لیا کہ اسلام ہے ۔ اس ساری خفیہ کاروائی میں کوئی مشکل پیش نہ آئی ۔ جس گھر سے جوان لاشہ اٹھا ہو اس ے کون ناواقف رہ سکتا ہے ۔

گھر میں بوڑھا باپ ، غم و اندوہ میں غرق ماں اوربھائی کی مرگ پر مرجھائی مرجھائی سی ایک جوان بہن تھی ۔ میں نے مختصرمختصر سارا قصہ بیان کیا ۔ بے چارے بیٹے کے حادثے کا سبب نہ جانتے ہوئے بھی کچھ کچھ سمجھتے تھے ۔ باپ نے صرف ایک لفظ کہا قتل ! وہ کچھ بولے نہ انہوں نے زیادہ سوال کئے ۔ وہ گفتگو میں محتاط تھے پر مجھے یقین آ گیا وہ مجھ پر خفیہ کا شبہ نہیں کررہے ۔ مجھے اپنے غم میں شریک جانتے ہوئے میری تعزیت قبول کر رہے اور اعتماد کر رہے ہیں۔
میں پرسہ دینے گیا تھا، چائے پینے نہیں مگر انہوں نے اصرار کر کے چائے پلائی ۔

اٹھنے سے پہلے میں نے انہیں اپنے یہاں سادہ کپڑوں میں کسی ایجنسی کے دو افراد کے آنے کی بابت تفصیل بتائی اور جیب سے لفافہ نکال کر میز پر رکھ دیا ۔ ابا نے جچے تلے لفظوں میں میراشکریہ ادا کرتے ہوئے سراہا کہ اچھا ہوا میں بھول گیا اور خط پوسٹ نہ ہوا جیسے وہ جانتے تھے خط میں کیا لکھا تھا پھر انہوں نے بیٹی کی طرف دیکھا ۔ اس نے لفافہ اٹھایا اور تیزی سے میز پر رکھی بسکٹوں کی پلیٹ خالی کر کے سب کے سامنے لفافے کو دیا سلائی دکھا دی اور جب خط ، خط نہ رہا راکھ بن گیا تو راکھ جا کر سنک میں بہا دی ۔ میری حیرت دور کرنے کے لئے کہا وہ جانتے ہیں خط میں کیا ہے ؟کس کو اور کیوں لکھا گیا ہے ؟ پھر توقف کر کے بتایا ہم پر کڑی نگرانی ہے اس لئے مرحوم رات کو چھپ چھپا کر خط پوسٹ کرنے نکلا تھا ۔ شکر خدا وہ خط پوسٹ ہوا نہ دشمنوں کے ہاتھ لگا ۔

میں خاموش رہا ۔ کوئی سا سوال نہ کیا ۔

میں پریشان نہیں حیران تھا ۔ انہوں نے مزید بتایا پولیس ہم سے مرحوم کے دوستوں ، دشمنوں کا پوچھ رہی ہے ۔ تسلی دیتی ہے کہ مجرموں کا کھوج لگا لے گی ۔ کار ڈھونڈ نکالی ہے جو حادثہ والے دن ہی چرائی گئی تھی اور پچاس میل دور شہر کی سنسان جگہ پر پٹرول سے خالی ملی ۔ کار میں دو آدمی تھے ۔ ابا کا خیال تھا کار تو ڈھونڈ نکالی مگر اس میں سوار ہو کر آنے اور ہمارے بیٹے کو ٹکر مار کر شہید کرنے والوں کا سرغ نہیں ملے گا ۔ اباہر بات بڑے وثوق سے کررہے تھے ۔ انہوں نے مجھے رخصت کرتے ہوئے نصیحت کی اب ہمارے یہاں نہ آنا ۔ اپنا خیال رکھنا ۔ اپنوں سے زیادہ خطرہ ہے ۔ بیٹے ! تم بھی بچنا !!

رخصتی مصافحہ کے بعد ابا نے میرا ہاتھ نہ چھوڑا ۔آہستگی اور ملائمت سے بتایا کہ نور اسلام ان کا بڑا بیٹا تھا ۔ ایک اور بیٹا ہے فیض اسلام ۔ دونوں بھائی دینی تعلیم کے لئے ملک گئے

تھے ۔ شاید ہم بھول گئے تھے کہ ہمیں یہیں جینا مرنا ہے اور اسی ماحول میں رہ کر اپنے عقائد اور کلچر کو محکم اور قائم ر کھنا ہے ۔

نور کا روم میٹ اس کے ساتھ گھل مل گیا ۔وہ ایک جان دو قالب ہو گئے مگر نور کا دوست گھنا تھا ۔ نور کوکچھ نہ بتاتا تھا ۔ اسے اپنا راز چھپانا آتا تھا ۔ وہ بہانہ بنا کر بیمار ماں کو دیکھنے گیا دوسرے روز خبر آئی وہ خودکش حملے کے لئے نکلا تھا ۔ اپنے مشن میں کامیاب رہا ۔ چالیس آدمیوں کے ساتھ مارا گیا ۔ یہ بات نور اسلام کے لئے بے حد پریشان کن تھی ۔ بے گناہ اور معصوم لوگوں کو مار کر وہ کس مذہب کا نام روشن کر رہے ہیں؟ کس کے خلاف جنگ کر رہے ہیں ؟ اپنے ہی لوگوں کو مار کر، ہلاک کر کے کیا وہ امریکہ کو خوف زدہ کر رہے ہیں یا اس راہ پر چل کر اپنے ہی ملک پرقبضہ کرنا چاہتے ہیں ؟ ابا نے کہا نور کو جنت میں جانے کا یہ راستہ نہ بھایا ۔ اس نے چھوٹے بھائی فیض اسلام کو سمجھایا کہ چلو گھر واپس چلتے ہیں ۔ فیض نہ مانا، اس نے کہا وہ صراط مستقیم چھوڑ کر نہ جائے گا خواہ نور چلا جائے ۔ نور سخت کشمکش میں گرفتار تھا ایک روز موقع ملتے ہی ہمارے پاس بھاگ آیا ۔ نور ہمیں آگاہ کرنے اور سپورٹ لینے آیا تھا۔ ابا نے کہاباہمی مباحثے سے ہم سب اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مارا ماری سرپھروں کی خام خیالی ہے ۔ کسی کو کیا دوش دینا در اصل وہ مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں ۔یہ نا لائق اس طرح کوئی انقلاب برپا نہ کر سکیں گے ۔ تاریخ ان کو دہشت گرد کے نام سے یاد کرے گی ! خون ناحق بہا کر کبھی کسی کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھا ۔

ذرا دیر خاموش رہنے اور سوچنے کے بعد ابا نے مزید بتایا بڑی کوششوں سے فیض تک رسائی کا ایک سراغ ملا جس کی معرفت ہم اسے پھر سے سمجھانے کی کوشش کر سکتے تھے اورامیدلگا بیٹھے اسے واپس یہاں بلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ ۔۔۔ ہم نے مشترکہ خط لکھا تھا ۔ بیٹے فیض تم کس جنت کی تلاش میں ہو؟ تمہاری جنت تو تمہاری ماں کے پیروں کے نیچے یہاں ہے ۔ آجاؤ ۔ آ جاؤ ۔ ماں کو، بوڑھے باپ کو، بڑے بھائی کو اور تمہاری جوان بہن کو تمہاری یہاں ضرورت ہے ۔ یہ خط کئی روز تک پوسٹ کرنے کا موقع ملنے کی تلاش میں گھر پر ہی پڑا رہا ۔ تم جانتے ہو وہ سخت سرد اور برفانی رات تھی ۔ جب جانا محلے والے سو، سلا گئے ہیں تب ہمارا نور نکلا ۔ ہمیں نہیں معلوم تھا ہمارے دشمن تاک میں ہیں۔

میں محسوس کر رہا تھا کہ بزرگ اسی طرح اپنے راز مجھ پر افشا کرتے رہے تو وہ کہیں جذباتی نہ ہو جائیں ۔ نہیں وہ اس پر قادر تھے کہ جذبات کے انتہائی عروج پر جانے کے بعد بھی بے قابو نہ ہوں گے لہذا میں ایک چپ ان کو سنتا رہا ۔ مجھے اپنے بخت پر ناز محسوس ہونے لگا کیا کوئی ایسے حالات میں، اتنے اہم امور میں مجھ پر اندھا اعتماد کر سکتا ہے ؟ اپنا جان کر، اپنا سمجھ کر آنکھیں بند کر کے اپنا دل یوں بے دھڑک کھول سکتا ہے ؟ میرے اندر نیا عزم ابھر رہا تھا کہ میں ابا کے بھروسے کا اہل ثابت ہوں گا ۔

بڑے اچنبھے کی یہ بات تھی ۔ ان کو میرے گھر پر سفید فام سراغ رسانوں کے آنے کی بابت تشویش نہ تھی بلکہ وہ مجھے اپنوں سے خبردار کر رہے ۔ مجھے آگاہ کر رہے تھے ان کے گھر میری آمد و رفت میرے لئے خطرہ بن سکتی ہے ؟ میں سمجھ گیا کوئی فرد نہیں انتہا پسندجماعت اپنے مقاصد کی بار آوری کے لئے ان بے قصوروں کے پیچھے پڑ گئی ہے ۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں نوجوان کے قتل کے بعد بھی قصہ ختم نہیں ہوا ، نگرانی جاری ہو گی اور یہ لوگ اس بات سے با خبر اور آگاہ ہیں اسی لئے مجھے بھی آنے کو منع کیا اور محتاط رہنے کے لئے تاکید کی ہے ۔

ابھی، میرے بالوں میں سفیدی نہیں جھلکی مگر کہنا چاہیئے اکثر ہی اونچ نیچ سے واسطہ پڑا اور ایسی کیفیت سے گزرا ہوں ۔ ؂
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید ۔۔۔۔۔ نا امیدی اس کی دیکھا چاہیئے ! (غالب)
مگر ایک سرد برفانی رات میں کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی زیر نگرانی نوجوان کو کار سے ٹکر مار کر پلاک کر دینا سنگ دلی اور بے رحمی کا ایسا ناقابل معافی فعل ہے جو مجھ سے بھلائے نہ بھولتا تھا حالانکہ وہ میرے لئے غیر اور اجنبی تھا ۔ اس حادثے کی طرف دھیان جاتے ہی میں ملول ہو کر انسانی جان کی بے قدر ی ا ور بے حرمتی پر دکھی ہو جاتا۔

کسی کا یہ قول سچا لگتا ہے کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے ۔ ٹریفک کا مبینہ یہ حادثہ میرے نزدیک وہ شکل اختیار کر گیا تھا جس کا کوئی انت نہیں ۔ میں جانتا تھا اس قتل عمد اور بے دریغ کی سنگینی میری یادداشت سے ہر گز محو نہ ہو گی ۔دھیرے دھیرے لاشعور کے کسی کونے کھدرے میں ایک روز لڑھک کر سونا اس کا مقدربن چکا ہے ۔ ان لوگوں سے جو اپنوں جیسے لگنے لگے گئے تھے ان کی احتیاطوں کے پیش نظر، ان سے دور رہ کر میں نور کے قتل کے ا لمناک سانحے کی بنا پر اپنے اوپر طاری وحشت سے نکل رہا تھا اور اپنے کام میں منہمک ہوتا جا رہا تھا کہ دفتری کام سے تین روز کے لئے لندن جانا پڑ گیا ۔

میں اس شام کی ابتدائی گھڑیوں میں گھر جنت پہنچا تو ماما کو منتظر پایا ۔ انہوں نے میرا پسندیدہ کھانا پکا رکھا تھا اور ہمیشہ کی طرح کھلا کر میٹھا اور چائے لینے چلی گئیں ۔ اچانک رات کا سناٹا توڑتی ایمبولنس اور پولیس کے سائرنوں نے ہمارے علاقے کا مخصوص سکون و خاموشی پاش پاش کر دی ۔ ان کہے ماں سب کچھ چھوڑ چھاڑ میرے پاس آئی اور ہم دونوں بے سوچے سمجھے اپنے اندرونوں میں لمحہ لمحہ بڑھتے خطرے سے جانکاری کے لئے گھر سے باہر آ کرقدم قدم لیتے مڈ وے کے اپنی جانب کے فٹ پاتھ پر رک گئے ۔ دیکھا، پولیس کی ایک گاڑی ایمبولنس کے آگے اور دوسری پیچھے ہائی پارک ڈرائیو میں داخل ہوئی ۔ تب، سوچ رخ مرحوم کے اہل خانہ کی طرف مڑ گیا ۔ کیا برق بے رحم آسماں و افتاد ناگہاں پھر ان بے چارروں پرٹوٹ پڑی ؟ کھڑے کھڑے فکرو اندیشے کے مرغولوں کی دھند میں عملی قدم اٹھانے سے پہلے دھڑکتے دلوں کے ساتھ دوبارہ سائرنوں کی غضبناک آوازوں کے مد و جزر میں پولیس اور ایمبولنس گاڑیوں کو واپس جاتے دیکھا ۔ ہم سڑک پر کھڑے کھڑے شور کی سمت میں نظریں گاڑ کر خلا میں گھوررہے تھے ۔ ہماری حالت لفظوں سے ماؤرا تھی ۔ ہم بن بولے اسلام گھرانے کی خیر مانگ رہے تھے ۔ میرے قدم ہائی پارک ڈرائیو کی جانب اٹھنے لگے تھے کہ ماما نے روک لیا ۔ ان کی نگاہوں میں بڑا واضح پیغام تھا کہ میرا وہاں جانا منع ہے ۔

دوسر ے دن کا سورج یہ خبر لے کر طلوع ہوا کہ ہمارا خدشہ درست اور صحیح تھا ۔ اسلام گھرانے میں ہی کچھ ہوا ہے ۔ میری بیقراری اور بے چینی دیکھتے ہوئے ، دوپہر میں ماں محلے والیوں کے ساتھ ادھر چلی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب آئیں تو نہایت ملول، افسردہ اور رنج و غم میں شرابور تھیں ۔
ماما نے کہا ،
کل ہم نے لیٹ نیوز نہیں دیکھی تھیں ۔ ایک بے حد لرزہ خیز خبر یہ تھی کہ راولپنڈی میں، ایک خود کش حملہ آور کو، رینجرز نے للکارا تواس نے دھماکہ کر دیا اور ہلاک ہو گیا ۔ اس کا سر لڑھک کر دور جا پڑا اور یہ سر ٹی وی کے اسکرین پر دیکھا بھی گیا تھا ۔


ماما کی پہلے سے نم آلود آنکھوں سے مو ٹے موٹے آنسو ابل پڑے ، انہوں نے اپنے دوپٹے کا پلو منہ میں ٹھونس کر سبکی روکی اور کہا،
یہ فیض اسلام کا سر تھا۔
ابا ، اماں اور بہن کی کیا حالت ہوئی ۔۔۔۔۔

ابا اچانک اٹھے اور دیوار میں ٹکریں مارنے لگے ۔ ٹکریں مارتے مارتے ان پر دل کا حملہ ہوا ۔ ایمبولنس بلائی گئی ۔ پولیس بھی آ گئی ۔
ماما نے کہا،
ماں بیٹی کو یقین تھا۔ ۔۔۔۔

نور اور فیض کی اماں اور بہن کہہ رہی تھیں ابا زندہ نہیں بچیں گے ۔ پوسٹ مارٹم ہو گا ۔ کارونر کی عدالت میں کاروائی کے دورا ن کو ئی ایسی رپورٹ پیش نہ ہو گی جس میں دل کے حملے کا ذکر ہو گا ۔
ماما نے یہ بھی بتایا،
نور اسلام کی بہن بلک بلک کر فریاد کر رہی تھی یہ ظلم ہو گا ۔ ابا نے فرط غم میں ٹکریں ماری تھیں مگر ہم نے پکڑ کر بٹھا لیا تب تھوڑی دیر بعد ان پر ہارٹ اٹیک ہوا ۔ ابا نے خود کشی نہیں کی ۔ وہ خود کشی اور خود کش حملوں کے مخالف تھے ۔

میں خاموش رہا ۔ ماما سے نہ کسی اور سے کوئی سا سوال کیا ۔

گاڑی کی ٹکر سے نورکے قتل کا منظر میری نگاہوں میں منجمد تھا ہی اب بھولے بسرے دوسرے بہت سے مناظر بھی میرے قلب و ذہن میں تیر رہے ہیں ۔ زلزلے کی تباہ کاریاں ، زندہ لوگوں کا زیر زمین دب جانا، ہزاروں بنگان خدا کا پل کی پل میں مرجانا! دنیا میں دہائی مقامی بے خبری / بے حسی۔ حکومت کا باہر کی امداد پر تکیہ ، بے شمار بچوں کا یتیم ہونا ، عمارتوں کا ڈھے جانا ۔ سڑکوں پر لوگوں کا گمشدہ، اغواٗ کئے گئے / اٹھائے گئے نوجوانوں کے ناموں کے کتبے ، سیلاب ، طغیانی، پانی ہی پانی ، بے گھری، بھوک کے ماروں کا بے عزت ہو کر، مجبور ہو کر ہاتھ پھیلانا ۔ دوسری طرف بے رحم امیرلوگ ، کاروں میں جہازوں میں اڑتے ہشاش بشاش ، ہنستے گاتے ، کھاتے پیتے لوگاں جیسے ان کے آس پاس، پڑوس یا گلی محلے میں کچھ ہوا ہی نہیں !کچھ بھی نہیں ہوا !!

***
maqsood.e.sheikh[@]googlemail.com
بریڈ فورڈ ، یو۔کے
مقصود الٰہی شیخ

Munjamad Manazir. Short Story: Maqsood Sheikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں