مس اردو سے ایک یادگار ملاقات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-22

مس اردو سے ایک یادگار ملاقات

miss-urdu
کہا تو یہی جاتا ہے کہ محبت اور چاہت سودوزیاں کے احساس سے بالاترہوتی ہے اوراس میں کسی بھی طرح کی ملاوٹ ممکن نہیں۔ لیکن مجھے توخالص اور ملاوٹی ہر طرح کی محبت کے تجربات حاصل ہیں۔آج مجبوراً سینے میں دفن یہ راز فاش ہونے جا رہا ہے کہ اردو بھی میری محبوبہ ہے،میری معشوقہ ہے۔اردو میری دھڑکنوں میں شامل ہے،میری سانسوں میں تحلیل ہے۔اردو میرا دل ہے ، میری جان ہے ۔میں نے اپنی زندگی میں کسی کو بے غرض بھی چاہا ہے لیکن مجھے اس بات کا صاف لفظوں میں اعتراف ہے کہ اردو سے اپنی محبت بے غرض نہیں۔اس میں دودھ اور پانی کی طرح ملاوٹ ہے۔ اس کے باوجوداردو قدم قدم پر میر ا ساتھ نبھارہی ہے۔امید کہ آگے بھی۔۔۔!
دل میں خلوص اور محبت کا جذبہ ہو تو افسانے حقیقت میں بدلے جا سکتے ہیںاور خواب کی تعبیربھی ممکن ہے۔ جب میرے خواب کی تعبیر ہوئی تو افسانے حقیقت میں بدل گئے۔اب میری محبت کا عالم یہ ہے کہ اردو میری رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگی ہے۔ایک جسم دو جان کی کیفیت محسوس ہونے لگی ہے۔کبھی اقبال ؔ کے جبین میں بھی ہزاروں سجدے تڑپے تھے۔ اسی شدید جذبۂ محبت میں جب انھوں نے خدا کو "لباس مجاز" میں دیکھنے کی شاعرانہ خواہش ظاہر کی تو ان کے خلاف مولوی حضرات کی پوری جماعت صف آرا ہو گئی۔اس جرم کی پاداش میں ان پر کفر کافتویٰ صادر کر دیا گیا۔اور پھر بڑی محنت ومشقت کے بعد ماحول سازگار ہوا۔ لیکن خدا کے فضل وکرم سے میرا معاملہ اقبالؔ سے قدرے مختلف ہے۔ اپنی محبوبہ کو جب میں نے "لباس مجاز" میں دیکھا تو فرہاد اور ہیر جیسے بلند مرتبہ عاشق بھی میرے سامنے بے وقعت نظر آئے۔آپ کو میری بات بھلے ہی بے بنیاد و احمقانہ لگے لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ" خود غرض محبت بھی کبھی کبھی بے غرض محبت پرسبقت لے جاتی ہے۔"
جمعرات کی وہ شام کتنی حسین اور خوش نما شام تھی جب اپنی محبوبہ اردو سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔۔۔ !بات رازکی ہے کہ نظام الدین اولیاء کی درگاہ سے میں واپس آ رہا تھا۔ تبھی اتفاق سے کسی نے نہایت شائستگی سے آواز دی کہ ــ"ذرا سنیے"۔میں نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک نہایت حسین وجمیل، ہونٹوں پر تبسم لیے حسن کی دیوی مجھ سے مخاطب تھی۔اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں عجب سی چمک پیدا ہو گئی اور دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔خوبصورتی ایسی کہ چاندشرمائے۔۔۔! روشن چہرا، گلابی رخسار،خمار آلود آنکھیں،نازک ہونٹ،ریشمی زلفیں،رومانی وپرکیف ادا،چمک دار پیشانی،شائستہ چال اور گندمی رنگ گویا کائنات کا سارا حسن مجھ سے مخاطب ہو۔۔۔! میں نے کہا "جی فرمائیے آ پ کون ؟"جب بات آگے بڑھی تو انھوں نے کہاکہ "جی میں اردو ہوں ۔کبھی کبھی میں اپنے عاشقوں سے ملنے کے لیے یہ روپ دھارن کرتی ہوں۔"میں نے جذبۂ حسد سے پوچھا کہ"یہاں آپ کس عاشق سے ملنے آئی تھیں؟"مس اردو نے بتایا کہ اپنے دیرینہ عاشق مرزا غالبؔ کے مزار پر فاتحہ پڑھنے آئی تھی۔جب گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا توہم چائے کی ایک دکان پرجا بیٹھے۔پھر کیا تھا؟ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔اپنی دلربا سے ہوئی گفتگو کا کچھ اہم حصہ آپ کی نذر کرتا ہوں۔
"مس اردو یہ بتائیے کہ "آپ کا سب سے بڑا عاشق کون ہے؟"
بغیر کسی توقف کے جواب ملا "محمد علی جناح ــ"
میں نے حیرت و استعجاب سے پوچھا کہ" بھئی ایسا کیوں؟"
"در اصل مرحوم کوایک لفظ بھی اردو نہ آتی تھی ۔پھر بھی دیکھیے ماشا ء اللہ انھوں نے اردو کوپاکستان کا قومی زبان بنا دیا۔خدامرحوم کی مغفرت فرمائے ۔آمین۔۔۔!"
"جی شکریہ! محترمہ یہ بتائیے کہ آپ کا سب سے بڑا صدمہ کیا ہے۔"
"آپ نے تو میرے زخم کو تازہ کر دیا۔اب آپ ہی دیکھیے کہ میں ہندوستان کی اسی سرزمین پر پھلی پھولی۔میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی پاسدار ہوں۔ ہر مذہب وملت کے لوگوں نے میری پرورش کی۔سب نے مجھے اپنے دل میں جگہ دی اورمجھ پر اپنی محبت کے بیش بہاموتی لٹائے۔ میں نے آزادی کے متوالوں کے سینے میں انقلاب اور احتجاج کے شرارے بھرے۔سب کی آنکھوں میں آزادی کے خواب سجائے۔ لیکن ملک کی تقسیم نے مجھے اپنے چاہنے والوں سے الگ کر دیا۔گھنونی سازش کے تحت مجھے مسلمانوں کی زبان قرار دے کر میرے ساتھ زیادتی وناانصافی کی گئی۔اس طرح میں اپنے گھرہی میں بے گھر ہو گئی۔اسی لیے تقسیم میرا سب سے بڑا صدمہ ہے۔"
"مس اردو!دنیاآپ کو سیکولراور گنگا جمنی تہذیب کی امین کہتی ہے۔اس کے جواز میں آپ کچھ کہنا چاہیں گی ۔۔۔!حالا ں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کے دشمن بھی آپ کے حسن وجمال کے قصیدے پڑھتے ہیں اور چپکے چپکے آپ سے عشق بھی فرماتے ہیں۔مگر نہ جانے کیوں ان کا رویہ منافقانہ اورسلوک جارحانہ رہتا ہے؟"
"ارے صاحب !سب سے پہلی بات تو یہ کہ میں روز اوّل سے ہی سراپا سیکولر رہی ہوں۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے ۔میری پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے۔میں یہاںکن کن باتوں کا ذکر کروں۔۔۔!سب سے بڑی بات تو یہ کہ مجھے پروان چڑھانے اور مجھے نکھارنے و سنوارنے میں میرے غیر مسلم عاشقوں نے بھی اپنی نینداور سکون حرام کی۔ میں کس کس کا نام لوں۔۔۔!غلطی سے اگرکسی ایک بھی دیوانے کا نام چھوٹ گیا تو مجھ پر بے وفائی کے سارے الزامات لگنے کا خطرہ لاحق ہے۔یہ بات احمقوں کو کیوں نہیں نظر آتی کہ مجھ میں عید کی سیوئیںکی میٹھاس ہے تو ہولی کے رنگ میں بھی سرابور ہوں۔اگرمحرم کا سوگ مناتی ہوں تودیوالی کی روشنی سے بھی روشن ہوں۔محمد کی توصیف کرتی ہوں تو کرشن کی بانسری کی دھن پر بھی ناچتی ہوں۔اگر کوئی آنکھ والا اندھابھی میری اس معصومہ اداکو سمجھنے سے قاصر ہے تو اس کی جہالت اور بدبختی پر اظہار تعزیت۔۔۔!
"جی آپ نے بجا فرمایا۔اچھا یہ بتائیے کہ آج کے کس لیڈر سے آپ سب سے زیادہ خوش ہیں؟"
"محبوب صاحب آپ نے ملائم سنگھ کا نام تو سناہی ہوگا۔وہ میرے پرانے عاشق ہیں لیکن میں ان سے سب سے زیادہ خوش اور سب سے زیادہ ناراض ہوں۔وہ اب تو صرف نام کے ملائم ہیں۔ان کے کام تو سب کٹھور ہوتے جا رہے ہیں۔یوپی میں ان دنوں سماج وادی پارٹی اقتدار میں ہے۔حکومت کی تشکیل کے ایک لمبے عرصے کے بعد بھی اتر پردیش اردو اکیڈمی اور فخرالدین علی احمد جیسے فعال ادارے بے یارو مددگار آنسو بہانے پر مجبور ہیں۔ یہ تو محبت کا ڈھونگ ہے ناصاحب!خاک ڈالیے ایسی محبت پر۔۔۔۔! "
"خوش بھی اور ناراض بھی۔ارے صاحبہ یہ تو بڑی دلچسپ بات کہی آپ نے!بھلایہ کیسے ممکن ہے۔۔۔؟"
"اجی وہ اس لیے کہ انھوں نے اپنی حکومت کے دوران پرائمری سطح پر بڑی تعداد میں اردواساتذہ کی تقرری کی۔لیکن آج تک اردو کی درسی و نصابی کتابیں فراہم نہیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک بھی استاذ اردو نہیں پڑھاتا۔بھلا بتائیے یہ بے وفائی نہیں تو اور کیا ہے؟یہ تو وہی بات ہوئی کہ پودے کو پانی بھی دینا اور اس کی جڑ بھی کھودنا۔یہی وجہ ہے کہ یو پی میں میرے عاشقوں کی تعداددن بہ دن گھٹتی جا رہی ہے۔غالبؔ مرحوم سو فیصدصحیح فرماگئے کہ" بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے"
"ہاںایک اہم سوال یہ کہ آپ کی محبت میں گرفتار آج کے نوجوان طبقے میں عجب طرح کی مایوسی اور محرومی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ان کے سامنے روزی روٹی کے مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔اس تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟"
"سب سے پہلی بات کہ میں ایک زبان ہوں۔میرا اہم مقصد عوام میں امن وآشتی اور محبت ورواداری پھیلانا ہے۔میں جانتی ہوں کہ میرے بعض نوجوان عاشق اپنی محرومی اور مایوسی کا اصل ذمہ دارمجھے مانتے ہیں ۔کیا یہ سچ نہیں کہ بے روزگاری، غربت اور مفلسی حکومت کی نااہلی کے سبب پھیلتی ہے؟در اصل یہ مسئلہ صرف اردو کا نہیں بلکہ تمام کورسیزکا ہے۔یہاں تک کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی بیروزگاری کی مار جھیل رہے ہیں۔انھیں آس پاس مکھی مارتے ہوئے بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔جناب!آپ بھی میری زلفوں میں گرفتار ہیں۔ کہیں آپ بھی کسی مایوسی ومحرومی میں مبتلا تو نہیں۔۔۔!
افوہ۔۔۔! یعنی بات مجھ تک بھی پہنچ گئی۔اجی لاحول پڑھیے ۔میں کیوں کسی مایوسی میں مبتلا ہونے لگا۔۔۔! ارے آپ کی محبت میں مجھے کیا نہیں ملا ہے ۔۔۔! اچھے اساتذہ،نیک دوست،نئی تمنائیںوحسرتیں،بے شمارخوشیاں، کامیابی، شہرت ، نئی راہیں،بہتر مستقبل اور حسین خواب ۔۔۔! سب سے بڑی بات یہ کہ میرے لیے بی ایچ یو اور جے این یو جیسے عظیم دانش گاہوںکے دروازے کھلے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں آپ کے دام محبت میں گرفتار ہوں۔اگر کئی اور جنم ملے تو بھی میں آپ کی چوکھٹ پر زندگی گزار دوں۔"
"جی صاحبہ ۔۔۔! غالبؔ اور اقبالؔ آپ کے دو بلند مرتبہ عاشق ہیں۔آپ کی نظر میں کس کا قد بڑا ہے ؟"
"بھئی اتنا مشکل سوال کیوں پوچھتے ہیں؟اب بھلا میں کس کا دل دکھاؤں۔دونوں میرے چاہنے والے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ ایک نے غربت اور مفلسی میں مجھے یاد رکھا تودوسرے نے امیری میں میرے گیسو سنوارے۔"
"ارے ہاں میں ایک اہم بات بھول ہی رہا تھاکہ آپ کو چاہنے والے مختلف گروہ میں بٹے ہوئے ہیں۔یعنی ترقی پسندی،جدیدیت،مابعد جدیدیت ،دبستان دہلی،دبستان لکھنو ٔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔!ان میں غضب کی رقابتیں چلتی رہی ہیں۔عاشقوں کی ہر جماعت عشق کا میدان مارنے اورمحبت کے ہمالہ پر جھنڈا گاڑنے کے فراق میں رہتا ہے۔اسی کشمکش میں کبھی کبھی گالی گلوچ اور ہاتھا پائی تک کی نوبت آ جاتی ہے۔ آپ اپنے ان جملہ عاشقوں کو کوئی نصیحت دینا چاہیں گی۔۔۔!"
"اجی صاحب! کسی معشوقہ کے لیے دیوانوں کا آپس میں ٹکرانا عین فطری ہے۔اس عمل میں توکسی معشوقہ کی روحانی خوشی و مسرت کا راز پوشیدہ ہے۔واضح رہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں مختلف نظریات وعقائدکاہوناباعث رحمت ہے زحمت نہیں۔کیوں کہ ان کھڑکیوں سے نئی روشنی اور تازہ ہوائیں آتی ہیں۔ میرے عاشقوں کو آپس میں لڑنے بھڑنے کی قطعی ضرورت نہیں۔سب نے مجھے سنوارا اور سجایا ہے۔اس لیے سبھی کو مجھ سے عشق لڑانے کا حق حاصل ہے۔ میں بھی سب کی دیوانی ہوں اوررہوں گی ۔مجھے تو صرف انتہا پسندی سے کوفت ہے۔اپنے عاشقوں کو یہ نصیحت کہ میرے نام پرگندی سیاست نہ کی جائے۔"
"معاف کیجیے مس صاحبہ۔۔۔! کافی رات ہو چکی ہے۔شہر کا ماحول بھی کچھ ٹھیک نہیں۔ناصر کاظمی کا درج ذیل شعرسناتے ہی مجھے اپنی محبوبہ کی رضامندی مل گئی۔پھر کیا تھا؟خوشی خوشی ہم دونوں دن کے اجالے کی تلاش میں نکل پڑے۔۔۔!
اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

***
Mahboob Hasan(Research Fellow), Room No: 131-E, Bramhputra Hostel. Jawahar Lal Neharu University, New Delhi, 67
mahboobafaqi[@]gmail.com
موبائل : 08527818385
محبوب حسن

Memorable moments with Miss Urdu. Article: Mahboob Hasan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں