اب اس وقت ہندوستانی سفارت کار دیویانی کھوبڑاگڑے کے ساتھ ہونی والی بدتمیزی کے خلاف حکومت ہند نے جو سخت قدم اٹھائے ،یہ بھی قابل ستائش اقدام ہے، گرچہ ہندوستان کی جانب سے یہ اقدام کافی دیر سے آیا ہے ،لیکن دیرآید درست آید کے مصداق بہر حال امریکہ بہادر کو آنکھ دکھانا ہندوستان نے بھی سیکھ لیا ہے ، جو اس کی عالمی معاملات میں اپنی من مانی تھوپنے کے سلسلے میں قدغن لگانے کے لئے ایک سنگِ میل ثابت ہوسکتاہے، ہندوستانی سفارت کار کو جمعرات کے دن جب وہ صبح کے وقت اپنی لڑکی کو اسکو ل چھوڑے گئی تھیں، انہیں اپنی خادمہ کے جعلی ویزا اور اس کو کم تنخواہ دینے کے الزام میں بغیر پیشگی اطلاع کے نہ صرف سرراہ گرفتار کیا ، انہیں بر سرعام ہتھکڑیاں لگادی گئیں ، پھر ان کی جامہ تلاشی اور بدن تلاشی لی گئی ، ان کاڈی ، این اے ٹیسٹ لیا گیا ،انہیں حوالات میں قحبہ گراور نشیلی ادویہ استعمال کرنے والی مافیا ٹولی عورتوں کے ساتھ رکھاگیا ، بعد ازاں عدالت نے اس سفارتکار کا رتبہ رکھنے والی اس ہندوستانی خاتون کو ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر کے عوض ضمانت منظورکرایاتھا اور ان کے امریکہ کے باہر سفر پر پابندی لگادی گئی تھی ، جس طرح کا سلوک اس سفارتکار کے ساتھ گیا گیا ، اس طرح سلوک کسی عام آدمی کے ساتھ بھی کیا جاتا تونادرست ہوتا ، اس واقعہ پر ہندوستان نے اولا محتاط رد عمل کا اظہار کیا ، پھر ہندوستانی سفیر نے امریکی وزارت خارجہ کو اس واقعہ سے مطلع کیا، نئی دہلی میں ہندوستانی وزارت خارجہ نے امریکی سفیر مقیم دہلی کو طلب کر کے اس پر احتجاج کیا ، پھر جب حکومت ہند کے احتجاج اور باقاعدہ طور پر امریکی حکام سے شکایت کے باوجود امریکی وزارت خارجہ ٹس سے مس نہیں ہوا، تو دنیا بھر میں سفارتی خدمت انجام دینے والے ہندوستانی سفارتی کیڈر آئی ایف ایس نے بقاعدہ حکومت سے اس کی شکایت کی اور اس اہانت آمیز رویہ پر اپنا احتجاج درج کیا ، اس وقت حکومت ہند نے دیر سویر صحیح جو اقدامات کئے اور اپنا سخت نوٹ لیا یہ حکومت ہند کا قابل ستائش کارنامہ اور جیسے کو تیسے کا جواب تھا، ہندوستان کا دورہ کررہے امریکی کانگریس کے وفد سے طئے شدہ ملاقات نہ کرتے ہوئے اسپیکر پارلیمنٹ میرا کمار ، کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی ، وزیر داخلہ شنڈے ، نریند ر مودی نے اس اہانت آمیز رویہ کا جواب دیا اوراورہندوستان میں امریکی قونصل خانوں کی سیکوریٹی اور اسٹاف اور ان کی فیملی افراد کو دی گئی مراعات میں کٹوٹی کردی اور امریکی سفارت خانے کے اسٹاف اور ان کے کنبے کے افراد کوسفارتی شناختی کارڈ لوٹانے کا حکم دیا اور امریکی قونصل خانوں میں ملازم ہندوستانیوں کی تفصیلات اورا ن کے پین کارڈ وغیرہ طلب کئے گئے اور اس کے علاوہ اس بد سلوکی پر غیر مشروط معافی مانگنے کامطالبہ کیا ہے ۔جس پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے قومی سلامتی مشیر شیوشنکر مینن سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے اس واقعہ پر اظہار افسوس کیا ہے۔
ہندوستانی شخصیات اور سفارت کاروں کے ساتھ امریکہ کا یہ نازیبا رویہ پہلا دفعہ رونما نہیں ہوا ؛ بلکہ اس سے پہلے بھی کئی شخصیات کو اس اہانت آمیز سلوک سے گذرنا پڑا ہے ،29/ستمبر 1102ء کو سابق صدر جمہوریہ عبد الکلام کی نیویارک اڈے پر جامہ تلاشی کی گئی تھی ، اسی طرح جارج فرنانڈیز جب وزیر دفاع تھے تو ڈلاس ہوائی اڈہ پر برہنہ کرکے ان کی تفتیش کی گئی تھی ، اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ ہردیب پوری سے ان کے پگڑی اتارنے سے انکار پر بدسلوکی کی گئی تھی ،2011میں سابق سفیر ہند برائے امریکہ میرا شنکر کی سیکورٹی افسروں نے لباس اتار کر تلاشی لی ، ستمبر 2010میں امریکہ کے ایک ہوائی اڈے پر اس وقت کے وزیر شہر ی ہوابازی پرفل پٹیل کے ساتھ بدتمیزی کی گئی،اس کے علاوہ فلم ایکٹروں کے ساتھ بھی ذلت آمیز سلوک کیا گیا ۔بہرحال حکومت کا امریکہ کے خلاف یہ سخت اقدام اس کا وقتی اثر تو یہ ہوگا کہ امریکہ اس طرح دوست ممالک کے ساتھ اہانت آمیز اور غیر اخلاقی رویوں سے باز آئے گا ، ویسے تو امریکہ کی دوغلی پالیسی اوراس کا دوہرا رویئے سے ساری دنیا نالاں اور پریشاں ہے ، کہ وہ ایک طرف تو دوستی کا ہاتھ بڑھتا ہے اور دوسری طرف اپنے دوستوں کی دل شکنی اور دل آزاری کی حرکتوں سے بھی باز نہیں آتا ، یعنی وہ اپنے اس دوہرے رویہ کے پس پردہ یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس کے دوست ممالک کی حیثیت محض پٹھووں کی سی ہے ، جب چاہے وہ انہیں استعمال کرے اور جب چاہے انہیں دل گرفتہ کردے ،بہت صورت اس کے اشاروں پر چلنا ہے ۔ہندوستان بھی امریکہ کا ایک بڑا حلیف اورساری دنیا میں جمہوریت کا علم بردار شمار ہوتا ہے ، حکومت ہند نے امریکہ سے کئی ایک معاہدات بشمول نیوکلیائی توانائی کے کئے ہیں ، جس میں اس کو اپنے حلیفوں سے ناراضگی بھی مول لینی پڑی ،امریکہ نے کبھی بھی اس قربت اور دوستی کی لاج نہیں رکھی ،پاکستان بھی امریکہ کا زبردست حلیف شمار ہوتا ہے،لیکن پاکستان میں اسامہ بن لادن اور طالبان کے نام پر جو ڈرون حملے روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں ، اور عوام کا جو جانی اور مالی نقصان ہو رہاہے ،اس نے وہاں کی حکومت کو امریکہ سے نالاں وپریشان کیا ہوا ہے ، اسی طرح افغانستان میں امریکہ کے دہرے رویہ کے خلاف حامد کرزوئی بھی چند ہفتے قبل سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے ، بہر حال ان واقعات کی روشنی میں امریکہ کے ساتھ اپنی دوستی کے حدود کا تعین کرلینا چاہئے ،ہندوستان ، پاکستان ، افغانستان اور سری لنکا سمیت بر صغیر کے ممالک کو اپنے اختلاف کو پسِ پشت ڈال کر ایک اتحاد اور وفاق کی بنیاد ڈالنی چاہئے اور آپسی طاقت وقوت کے بل بوتے پر اپنے امور طئے کرنی چاہئے اور امریکہ کی یہاں کے معاملات پر دخل اندازی پر قدغن لگانا چاہئے ۔اس وقت امریکہ کے رویہ کے خلاف جو جوابی اقدامات اور مختلف ممالک کی طرف سے جو صدائے احتجاج بلند کئے جارہے ہیں ،یہ ایک قابل ستائش اور مثبت اقدام ہے ، جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور دنیا کی سیاست وحکمرانی میں من مانیت کے خاتمہ کے لئے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا ۔
***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی |
Indian government's tough stance on Arrest, strip-search of Indian diplomat by U.S. Article: Rafi Haneef
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں