امریکہ کے خلاف سفارتی معاملہ میں حکومت ہند کا سخت رویہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-19

امریکہ کے خلاف سفارتی معاملہ میں حکومت ہند کا سخت رویہ

India-govt-tough-stance-on-US-khobragade-case
امریکہ جواس وقت ساری دنیا میں سپر پاور گردانا جاتا ہے ، جنگ عظیم دوم کے خاتمہ کے بعد سے وہ ساری دنیا پر اپنی اجارہ داری اور من مانی تھوپتا ہوا چلاآیا ہے ، ہر جائز ناجائز معاملہ کواپنے تئیں درست ٹھہراتا رہاہے ، جنگی اور دیگر عالمی اثرات کے حامل معاملات میں اپنی مرضی کے موافق رائے عامہ ہموار کرتا رہاہے ،دنیا کے سارے ممالک اپنے شخصی اور حقیر سے مفاد کے تحفظ کے پسِ پردہ اس کی تائید وتوثیق کرتے آئے ہی ، جس کے نتیجہ میں وہ نہایت ہی خود سر اور مغرور ہوگیا ہے ، وہ جس ملک پر چاہے چڑھائی کرتا ہے اورجس کی چاہے جان بخشش کرواسکتاہے ، اس کی حدسے زیادہ توقیر ، اس کی ہر رائے کا احترام ، اس کے عالمی سطح پر ہر معاملہ میں تمام ممالک کی جی حضوری نے اس کو اپنے تئیں ایک عالمی طاقت باور کرایا ہے ،جس کا نزلہ وہ وقتا فوقتا اپنے ہمنوا ممالک پر نکالتا رہتا ہے اور اپنے وفادار کتوں کو ان کی وفاداری کا امتحان لینے کے لئے ان کی کان کھینچائی بھی کرتا رہتا ہے ادھر چند دنوں سے امریکہ کی دال گلتی نظر نہیں آرہی ہے ، کچھ ممالک نے حال میں ہی اس کے غیر قانونی وغیر اخلاقی پالیسیوں کا سخت نوٹس لے کر اس کو سخت پیغام دیا ہے کہ اس کی من مانی کے دور کا خاتمہ ہونے کو چلا ہے، جب امریکہ نے ملکِ شام پر حملے کے لئے ٹھان لی ، تو اس وقت اس کو اقوام متحدہ سے جواز حاصل کرنے کے لئے نہایت تگ ودو کرنی پڑی ، گرچہ شام حکومت کی عوام دشمن خونریزپالیسیوں کے خلاف ترکی اور سعودی عرب نے بھی امریکہ کا اس وقت ساتھ دیاتھا ،( یہ الگ بحث ہے کہ اس وقت سعودی حکومت کا دوغلا رویہ منظر عام پر آیا کہ اس نے مصر میں مرسی کی جائز حکمرانی کے خلاف فوجی آمریت کا ساتھ دیا ، جس کا غم ہر مسلمان کوہوا کہ سعودی عرب جو کہ عالم اسلام کے لئے مرکزیت کی حیثیت رکھتا ہے اس نے اسلام پسندوں کے خلاف یہود پرست فوجی آمر وڈکٹیٹر جنرل سیسی کے انقلابی اقدام کو نہ صرف جائز ٹھہرایا ؛ بلکہ امریکہ کے مصر کو دی جانے والی امداد کے روک دینے کی بات آئی تو سعودیہ نے مصر کی غیر قانونی حکومت کی زبرست مالی سر پرستی کی )اس وقت روس نے امریکہ کا جو سخت نوٹس لیا تھا اور ملکِ شام پر امریکہ کے مبینہ حملہ کو نادرست ٹھہرایا تھا، آخر کار روس کے سر گرم سفارتی کاروائیوں اور اس کے ملک شام کو اقوامِ متحدہ کے مطالبات کے ماننے لینے پر آمادہ کرنے کی نتیجے میں جس میں نیوکلیر ہتھیاروں کو ناکارہ کرنا شامل تھا ،، امریکہ کو اس کی من مانی اور ساری دنیا پر اس کی حکمرانی پر قدغن کاسا لگایا دیا تھا،یہ ایک موقع تھا جب روس نے ملک شام پر امریکہ کے مبینہ حملہ کے خلاف جس کی وہ پوری تیاری کر چکا تھا،عین وقت پر روس کی سرگرم سفارتی کاروائیوں کے نتیجے میں اس کو اپنے قدم پیچھے لینے پڑے تھے ، جس میں امریکہ کو مات کھانی پڑی تھی ،دوسرا موقع وہ تھا جب سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نشست کے لئے اپنے انتخاب کے بعد یہ کہہ کر اس کی رکنیت قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ یہ ادارہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں ناکام رہ گیا ہے اوریہ عالمی ادار امریکہ کی لونڈی اور غلام بن گیا ہے ، اس ادارہ کو امریکہ اپنے ناپاک عزائم کے تکمیل کے لئے استعمال کرتا ہے،اس نے مشرق وسطی بالخصوص شام اور فلسطین جیسے اہم مسائل کو حل کر نہیں پایا ، سعودی عرب کے اقوام متحدہ کے خلاف اس صدائے احتجاج بلند کرنے کی ہر طرف سے ستائش ہوئی تھی ،اس وقت سعودی حکومت کا اقوام متحدہ کی کارکر دگی پر سوالیہ نشان لگانایہ در اصل امریکہ کی من مانیت اور اس کی ساری دنیا پر اپنی آمریت ، اس عالمی ادارے کو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے مہرے کے طور استعمال کرنے کے خلاف ایک سخت نوٹس اور سعودی عرب کا ایک انقلابی قدم تھا۔
اب اس وقت ہندوستانی سفارت کار دیویانی کھوبڑاگڑے کے ساتھ ہونی والی بدتمیزی کے خلاف حکومت ہند نے جو سخت قدم اٹھائے ،یہ بھی قابل ستائش اقدام ہے، گرچہ ہندوستان کی جانب سے یہ اقدام کافی دیر سے آیا ہے ،لیکن دیرآید درست آید کے مصداق بہر حال امریکہ بہادر کو آنکھ دکھانا ہندوستان نے بھی سیکھ لیا ہے ، جو اس کی عالمی معاملات میں اپنی من مانی تھوپنے کے سلسلے میں قدغن لگانے کے لئے ایک سنگِ میل ثابت ہوسکتاہے، ہندوستانی سفارت کار کو جمعرات کے دن جب وہ صبح کے وقت اپنی لڑکی کو اسکو ل چھوڑے گئی تھیں، انہیں اپنی خادمہ کے جعلی ویزا اور اس کو کم تنخواہ دینے کے الزام میں بغیر پیشگی اطلاع کے نہ صرف سرراہ گرفتار کیا ، انہیں بر سرعام ہتھکڑیاں لگادی گئیں ، پھر ان کی جامہ تلاشی اور بدن تلاشی لی گئی ، ان کاڈی ، این اے ٹیسٹ لیا گیا ،انہیں حوالات میں قحبہ گراور نشیلی ادویہ استعمال کرنے والی مافیا ٹولی عورتوں کے ساتھ رکھاگیا ، بعد ازاں عدالت نے اس سفارتکار کا رتبہ رکھنے والی اس ہندوستانی خاتون کو ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر کے عوض ضمانت منظورکرایاتھا اور ان کے امریکہ کے باہر سفر پر پابندی لگادی گئی تھی ، جس طرح کا سلوک اس سفارتکار کے ساتھ گیا گیا ، اس طرح سلوک کسی عام آدمی کے ساتھ بھی کیا جاتا تونادرست ہوتا ، اس واقعہ پر ہندوستان نے اولا محتاط رد عمل کا اظہار کیا ، پھر ہندوستانی سفیر نے امریکی وزارت خارجہ کو اس واقعہ سے مطلع کیا، نئی دہلی میں ہندوستانی وزارت خارجہ نے امریکی سفیر مقیم دہلی کو طلب کر کے اس پر احتجاج کیا ، پھر جب حکومت ہند کے احتجاج اور باقاعدہ طور پر امریکی حکام سے شکایت کے باوجود امریکی وزارت خارجہ ٹس سے مس نہیں ہوا، تو دنیا بھر میں سفارتی خدمت انجام دینے والے ہندوستانی سفارتی کیڈر آئی ایف ایس نے بقاعدہ حکومت سے اس کی شکایت کی اور اس اہانت آمیز رویہ پر اپنا احتجاج درج کیا ، اس وقت حکومت ہند نے دیر سویر صحیح جو اقدامات کئے اور اپنا سخت نوٹ لیا یہ حکومت ہند کا قابل ستائش کارنامہ اور جیسے کو تیسے کا جواب تھا، ہندوستان کا دورہ کررہے امریکی کانگریس کے وفد سے طئے شدہ ملاقات نہ کرتے ہوئے اسپیکر پارلیمنٹ میرا کمار ، کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی ، وزیر داخلہ شنڈے ، نریند ر مودی نے اس اہانت آمیز رویہ کا جواب دیا اوراورہندوستان میں امریکی قونصل خانوں کی سیکوریٹی اور اسٹاف اور ان کی فیملی افراد کو دی گئی مراعات میں کٹوٹی کردی اور امریکی سفارت خانے کے اسٹاف اور ان کے کنبے کے افراد کوسفارتی شناختی کارڈ لوٹانے کا حکم دیا اور امریکی قونصل خانوں میں ملازم ہندوستانیوں کی تفصیلات اورا ن کے پین کارڈ وغیرہ طلب کئے گئے اور اس کے علاوہ اس بد سلوکی پر غیر مشروط معافی مانگنے کامطالبہ کیا ہے ۔جس پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے قومی سلامتی مشیر شیوشنکر مینن سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے اس واقعہ پر اظہار افسوس کیا ہے۔
ہندوستانی شخصیات اور سفارت کاروں کے ساتھ امریکہ کا یہ نازیبا رویہ پہلا دفعہ رونما نہیں ہوا ؛ بلکہ اس سے پہلے بھی کئی شخصیات کو اس اہانت آمیز سلوک سے گذرنا پڑا ہے ،29/ستمبر 1102ء کو سابق صدر جمہوریہ عبد الکلام کی نیویارک اڈے پر جامہ تلاشی کی گئی تھی ، اسی طرح جارج فرنانڈیز جب وزیر دفاع تھے تو ڈلاس ہوائی اڈہ پر برہنہ کرکے ان کی تفتیش کی گئی تھی ، اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ ہردیب پوری سے ان کے پگڑی اتارنے سے انکار پر بدسلوکی کی گئی تھی ،2011میں سابق سفیر ہند برائے امریکہ میرا شنکر کی سیکورٹی افسروں نے لباس اتار کر تلاشی لی ، ستمبر 2010میں امریکہ کے ایک ہوائی اڈے پر اس وقت کے وزیر شہر ی ہوابازی پرفل پٹیل کے ساتھ بدتمیزی کی گئی،اس کے علاوہ فلم ایکٹروں کے ساتھ بھی ذلت آمیز سلوک کیا گیا ۔بہرحال حکومت کا امریکہ کے خلاف یہ سخت اقدام اس کا وقتی اثر تو یہ ہوگا کہ امریکہ اس طرح دوست ممالک کے ساتھ اہانت آمیز اور غیر اخلاقی رویوں سے باز آئے گا ، ویسے تو امریکہ کی دوغلی پالیسی اوراس کا دوہرا رویئے سے ساری دنیا نالاں اور پریشاں ہے ، کہ وہ ایک طرف تو دوستی کا ہاتھ بڑھتا ہے اور دوسری طرف اپنے دوستوں کی دل شکنی اور دل آزاری کی حرکتوں سے بھی باز نہیں آتا ، یعنی وہ اپنے اس دوہرے رویہ کے پس پردہ یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس کے دوست ممالک کی حیثیت محض پٹھووں کی سی ہے ، جب چاہے وہ انہیں استعمال کرے اور جب چاہے انہیں دل گرفتہ کردے ،بہت صورت اس کے اشاروں پر چلنا ہے ۔ہندوستان بھی امریکہ کا ایک بڑا حلیف اورساری دنیا میں جمہوریت کا علم بردار شمار ہوتا ہے ، حکومت ہند نے امریکہ سے کئی ایک معاہدات بشمول نیوکلیائی توانائی کے کئے ہیں ، جس میں اس کو اپنے حلیفوں سے ناراضگی بھی مول لینی پڑی ،امریکہ نے کبھی بھی اس قربت اور دوستی کی لاج نہیں رکھی ،پاکستان بھی امریکہ کا زبردست حلیف شمار ہوتا ہے،لیکن پاکستان میں اسامہ بن لادن اور طالبان کے نام پر جو ڈرون حملے روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں ، اور عوام کا جو جانی اور مالی نقصان ہو رہاہے ،اس نے وہاں کی حکومت کو امریکہ سے نالاں وپریشان کیا ہوا ہے ، اسی طرح افغانستان میں امریکہ کے دہرے رویہ کے خلاف حامد کرزوئی بھی چند ہفتے قبل سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے ، بہر حال ان واقعات کی روشنی میں امریکہ کے ساتھ اپنی دوستی کے حدود کا تعین کرلینا چاہئے ،ہندوستان ، پاکستان ، افغانستان اور سری لنکا سمیت بر صغیر کے ممالک کو اپنے اختلاف کو پسِ پشت ڈال کر ایک اتحاد اور وفاق کی بنیاد ڈالنی چاہئے اور آپسی طاقت وقوت کے بل بوتے پر اپنے امور طئے کرنی چاہئے اور امریکہ کی یہاں کے معاملات پر دخل اندازی پر قدغن لگانا چاہئے ۔اس وقت امریکہ کے رویہ کے خلاف جو جوابی اقدامات اور مختلف ممالک کی طرف سے جو صدائے احتجاج بلند کئے جارہے ہیں ،یہ ایک قابل ستائش اور مثبت اقدام ہے ، جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور دنیا کی سیاست وحکمرانی میں من مانیت کے خاتمہ کے لئے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی

Indian government's tough stance on Arrest, strip-search of Indian diplomat by U.S. Article: Rafi Haneef

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں