گجرات میں لڑکی کی جاسوسی کا معاملہ سنگین جرم - قانونی ماہرین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-23

گجرات میں لڑکی کی جاسوسی کا معاملہ سنگین جرم - قانونی ماہرین

نئی دہلی۔
(یو این آئی)
گجرات میں زبانی حکم پر ایک لڑکی کی ذاتی زندگی میں تانک جھانک کیلئے سرکاری مشنری کے ناجائز استعمال کا معاملہ اجاگر ہونے کے بعد سیاسی سرگرمی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے اور اس معاملہ سے فائدہ اٹھانے کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حریف پارٹیوں نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔ اس معاملے نے قانونی ماہرین کو بھی چونکا دیا ہے۔ اس معاملے کے انکشاف کے بعد سال 2002ء کے گجرات فسادات میں اپنے مبینہ کردار کیلئے سرخیوں میں رہنے والے اس وقت کے وزیر داخلہ امیت شاہ ایک بار پھر نشانے پر آگئے ہیں۔ مرکزی حکومت بھی اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے اور مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے بھی اس معاملے کی تحقیقات کرانے سے متعلق بیان دے چکے ہیں۔ آڈیو ٹیپ میں اجاگر "صاحب" کے کردار اور لڑکی کے ساتھ ان کے مبینہ تعلقات پر سوال تو کھڑے کئے ہی جارہے ہیں اس کے علاوہ اس کے مختلف قانونی پہلوؤں پر بھی بحث ہورہی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق گجرات میں یہ جو واقعہ ہوا ہے وہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل 21 میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ آرٹیکل 21 محفوظ زندگی اور ذاتی آزادی کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔ اس کی شرائط کے مطابق کسی بھی شخص کو اس کے جینے کے حق اور شخصی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت میں لڑکی کی جاسوسی کرنا یا اس پرنظر رکھنا اس کی خلوت کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور جرائم سے متعلق امور کے ماہر کے ٹی ایس تلسی کے مطابق ہندوستانی ٹیلیگراف ایکٹ 1885ء کے تحت بھی کسی کی گفتگو ٹیپ کرنا اس وقت تک ممنوع ہے جب تک کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہ ہوجائے۔ مسٹر تلسی کا خیال ہے کہ متعلقہ قانون کے تحت فون ٹیپ کرنے کیلے بھی ضروری اور مناسب وجہ موجود ہونی چاہئے اور اس سلسلے میں ذمہ دار افسرسے پیشگی اجازت لینی ضروری ہے۔ کسی بھی شخص کے زبانی حکم پر کسی کی جاسوسی کرنا قانونی نقطہ نظر سے قطعی مناسب نہیں ہے۔ خواتین کے حقوق سمیت کئی سماجی مسائل پر بے باک رائے رکھنے والی سپریم کورٹ کی سینئر وکیل کامنی جیسوال بھی مسٹر تلسی کی باتوں سے اتفاق کرتی ہیں۔ جیسوال کا کہنا ہے کہ گجرات میں لڑکی کا جاسوسی معاملہ پرائیویسی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ریاست یا ملک کی خود مختاری سالمیت یا کسی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو اس لڑکی سے کیا خطرہ تھا کہ ریاستی حکومت نے اس کی جاسوسی کروائی۔ انہوں نے کہاکہ اگر لڑکی بالغ ہے تو اس کے باپ کے حکم پر اس طرح کی جاسوسی نہیں کرائی جاسکتی کیونکہ ہر شہری کو اپنی مرضی سے جینے کی آزادی آئین نے فراہم کی ہے۔ جیسوال کا کہنا ہے کہ سکیورٹی ایجنسیوں کے بغیر کسی کی درخواست یاگذارش پر اس طرح کی جاسوسی کرانا یقینی طورپر غیر قانونی ہے اور اس میں ملوث اہلکار کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔ خواتین کے حقوق سے متعلق امور کی وکیل اور قانونی موضوعات کی مشہور مصنفہ کملیش جین کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص خاص طورپر خواتین کی پرائیویسی کی خلاف ورزی قطعی نہیں کی جانی چاہئے خواہ حکومت کی طرف سے ہویا کسی اور عانصر کی طرف سے۔ سائبر قانون کے ماہر پون دگل کا خیال ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی ترمیمی قانون 2008ء کی دفعہ 69 میں فراہم کردہ حقوق کی آڑ میں بڑے پیمانے پر جاسوسی کی جاتی ہے۔ دراصل یہ مسئلہ حکومت ملک کی کئی تفتیشی ایجنسیوں کو حاصل آزادی کی وجہہ سے بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ تقریباً 12جانچ ایجنسیوں کو الگ الگ وجوہات سے عام لوگوں کی نگرانی کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان ایجنسیوں کو انڈین ٹیلیگراف ایکٹ 1885 اور انفارمیشن ٹکنالوجی ترمیمی ایکٹ 2008 کے تحت الیکٹرانک نگرانی کرنے کا بھی حق ہے۔ ان ایجنسیوں پر دیگر محکموں کے لوگوں کی نگرانی کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں