انسداد فرقہ وارانہ فساد بل کسی بھی مذہب کے خلاف نہیں - م افضل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-12

انسداد فرقہ وارانہ فساد بل کسی بھی مذہب کے خلاف نہیں - م افضل

Anti-communal-violence-Bill
انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل اور فساد متاثرین کی باز آبادکاری کیلئے ایک جامع قانون کا مطالبہ برسوں سے کیا جاتا رہا ہے اور بارہا اس کی ضرورت سمجھی گئی ہے کہ مرکزی حکومت ایک ایساسخت قانون لائے جس سے نہ صرف نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کی جاسکے بلکہ فسادات بھڑکانے میں شامل لوگوں کے خلاف سخت کارروائی ہو۔ ساتھ ہی انتظامیہ کی جوابدہی طئے کی جاسکے۔
بارہا یہ بھی دیکھا گیا کہ کسی علاقے میں فساد پھوٹ پڑنے کے بعد انتظامیہ اسے روکنے میں ناکام رہا یا پھر اس نے جان بوجھ کر اسے نظر انداز کردیا۔ متعدد بار تو انتظامیہ اور پولیس بذات خود فسادات کو پھیلانے میں شامل ہوگئے۔ حد تو یہ ہے کہ کہیں کہیں پولیس خاص طور سے خود فسادی بن گئی۔ 1978ء کے میرٹھ کے ہاشم پورہ فسادات میں پی اے سی کارکردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تمام مقدمے ابھی چل رہے ہیں۔ اس طرح بہت سی جگہوں پر مذہبی تنظیم کے کارکنان کے خلاف بھی مقدمے درج ہوئے ہیں لیکن فسادات میں شامل لوگوں کے خلاف ان کے جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے نہ تو کارروائی ہوئی اور نہ ہی سزائیں ملیں۔ اس پر پارلیمنٹ میں کئی بار بحث بھی ہوئی اور بڑی تعداد میں سیاسی جماعتوں نے مضبوط بل لانے کی مانگ بھی کی ہے اور آج بھی کررہی ہے۔
کانگریس نے 2004ء میں عام انتخابات کے منشور میں وعدہ کیا تھا جس کے تحت 2005ء میں ایک ڈرافٹ تیار کیا گیا لیکن بی جے پی ابتداء سے اس بل کی مخالفت میں لگ گئی۔ کچھ علاقائی جماعتوں نے بھی اس ڈرافٹ کو مسترد کیا۔ ان کا الزام تھا کہ اس قانون سے وفاقی ڈھانچے پر فرق پڑے گا اور ریاست اور مرکز کے درمیان جو کام منقسم ہیں ان میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوگی۔ انہیں یہ لگ رہا تھا کہ دانستہ طورپر مرکزی حکومت کہیں نہ کہیں ریاست کے معاملات میں دخل دینے کا کام کررہی ہے۔ خاص طور سے لاء اینڈ آرڈر جو کہ ریاست کا معاملہ ہے۔ اس ضمن میں کچھ وزرائے اعلیٰ کو اپنے حقوق کی خلاف ورزی محسوس ہورہی تھی۔ حالانکہ بل میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر کہیں فساد قابو میں نہیں آتا تو اس قانون کے ذریعہ مرکز کو یہ حق حاصل ہوجائے گا کہ وہ اپنے طورپر فوج بھیج کر حالات کو قابو کرسکے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک طرف تو اس کی مخالفت کی گئی اور دسوری طرف حال ہی میں مظفر نگر فسادات کے دوران یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا کہ مرکز نے وہاں کوئی مداخلت کیوں نہیں کی؟ یہاں تک کہ بی جے پی نے وہاں صدر راج کے نفاذ کی مانگ کی۔ یہ طرز عمل بی جے پی کی دوہری پالیسی کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ گجرات کے فسادات کے وقت ان کا سارا زور اس بات پر تھا کہ مرکزی حکومت گجرات میں صدر راج نافذ نہ کرے۔
اس تناظر میں اگر آپ دیکھیں تو فسادات میں ایک طرف بے گناہ انسانوں کے جان و مال کے نقصان ہوتا ہے جن میں زیادہ تر غریب لوگ شکار ہوتے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کے دوران جب لوٹ مار مچتی ہے تو کبھی کبھی پڑوسی سے لے کر انتظامیہ تک ذمہ دار پائے جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سانحہ کے بعد بھی ان مظلوموں کو نہ تو انصاف ملتا ہے نہ ہی معاوضہ۔ حتی کہ ان متاثرین کی بازآبادکاری تک ڈھنگ سے نہیں کی جاتی۔ مظفر نگر میں آج بھی کافی لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے۔ گجرات فسادات کو بھی 10 سال گزر چکے ہیں مگر اب بھی وہاں کافی لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کی ہمت نہیں جٹاسکے۔ اس طرح کے ماحول میں ہم نے بل کی ضرورت محسوس کی۔
یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت کے یہ یقین دلانے کے باوجود کہ کسی ایک طبقے پر ذمہ داری ڈالنے کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس کی مخالفت کیوں ہورہی ہے؟ مرکز کی طرف سے غیر ضروری طورپر ریاست میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ دیگر شکوک و شبہات کو دور کرنے کیلئے بھی بل میں ترمیم کا تیقن دیا گیا۔ ایسے میں تمام سیاسی پارٹیوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد اس بل کو قانون بنانے میں حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔

Anti-communal violence Bill is not against any religion - M. Afzal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں