تلنگانہ مسودہ بل پر آندھرا پردیش اسمبلی میں مباحث کا آغاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-18

تلنگانہ مسودہ بل پر آندھرا پردیش اسمبلی میں مباحث کا آغاز

ap-assembly-telangana-issue
ریاستی اسمبلی کی بزنس اڈوائزری کمیٹی نے آندھراپردیش کی تنظیم جدید بل 2013پر کل سے ایوان میں مباحث کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے۔ تلنگانہ مسئلہ پر ایوان میں جاری تعطل کے خاتمہ کیلئے بزنس اڈوائزری کمیٹی کا ایک اجلاس آج منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ تلنگانہ بل پر کل سے مباحث شروع کئے جائیں۔ بزنس اڈوائزری کمیٹی نے قبل ازیں سرمائی اجلاس صرف جمعہ تک چلانے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم آج منعقدہ اجلاس میں ایوان کی کارروائی جمعہ کے بعد بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیاگیا۔ درمیان میں کرسمس کیلئے مختصر وقفہ ہوگا اور اس کے بعد تلنگانہ مسودہ بل پر مباحث مکمل کئے جائیں گے۔ اسپکر این منوہر ایوان میں بل پر مباحث کیلئے کل شیڈول کا اعلان کریں گے۔ علاقہ تلنگانہ کے ارکان مقننہ مسودہ بل پر مباحث کیلئے اصرار کررہے ہیں۔ مسودہ بل کل ایوان میں پیش کیا گیاتھا۔ تلنگانہ ارکان کے برعکس سیما آندھرا ارکان اس کی سخت مخالف کررہے ہیں۔ ایوان میں بل کی پیشکشی کے موقع پر انتہائی بدنظمی کے مناظر دیکھے گئے۔ تلنگانہ کے مخالف ارکان نے مسودہ بل کی نقولات پھاڑ کر پھینک دی اور بعض نے انہیں نذر آتش کردیا۔ بزنس اڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں درحقیقت ریاستی وزیر فینانس اے رام نارائن ریڈی نے مبینہ طورپر تجویز پیش کی کہ تلنگانہ بل پر مباحث کیلئے آئندہ ماہ کے اوائل میں ایک خصوصی اجلاس طلب کیا جائے اور 23 جنوری تک صدر جمہوریہ کو مسودہ بل واپس کرنے کی کارروائی رسمی طورپر مکمل کرلی جائے۔ ڈپٹی چیف منسٹر دامودر راج نرسمہا اور وزیر امور مقننہ ڈی سریدھر بابو نے تاہم رام نارائن ریڈی کی تجویز کی مخالفت کی اور کہاکہ جاریہ اجلاس ہی مباحث کیلئے جاری رہنا چاہئے۔ اسی دوران چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی اجلاس کے درمیان میں ہی وہاں سے روانہ ہوگئے۔ کیونکہ جاریہ اجلاس کو جاری رکھنے کو زیادہ تائید ملنے پر وہ مبینہ طورپر ناراض ہوگئے تھے۔ تلگودیشم مقننہ پارٹی کے ڈپٹی لیڈر جی مدو کرشنما نائیڈو اجلاس سے واک آوٹ کرگئے، کیونکہ ان کے مطالبہ کو منظوری نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ مسودہ بل مرکز کو واپس کردیا جائے اور ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کی جائے۔ وائی ایس آر کانگریس کی فلور لیڈر وائی ایس وجئے اماں اور ڈپٹی لیڈر شوبھا ناگی ریڈی نے بھی اجلاس سے واک آوٹ کردیا، کیونکہ ان کا مطالبہ بھی مسترد کردیا گیا تھا۔ دونوں نے ریاست کی متحدہ ساخت کی برقراری پر اسمبلی میں قرارداد منظور کرنے پر زوردیا تھا۔ بزنس اڈوائزری کمیٹی کے چند ارکان نے جو علاقہ سیما آندھرا سے تعلق رکھتے ہیں، تلنگانہ مسودہ بل کی ہر ایک شق پر رائے دہی کی جائے۔ اسپیکر نے مبینہ طورپر جواب دیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے، تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ وہ اس موضوع پر متعلقہ قواعد کا جائزہ لینے کے بعد ایوان کو اس سے مطلع کریں گے۔ اسی دوران اسمبلی کا اجلاس کسی کارروائی کے بغیر دن بھر کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ آج صبح میں اجلاس جیسے ہی شروع ہوا پارٹی وابستگی سے بالاتر تمام سیما آندھرا ارکان نے اسپیکر کے پوڈیم کے قریب علیحدہ تلنگانہ کی مخالفت کرتے ہوئے نعرہ بازی کی۔ شوروغل اور ہنگامہ آرائی کو دیکھتے ہوئے اسپیکر نے کارروائی آگے بڑھائے بغیر اجلاس دن بھر کیلئے ملتوی کردیا۔ صبح میں اجلاس جیسے ہی شروع ہوا تلنگانہ اور سیما آندھرا کے ارکان اسپیکر کے کرسی صدارت پر پہنچنے سے قبل ہی ان کے پوڈیم کے قریب جمع ہوگئے تھے۔ اسپیکر این منوہر جیسے ہی کرسی صدارت پر فائز ہونے ارکان نے اپنے اپنے مطالبات پر نعرہ بازی شروع کردی۔ اسی دوران این منوہر نے اپوزیشن جماعتوں کی پیش کردہ تحریکات التوا کو نامنظور کرنے کا اعلان کیا۔ سی پی آئی نے تلنگانہ مسودہ بل پر فوری مباحث اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے ریاست کو متحد رکھنے کے مطالبہ پر ایک قرار داد منظور کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریکات التوا پیش کی تھیں۔ شوروغل کے دوران اسپیکر نے یہ کہتے ہوئے کارروائی ملتوی کردی کہ بزنس اڈوائزری کمیٹی کا اجلاس منعقد شدنی ہے۔ کمیٹی کا اجلاس تقریباً 6گھنٹے جاری رہا۔ ایوان کی کارروائی سہ پہر 3:19 بجے دوبارہ شروع ہوئی۔ اسپیکر نے بجٹ مینجمنٹ سے متعلق ایک ترمیمی بل پیش کرنے وزیر فینانس کو ہدایت دی۔ وزیر فینانس کی جانب سے بل پیش کئے جانے کے بعد این منوہر نے ایوان کی کارروائی دن بھر کیلئے ملتوی کردی۔

آئی اے این ایس کے بموجب مرکزی حکومت نے آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد وجود میں آنے والی دونوں ریاستوں( تلنگانہ اور آندھراپردیش) میں دستور کی دفعہ 371D برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاست کی تقسیم کی مخالفت کرنے والوں کا دعویٰ تھا کہ اس کیلئے دستوری ترمیم لازمی ہوگی، تاہم ایسا کچھ نہیں ہے۔ آندھراپردیش کی تنظیم جدید کا بل 2013ء کل ریاستی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ بل میں تجویز کی گئی ہے کہ مذکورہ دفعہ میں ترمیم کی جائے تاکہ دونوں نئی ریاستوں کے پسماندہ علاقوں میں تعلیم اور ملازمتوں کے مواقع کی مساویانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاسکے۔ مذکورہ دفعہ کی ترمیم کی تجویز کو ریاست کی تنظیم جدید بل کے مسودہ کا اگرچہ ایک حصہ بنایا گیا تھا تاہم ریاست کی تقسیم کی مخالفت کرنے والے قائدین اس سلسلہ میں دستوری ترمیم پرزور دے رہے ہیں، جس کیلئے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی تائید درکار ہوگی، اس کے علاوہ ریاستی مقننہ کے 50فیصد ارکان کی منظوری بھی ضروری ہے۔ درحقیقت چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی اور سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے ان کے کابینی رفقاء کو ہنوز اس بات کا یقین ہے کہ ریاست متحدرہے گی، کیونکہ یوپی اے حکومت پارلیمنٹ کی تائید سے دستوری ترمیم روبہ عمل لانے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ وزیر چھوٹی آبپاشی ٹی وی وینکٹیش کا کہنا ہے کہ حکومت تقسیم کے مسئلہ پر مزید پیشرفت نہیں کرسکتی، کیونکہ یہ یوپی اے حکومت کیلئے تقریباً ناممکن ہے کہ وہ دستوری ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی تائید حاصل کرسکے۔ پارٹی وابستگی سے بالاتر سیما آندھرا کے ارکان مقننہ ریاستی اسمبلی میں تلنگانہ مسودہ بل پر مباحث کے دوران یہ موضوع اٹھانے کیلئے کمر کس چکے ہیں۔ اس کے برعکس تلنگانہ کے حامی قائدین کا الزام ہے کہ چیف منسٹر اور سیما آندھرا کے وزراء عوام کو تذبذب میں ڈالنے اور انہیں گمراہ کرنے کیلئے غلط اطلاعات پہنچارہے ہیں۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی (ٹی آر ایس) قائدین کا استدلال ہے کہ دستوری ترمیم کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وزراء کے گروپ نے بھی جس نے تقسیم سے متعلق مختلف مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا تھا، دستور کی دفعہ 371D میں پارلیمنٹ کی منظوری اور ریاستی مقننہ کے 50فیصد ارکان کی تائید کے ساتھ ترمیم کیلئے وزارت قانون کی پیش کردہ تجویز کو مبینہ طورپر مسترد کردیا تھا۔ مسودہ بل کے حصہ میں اس موضوع کو "قانونی اور متفرق دفعات" کے عنوان کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ اس کے تحت دستور کی مذکورہ دفعہ میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے تاکہ ریاست تلنگانہ اور ریاست آندھراپردیش کے ناموں کو منظوری دی جاسکے۔ 1973ء میں 32ویں دستوری ترمیم کے دوران دستور ہند میں دفعہ 371D کی شمولیت عم میں لائی گئی تھی۔ یہ دفعہ صدرجمہوریہ کو ریاست کے مختلف حصوں میں بسنے والے شہریوں کو تعلیم اور ملازمتوں کے مساویانہ حقوق کی فراہمی کیلئے وقتاً فوقتاً ضروری احکام جاری کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ یہ ترمیم 21 ستمبر 1973ء کو ریاست کے قائدین کے درمیان ایک 6نکاتی فارمولہ پر اتفاق کے بعد عمل میں لائی گئی تھی۔ کیونکہ علیحدہ ریاست کے مطالبہ پر تلنگانہ اور بعدازاں آندھرا میں بڑے پیمانہ پرپر تشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔

AP Assembly proceedings disrupted over Telangana Bill issue

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں