آندھرا پردیش تقسیم کا مسئلہ سرمائی اسمبلی اجلاس پر شدید اثرانداز ہوگا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-12

آندھرا پردیش تقسیم کا مسئلہ سرمائی اسمبلی اجلاس پر شدید اثرانداز ہوگا

مرکز اگر ریاست آندھراپردیش کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کارروائی کو عملی جامہ پہنانے تو کل سے شرع ہونے والا ریاستی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس متحدہ آندھراپردیش کا آخری اجلاس ہوگا۔ قانون ساز بالخصوص ریاستی اسمبلی میں واحد امکانی ایجنڈہ اے پی تنظیم جدید بل 2013ء کے مسودہ پر ہوگا جسے صدرجمہوریہ نے تاثرات کے اظہار کیلئے دستور کی دفعہ 3 کے تحت رجوع کیا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ تبادلہ خیال یا مباحث تلخ ہوگا جبکہ مرکز کے فیصلے پر ریاست کی علاقائی تقسیم پر دونوں فریقین میں غصہ اور برہمی کے جذبات پائے جارہے ہیں۔ تنظیم جدید بل کے مسودہ پر مباحث کے اختتام پر رائے دہی نہیں ہوگی تاہم قانون ساز اسمبلی کے ذرائع نے بتایاکہ تاہم جو لوگ اس اقدام کی مخالفت یا تائید کرتے ہیں ان کا واضح طورپر شمار کیا جائے گا۔ اگرچیکہ ریاست کی تقسیم کے مرکزی فیصلے پر ارکان کی گنتی کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے تاہم چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی نے کھلے عام مرکز کو چیلنج کیا ہے کہ اسمبلی میں مسودہ کے استبداد کے بعد وہ پارلیمنٹ میں بل کو منظور کروائیں۔ ساحلی آندھرا اور رائلسیما علاقوں کا کلیدی حکمت عملی منصوبہ اس بات کو دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے قبل مرکز کو مسودہ نہ لوٹایا جائے تاکہ تقسیم کی کارروائی میں تاخیر کو یقینی بنایاجاسکے۔ تاحال ریاستی اسمبلی نے ریاست کی تقسیم یا اس کی مخالفت میں کوئی قرار داد منظور نہیں کی ہے۔ کسی ریاست کی تشکیل یا اس کی تقسیم کیلئے ایسی قرارداد دستور کے تحت ضروری نہیں۔ تاہم چیف منسٹر اور اپوزیشن قائد این چندرا بابو نائیڈو نے صدرجمہوریہ کو علیحدہ مکتوبات روانہ کرتے ہوئے انہیں سابقہ این ڈی اے حکومت کی قائم کردہ روایات کی یاد دہانی کی جو اس نے چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ جیسی نئی ریاستوں کے قیام میں ملوحظ رکھا تھا۔ انہوں نے صدرجمہوریہ کو بتایاکہ اگر آندھراپردیش کی تقسیم کرنا ہوتو مماثل روایت پر عمل کی ضرورت ہوگی۔ سیما۔ آندھرا کے قائدین اور عوام کو سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ مرکز متکبرانہ انداز میں ان کے اٹھائے ہوئے اندیشوں کو پوری طرح نظر انداز کرتے ہوئے تقسیم کی کارروائی میں پیشرفت کررہا ہے۔ ایوان میں ارکان کی تعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ ارکان کی اکثریت تقسیم کی مخالفت میں ووٹ دے گی خواہ یہ بات قرارداد کی ہو یا بل کے مسودہ کی۔ سیما۔ آندھرا کے فریقین کا تاثر ہے کہ اس کے نتیجے میں مرکز کے ہاتھ باندھ دئیے جائیں گے اور وہ تقسیم کی کارروائی میں پیشرفت نہیں کرسکے گا۔ آندھراپردیش اسمبلی میں ارکان کی تعداد 294 ہے۔ جبکہ 15نشستیں مخلوعہ ہیں جس کے سبب کانگریسی اور ٹی ڈی پی ارکان کو نا اہل قرار دئیے جانے کا اقدام ہے۔ مابقی دیگر ارکان 119 ارکان اسمبلی تلنگانہ کے ہیں اور اسپیکر کے بشمول 160 سیما۔ آندھرا سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیما آندھرا کے ارکان متحدہ آندھراپردیش کی تائید کررہے ہیں۔ منطقی اعتبار سے وہ تقسیم کی کسی بھی قرارداد کو شکست دیں گے۔ اس بات کے اظہار کے بعد چیف منسٹر مبینہ طورپر خانگی ارکان (انفرادی ارکان اسمبلی) کی جانب سے ریاست کی تقسیم کی مخالفت میں قرار داد پیش کروانے کے خواہاں ہیں۔ چیف منسٹر کے قریبی وزیرنے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ اس اقدام سے مرکز کا فیصلہ متاثر ہوگا تاہم اس کے نتیجے میں مسئلے پر مزید مباحث ہوں گے اور ایوان کے اجلاس کی معیاد میں توسیع ہوجائے گی۔ اس طرح سے ہم پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے اختتام سے قبل مرک سے بل کے مسودہ کو دوبارہ رجوع کرنے کے اقدام سے گریز کرسکیں گے۔ حکمراں کانگریس اور سرکردہ اپوزیشن ٹی ڈی پی میں تقسیم کے مسئلہ پر مکمل پھوٹ ہے۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی متحدہ ریاست کی تائید کررہی ہے جبکہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی، بی جے پی اور سی پی آئی پوری طرح تلنگانہ کی تائید کررہے ہیں۔ 7 رکنی مجلس اتحاد المسلمین اصولی طورپر متحدہ ریاست کی حامی ہے۔ مجلس نے رائل تلنگانہ ریاست کی متبادل کی تجویز پیش کی تاہم مرکز نے اسے پیش نہیں کیا۔ لہذا بل کے مسودہ پر مباحث کے دوران پارٹی کا موقف دیکھنا ہوگا۔ تلنگانہ کے حامی ارکان کی تعداد میں ایم آئی ایم کی جانب سے تقسیم کی مخالفت کی صورت میں مزید کمی ہوجائے گی۔ مزید پریشانی سے بچنے کیلئے حکمراں پارٹی مبینہ طورپر وفاداری کی حربہ استعمال کرتے ہوئے بل کیلئے سیما۔ آندھرا کے اپنے کم ازکم 25 ارکان کی تائید کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ اے آئی سی سی کے جنرل سکریٹری و آندھراپردیش کے امور کے انچارج ڈگ وجئے سنگھ 12اور 13 دسمبر کو اس مشن پر حیدرآباد میں کیمپ قائم کریں گے۔ پارٹی ذرائع نے یہ بات بتائی۔ کانگریس کا وقار داؤ پر ہے اور جبکہ پارٹی کے سیما۔آندھرا ارکان اسمبلی کا اس معاملہ سے سیاسی مستقبل وابستہ ہے۔

Bifurcation issue to hold sway over Andhra Pradesh winter session

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں