18/دسمبر نئی دہلی پی۔ٹی۔آئی
نوبل لاریٹ امرتیہ سین نے انفوسس کے سربراہ این نارائن مورتی کے اس نکتہ نظر کو رد کرتے ہوئے کہاکہ مابعد گودھرا تشدد نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ ہونا چاہئے، کہاکہ گجرات میں 2002ء میں ہوئے فسادات کا دہلی میں 1984ء کے مخالف سکھ فسادات سے تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اس حقیقت کو انتہائی شرمناک قرار دیا کہ 1984ء فسادات کے مرتکبین کو کیفر کردار تک نہیں پہپنچایا گیا۔ تاہم انہوں نے 1984ء کے فسادات اور گجرات میں چیف منسٹر نریندر مودی کے دور اقتدار میں ہوئے فسادات کو جداگانہ قرار دیا۔ امرتیہ سین نے کہاکہ کانگریس قائدین سونیا گاندھی، منموہن سنگھ اور راہول گاندھی جو آج انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، مخالف سکھ فسادات کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ کسی نے انہیں اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا ہے جب کہ گجرات میں جب فسادات ہوئے تو اس وقت مودی چیف منسٹر تھے۔ انہوں نے مزید کہاکہ مخالف سکھ فسادات ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کیلئے کانگریس کے فلسفہ میں کوئی جگہ ہو۔ انہوں نے این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ کانگریس میں سکھوں کو ہلاک کرنے جیسا کوئی فلسفہ نہیں پایا جاتا۔ دوسری طرف گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا انہیں دوسرے درجہ کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہنوز جاری ہے اور ختم نہیں ہوا ہے۔ امرتیہ سین نے کہاکہ نارائن مورتی ان کے بڑے اچھے دوست ہیں لیکن اس مسئلہ پر وہ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس استفسار پر کہ آیا حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مودی کی لہر چل رہی ہے۔ جو شاید ان معنوں میں ہے کہ پارٹی اب تھک چکی ہے۔ یہ دریافت کرنے پر کہ آیا ان کے خیال میں کانگریس کو راہول گاندھی کو اپنا وزارت عظمی امیدوار بنانے کا رسمی اعلان کردینا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ان (کانگریس) کے پاس حکمت عملی ہونی چاہئے۔ صرف انتخابات میں کامیابی کا وعدہ کرتے ہوئے الیکشن نہیں جیتا جاسکتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کانگریس نے اس مرتبہ انتخابات میں کامیابی کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی کامیابی کے بارے میں امرتیہ سین نے کہاکہ وہ اس کا خیرمقدم کرتے ہیں البتہ پارٹی کی کارردگی کے بارے میں وہ مشکوک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس معاملہ میں خوش ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایسا ہواہے اور دوسرے یہ کہ ہم ہندوستانی غیر ضروری طورپر مایوسانہ مزاج رکھتے ہیں اور اگر کسی چیز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے اچھی امید رکھی ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے لہذا دونوں نکات نظر سے میں خوش ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ان کے خیال میں دہلی میں عام آدمی پارٹی کے لئے چینلج بڑا آسان تھا اور انہیں توقع ہے کہ نئی پارٹی ہندوستانی سیاست میں ایک بڑی طاقت بنے گی۔1984 riots not comparable with post-Godhra violence: Amartya Sen
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں