اف یہ سردی ۔۔۔ ہائے یہ سردی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-24

اف یہ سردی ۔۔۔ ہائے یہ سردی

winter-climate-in-hyderabad-at-peak
شہر حیدرآباد میں گرم کپڑوں ، سویٹروں اور دیگر ملبوسات کی خریدی عروج پر
قیمتوں میں اضافہ کے باوجود لوگ خریداری پر مجبور

شہر میں موسم سرما کی آمد آمد ہے اور سردی کا عالم یہ ہے کہ لوگ اس سردی سے بچنے کی تدبیر کے بارے میں سوچنے لگے ہیں کیونکہ اس سال سردی نے تمام روایات کو خیرباد کردیا ہے ۔نومبر میں دسمبر اور جنوری جیسی سردی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور اس صورتحال نے شہریوں کو گرم کپڑوں اور سویٹر اور مفلر کی خریدی پر مجبور کردیا ہے درجہ حرارت میں اچانک کمی کے بعد گزشتہ ہفتہ سے ہی شہر کے مختلف علاقوں پتلی باولی‘کوٹھی‘ عابد س ‘ نامپلی ‘مہدی پٹنم ‘دلسکھ نگر اور سکندرآباد اسٹیشن کے قریب میں سویٹروں کے اسٹالس پر لوگوں کا ہجوم دیکھا جانے لگا ہے جہاں لوگوں کو بچوں بڑھوں سب کے لئے سویٹر خرید تے نظر آنے لگے ۔
حالیہ عرصے تک سویٹر اور مفلر کا کاروبار شمال مشرقی ریاستوں جیسے میگھالیہ اور میزورام کے باشندوں کے پاس تھا اور موسم سرما کے آغاز سے پہلے ہی یہ لوگ شہر میں جگہ جگہ اپنی دکانیں لگا لیتے تھے جہاں ہاتھ سے بنے ہوئے سویٹرس جو بالعموم گرم سمجھے جاتے تھے دستیاب ہوا کرتے تھے لیکن اب اس کاروبار پر بھی مقامی افراد کا قبضہ ہو چکا ہے جہاں ہاتھ سے بنے ہوئے سویٹر س کی بجاے مل میں تیار ہونے والے سویٹر س ملنے لگے ہیں ۔لدھیانہ کی اسول گارمنٹس کو سویٹرس تیار کرنی والی بڑی مل کا درجہ حاصل ہے ۔ قیمت کے اعتبار سے بھی یہ سویٹرس مہنگے اور عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہیں ۔مارکیٹ میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق سویٹرس کی قیمت 400روپیہ سے لیکر 600روپے کے درمیان ہے جبکہ بچوں کے سویٹرس کی قیمت 150روپے سے لیکر 300روپے ہے ۔قیمت کا دارومدار ڈیزائن اور سویٹر کے موٹائی پر منحصر ہے سر اور کانوں کو سردی سے بچانے والی ٹوپیوں کی قیمت60سے لیکر 100روپے پائی گئی جو سال گزشتہ کے مقابلہ میں 25تا30فیصد زیادہ ہے ، سردی کے جلدی شروع ہوجانے کی بنا کاروبار کرنے والوں کی بن آئی ہے اور وہ گاہک کو دیکھ کر قیمت اینٹھ رہے ہیں۔
پتلی باولی پر سویٹر کی خریدی میں مصروف پرانے شہر کے عبدالرزاق نے بتایا کے وہ اپنے ضعیف والد کے لئے سویٹر خرید رہا ہے جاریہ سال چونکہ سردی اچانک بڑھ گئی ہے وہ اپنے والد کے لئے جو روزانہ صبح چہل قدمی کے لئے گھر سے باہر نکلتے ہیں نیا سویٹر اور کان ٹوپ خریدنے پر مجبور ہے ۔انہوں نے بتایا کے گزشتہ سال ہی انہونے نے اپنے لئے اور اپنی والدہ کے لئے اسی علاقہ سے سویٹر خریدا تھا اس بنا وہ کہہ سکتے ہیں اس سال سویٹر کی قیمت کچھ زیادہ ہی ہے ۔اُپل کی رہنے والی سری لتا جو اپنے بچوں کے لئے سویٹر کی خریدی کر رہی تھی کہا کہ بچوں کی نشو و نما میں تیزی سے تبدیلی آنے کے سبب بچوں کے لئے ہر دو تا تین سال میں ایک نیا سویٹر خریدنا پڑتا ہے صبح سویرے اسکول جاتے ہیں اور گھر میں بھی سردی محسوس ہوتی ہے اسلئے بچوں کیلئے گرم کپڑے اور سویٹر خریدنا ضروری ہوجاتا ہے۔
سکندرآباد اسٹیشن کے پاس دس سال سے سویٹر کا کاروبار کرنے والے نرسمہا نے بتایا کے وہ عام دنوں میں ریڈی میڈ شرٹس اور بچوں کا کاروبار کرتے ہیں لیکن موسم سرما میں پورے تین ماہ صرف سویٹر اور مفلر اور کان ٹوپ کا کاروبار کرتے ہیں بیشترمال پنجاب اور دہلی سے آتا ہے وہ سال دو سال میں ایک بار دہلی جاکر مال کا آرڈر دیتے ہیں اور پھر ٹرانسپورٹ کمپنی سے مال چھڑاتے ہیں ۔انکا کہنا کے اچھے کاروبار کے دنوں میں ایک سویٹر پر انھیں 50تا 70روپے ملتے ہیں کسی سال سردی نہ ہو یا پھر کم ہو تو وہ مجبوراً سستے دام پر بیچ دیتے ہیں ۔ایک سال تک اسٹاک اُٹھا رکھنے میں کافی گھاٹا ہوجاتا ہے ایک یہ کہ ڈیزائن اور اسٹائل پرانا ہوجاتا ہے دوسرے چوہوں سے انکو بچائے رکھنا پڑتا ہے۔
عابڈس پر واقع ایک ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان پر سویٹر س کا سیل لگا دیکھا گیا جہاں نیم برانڈ کمپنیوں کے سویٹر س قیمتی داموں پر فروخت ہو رہے تھے عام بازار کی قیمت اور یہاں کے قیمت میں فرق پر پوچھے گئے سوال پر وہاں کے سیلز مین نے بتایا کے یہ خریداروں کی پسند ہے کچھ لوگ صرف نیم برانڈ ملبوسات ہی پسند کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس میں کوالٹی اور ڈیوریبلٹی کا بھی فرق ہوتا ہے جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔
موسم سرما میں سویٹرس کی خریدی میں اضافہ دیکھا گیا وہیں سردی سے بچانے والے ہیٹرس اور پانی گرم کرنے والے گیزرس کا کاروبار بھی بڑھ جاتا ہے الیکٹریکل اشیاکے کاروبار والے علاقہ تروپ بازار میں دکانات پر ہیٹرس اور گیزرس بڑی تعداد میں بک رہے ہیں ، ہیٹرس کی قیمتیں واٹس اور گیزرس کی قیمتیں لیٹر کے حساب سے اور کمپنی کے اعتبار سے مختلف ہیں چنانچہ اب شہریوں کو انکے استعمال پر برقی کے زائد بلز بھی ادا کرنے پڑینگے حالانکہ بالعموم لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے جو غلط بھی ہے کے گرمیوں میں ایئر کولیرس اور ایئر کنڈیشن کے استعمال کے سبب برقی کا بل زیادہ ہوتا ہے لیکن دیکھا جائے تو اب سرما میں بھی برقی کا کم و بیش اتنا ہی اور اس سے زیادہ ہی استعمال ہوتا ہے ایک وجہ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ موسم سرما میں دن چھوٹا اور رات بڑی ہونے کے سبب لائٹ کا استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے۔

سید زین العابدین

Winter climate in Hyderabad at peak. Article: Zainulabedin Syed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں