والدہ محترمہ -اردو- کی فریاد اپنے بچوں کے نام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-24

والدہ محترمہ -اردو- کی فریاد اپنے بچوں کے نام

ہم سب کی
والدہ محترمہ" اردو" کی فریاد
اپنے بچوں کے نام

میرے پیارے بچو!!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ'

تم کو میرے تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔اِس لیے کہ میں تمہاری ماں اْردو ہوں، پیارے بچو صدیاں بیت گئیں، میری گود میں ہزاروں کی تعداد میں شعراء وجود میں آئے، میری گود میں کھیلتے رہے۔کیا یہ عجیب بات نہیں کہ میں دن بہ دن جوان ہی ہوتی جارہی ہوں۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں کبھی بوڑھی ہوں گی ہی نہیں۔ہاں! کبھی کبھار میرے بچے مجھے تکلیف ضرور پہنچاتے ہیں۔
پیارے بچو!!
میں وہی اْردو ہوں جو تم دنیا میں آنے کے بعد پہلا لفظ جو "ماں" کہہ کر اپنی زبان سے ادا کرتے ہو، وہ میری ہی زبان ہے، لیکن اس وقت میں بڑی دکھی ہوں، اِس لیے کہ میرے بیٹے ہی میرا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ وہ اپنے اسلاف کو بھول رہے ہیں۔تمہیں معلوم ہے! امیر خسروجیسے بڑے شاعر میری ہی گود میں کھیل کر بڑے ہوئے اور علما ئے کرام تک بڑی عزت سے جن کا نام لیتے ہیں ۔ اُسی خسرونے ایک بارکہا تھا:
کسے پڑی ہے کہ جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
میں نے اپنے ہر بچے کو اپنا خونِ جگر دے کر پالا ہے اور میرا وہ بیٹا جسے ابراہیم ذوقؔ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،جس نے بر صغیر ہندوستان اور پاکستان میں اپنے اشعار کے ذریعہ دُھوم مچا رکھی تھی، وہ کہتے تھے :
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جا ئیں گے
میرے ان ہونہار بچوں کی فہرست تیار کرنا چاہوں،اوراگر میں دریا کو سیاہی بنا کر لکھتی جاؤں تو دریا کا پانی ختم ہو جا ئے گا، مگر میرے بیٹوں کے ناموں کی فہرست کبھی ختم نہیں ہو سکے گی۔میں نے غالبؔ جیسا قادر الکلام شاعر دنیا ئے اردو ادب کودیا اور میرے گود میں کھیل کا بڑا ہونے والا میرابیٹا میر تقی میر، اپنی ساری زندگی غم میں گزاردی۔کیوں کہ، جب اس کی بیٹی دلہن کے روپ میں اللہ کو پیاری ہو گئی تھی تو میرے بیٹے کوحد درجہ صدمہ ہواتھا۔اِسی عالمِ رنج و الم میں اُس نے کہاتھا:
اب آیا دھیان اے لخت جگر !اس نا مرادی میں
کفن بھی ساتھ دینا تھا اِسے اسباب شادی میں
وہ بیٹا ہمیشہ درد میں ڈوبا رہتا تھا۔ ظاہر ہے وہ ایک انسان ہی توتھا،بشرہی تو تھا۔ دل کو ایسی چوٹ لگی تھی کہ اللہ سے ناراضگی جتائی اوراس کے قلم سے یہ شعر نکل پڑا تھا۔ ان کے الفاظ تھے:
میر کے دین و مذہب کو تم پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
میرے اور کن کن جاں بازوں کا نام لوں،دامنِ قرطاس کی تنگی روک دیتی ہے۔میں کہتی ہوں کہ مجھے ہر وقت استعمال کیا گیا۔جب تم لوگ انگریزوں کے غلام تھے، تو لوگوں نے قربانیاں دیں۔ وہ بوڑھے جن کی سفید داڑھی دیکھ کر چاند بھی شرما جاتا تھا، ان کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا اور وہ بیٹیاں جن کے دو پٹے بے حرمتی کا ہدف بنے ،چشمِ فلک نے دیکھا کہ اُنہیں سر عام رسواء کیا گیا،وہ بھی ان کے باپوں کے سامنے اور وہ نوجوان لڑکے جو قوم کا اثاثہ تھے ، اِن کے سینے گولیوں سے چھلنی کر دئے گئے۔ کس کے لیے تھا یہ سب؟صرف تمہارے لیے !!جب جاکر تمہیں آزادی ملی۔ اس وقت میرے لعل علامہ اقبال کا قلم حرکت میں آیا۔ میرا یہ گہرایسے پُر جوش اشعار کہتا تھا کہ جوانوں کو ہمت وحوصلہ نصیب ہوتا۔ وہ کہتا تھا :انقلاب زندہ باد تو لوگ اس نعرے کو لے کر آگے بڑھتے اور جب تک آزادی نہیں ملی تب تک انہیں چین نہیں آیااور وہ خاموش نہیں بیٹھے اور اسی ہونہار بیٹے نے وہ اشعار دئے جن کے سبب تم سر اٹھا کر جی رہے ہو،وہ کہا کرتا تھا:
اگر جواں ہوں مری قوم کے جْسور و غیور!
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
اور ہمیشہ وہ کہتا تھا:
کیا حسن نے سمجھا ہے، کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
اور کتنے بیٹوں کے نام لوں۔کاغذ کا دامن تنک ہے ۔مولانا ابوالکلام آزاد نے تو ساری زندگی میری اطاعت و فرمانبرداری میں گزاری۔کبھی تمہارے لیے جیلوں میں گیاتو کبھی دور درا زکے علاقوں کے سفر کی صعوبتیں برداشت کیں تاکہ اپنی ماں اردو کی آواز بلند کر سکے۔یہاں تک کہ میرے اس قابل بیٹے نے قرآنِ کریم کا ترجمہ میری زبان میں پیش کیا اور اس کی تفسیر بھی لکھی، جو تم آج بھی پڑھتے ہو اور ہدایتِ اِلٰہی کے رموز و اسرار سے واقف ہوتے رہتے ہو۔ غیر مسلم تک تمہاری اِس مظلوم ماں اردو سے کتنی محبت کرتے ہیں اور کتنے ہی غیر مسلم شاعر ہیں، جنہیں فخر ہے میرے خدمت گار ہونے پر۔ لیکن آج تم لوگوں نے مجھے رْلاہی دیا۔مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ جب بچہ بولنے لگتا ہے تو" ماں" کہہ کر اپنی قوتِ گویائی کا آغاز کرتا ہے۔ لیکن تم ہو کہ اِسے اپنی ماں کو" ممی" کہنے کا درس دینے لگ جاتے ہو اور میں اِس منظر کو دیکھ کر رو پڑتی ہوں۔ جب بچے اپنے والد کو ابا جان کہہ کرپکارنے کی کوشش کرتے ہیں تو تم اس کو "ڈیڈی" کہنا سکھا تے ہو، تب تومیراکلیجہ منہ کو آتا ہے۔
اے میرے پیارے بیٹو !!
یہ تم میرا جنازہ نکالنے پر کیوں تلے ہوئے ہو۔یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟مجھے اللہ کے واسطے یوں رسواء مت کرو۔ آج میری حالت یہ ہے کہ میرا پرسانِ حال کوئی نہیں۔تم اپنے بچوں کو انگلش میڈیم میں ڈال کر اپنے آپ پر فخر محسوس کرتے ہو، لیکن تمہاری یہ ماں جوصدیوں سے تمہارے سروں پر اپنے سایۂ عاطفت کے ساتھ جوتمہارے لیے کھڑی ہوئی ہے، آج تم اس کے دل پر خنجر چلارہے ہو۔ گو کہ آج میرا گھر بہت بڑاہوگیا ہے ،اب تو ساری دنیا میرا گھربنی ہوئی ہے اور میں تم سب کو اپنی بانہوں میں سمیٹے ہوئے محوِ سفر ہوں۔ لیکن آج جب بھی میں اپنی اردو اسکولوں کو دیکھتی ہوں تو دِل خون کے آنسو روتا ہے۔ جب بھی میں اردو اسکول جاتی ہوں تواِن کے حال زار پر رو پڑتی ہوں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ میں نے تمہیں کتنے ہی" آئی اے ایس" آفیسرس دیے، ضمیر پاشاہ، انور پاشاہ، کتنے ہی محسن اور کتنے ہی آئی پی ایس افسر دیے۔ دامنِ قرطاس کی تنگی کے سبب یہ سب نام لکھنے سے قاصر ہوں۔ اُلفت حسین ،ڈاکٹر عبد السلیم، نثار احمد، وغیرہ ۔ کتنے ہی "کلاس ون" افسران ہیں جومیری گود میں پل کر بڑے ہوئے ۔آج یہی لوگ اپنے بچوں کو میری ان سکول میں داخل کرنے میں شرم محسوس کر رہے ہیں۔ ایک ماں کی آوازہے، میرے ان اسکولوں کی مرمت ہونا بہت ضروری ہے، ایک نیے سرے سے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب مجھے سہارا ملے۔
میں آج میں بہ طورِ خاص کرناٹک کے بیٹوں اور بیٹیوں سے مخاطب ہوں کہ اے میرے بیٹو اور بیٹیو!!!
آج کوئی بھی میرا بیٹا میرے ساتھ نہیں ہے۔ اگر اس مصیبت کی ماری ماں کا ساتھ دینے کے لیے کوئی آگے بڑھتا ہے توکس لیے تم پیچھے سے اس کی ٹانگیں کھینچتے ہو۔؟ میں یہ سارے گلے اس لیے کر رہی ہوں کہ شاعر کے الفاظ میں:
الٰہی شاد رکھ تو قوم کے ان نو نہالوں کو
کہ میں نے خون دے دے کر بڑے نازوں سے پالا ہے
پھر یہ بھی تم جانتے ہو کہ میں نے تمہارے واسطے کتنے شعراء دیے، جن کے کلام سے تم لطف اندوز ہو رہے ہو۔آج میں ایک اور بیٹے کا بہ طور خاص ذکر بڑی اُمنگ کے ساتھ کرنا چاہتی ہوں۔اللہ میرے اِس بیٹے کی عمر دراز کرے۔ آمین۔ یہ وہی بیٹا ہے جسے تم لوگ عزیز بلگامی کے نام سے جانتے ہو ۔میرا یہ لاڈلا چالیس سالوں سے میری خدمت میں مصروف ہے۔ آج میرے اس جگر کے ٹکڑے کو میری اکادمی یعنی کرناٹک اردو اکادمی کا چیرمین بنانے سے تم کیوں روکنا چاہتے ہو۔ تم جہاں کہیں بھی اُسے بلاتے ہو ،وہ میرا لعل اپنی فطری سادگی کے ساتھ بڑے ادب کے ساتھ کسی اسکول کے بچے کی طرح تمہاری طرف چل کر نہیں دوڑ کر آتا ہے تاکہ تمہاری خدمت میں حاضری دے سکے۔میرا یہ بیٹا اپنی سریلی آواز میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں نعت چھیڑ دیتا ہے تو ایک سما ں سا بندھ جاتاہے اور پھر تو فرمائشوں کے تم انبار لگا دیتے ہو۔ تم فرمائش کرتے ہوئے تھک جاتے ہو، لیکن میرے جگر کا ٹکڑا گلاب کے پھول کی طرح ہمیشہ مسکراکر پڑھتے ہوئے کبھی نہیں تھکتا۔ لیکن آج جب مجھے اِس بیٹے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو تم اپنی ضرر رساں سیاست کرتے ہوئے اِسے پیچھے دھکیل رہے ہو۔ یاد رکھو یہ تمہاری ماں کا دِل ہے اور ماں کا دِل کبھی بد دعا نہیں دیتا۔ لیکن کم از کم اللہ سے تو ڈرو۔!! میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میری گود میں پرورش پانے والے کتنے ہی بڑے شعراء گزرے۔ اُنہوں نے تو کبھی میرے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھا، انہوں نے مجھے ہمیشہ جوان رکھا۔ اور تم ہو کہ میری جان لینے پر تُلے ہوئے ہو۔ اب تمہاری ماں کو کرناٹک میں سہارے کی ضرورت ہے۔ مجھے سہارا دو۔ مجھے اِس جگر کے ٹکڑے کی ضرورت ہے۔ میں میرے تمام بیٹوں سے یہ عاجزانہ گزارش کرتی ہوں کہ میرے نورِ نظر عزیز بلگامی کو چیرمین بنا کر اس ماں کی محبت کا ثبوت دو ۔
میرے پیارے بیٹو!!!
کہیں ایسا نہ ہوجیسا کہ تمہارے بڑے بھائی اقبالؔ نے کسی وقت کہا تھا:" تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں"۔ اس لیے مجھے بچا لو اور میرے لعل عزیز بلگامی کو چیرمین کا عہدہ دے دو۔ کتنا بھولا ہے، میرا عزیز ۔چالیس سال سے میری خدمت میں لگا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو آئی اے یس افسر بن کر اپنی دنیا بنا سکتا تھا، لیکن میرے لعل کو تمہاری فکرہے اورمیری محبت کے حوالے سے وہ تمہاری خدمت کے لیے خود کو وقف کرچکا ہے۔آج بھی میرا لعل کسی مشاعرے کو جاتا ہے، تو اپنے گلے میں ایک سائیڈ بیگ ڈال کر کچھ اس انداز سے نکلتا ہے کہ چار سٹانڈرڈ یعنی چوتھی یا پانچویں جماعت کا کوئی بچا اسکول جارہا ہو اور پھر میری زبان کی کرنیں بکھیرتا چلا جاتا ہے۔
میرے پیارے بیٹو !
آخر میں ایک بات کہہ د ینا چاہتی ہوں۔جیسا کہ تم سب گواہ ہو، میں گھٹ گھٹ کر مر رہی ہوں، آج میری چادر بیچی جا رہی ہے، آج میرا مذاق اڑانے میں بھی کسی کو جھجک نہیں ہوتی۔ آج تمہاری ماں کی عزت پر حملے ہو رہے ہیں اور تم چپ ہو۔ اگر فی الواقع تم سب مل کر میری سلامتی چاہتے ہو تو اس مظلوم ماں کی بات مان لو اور عزیز بلگامی کو چیرمین بنادو، اگر ایسا نہیں ہوا،یا یہ عہدہ کسی دوسرے کے ہاتھ لگ گیا تو پھر تمہاری ماں جیتے جی مر جائے گی، میں اُمید کرتی ہوں کہ تم سب اپنی ماں کے تحفظ کے لیے عزیزبلگامی کو، جو ہر دلعزیز شاعر و ادیب ہے ، جو بڑے کمالات اپنے اندر رکھتا ہے، چیرمین ضرور بناؤگے، ورنہ تمہاری یہ مظلوم ماں خون کے آنسو روتے ہوئے ،تڑپ تڑپ کر کرناٹک میں جان دے دے گی۔

فقط تمہاری مظلوم ماں
اردو

The crying of mother Urdu. Article: Tanziya Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں