اردو روزنامے - آغاز و ارتقا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-15

اردو روزنامے - آغاز و ارتقا

indian urdu news papers
صحافت، بنیادی طور پر فن ابلاغ ہے ، یہ ابلاغ کا وہ مستند ذریعہ ہے جو عوام کو حالات اور واقعات کا شعور بخشتا ہے۔ چونکہ موجودہ دور ابلاغیات کا دور ہے ۔ اسی لئے مختلف نظام ، نظریات اور اقوام ابلاغیات کے محاذوں پر ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔ اسلئے ہر ملک کے یہاں ابلاغیات کا ایک مضبوط اور وسیع نظام ہو، تاکہ عالمی گاؤں میں وہ خود کو تنہا نہ محسوس کرے ۔
ہندوستان کا پہلا باعدہ اخبار ہکیز بنگال گزٹ یا کلکتہ جنرل اڈورٹائزر 29جنوری 1780ء کو کلکتہ سے جاری ہوا ۔ جس کا ایڈیٹر اور مالک جیمس آگسٹس ہکّی تھا ۔ یہ بھی حسین اتفاق ہے کہ اردو کا پہلا اخبار کلکتہ سے ہی 27مارچ 1822ء میں منشی سداسکھ کی ادارت میں شائع ہوا ۔ پھر اس کے بعد ملک کے مختلف علاقوں سے اخبارات جاری ہونے لگے ۔
اخبار دراصل عربی زبان کا لفظ ہے ، جو خبر کی جمع ہے ۔ ابتداء میں لفظ قلمی خبر ناموں کیلئے استعمال ہوتا تھا جو ظہور اسلام سے قبل ایران کے شہنشاہوں کے دور میں رائج تھے ۔ اخبار کے تحت روزنامے ، سہ روزہ اور ہفت روزہ کا شمار ہوتا ہے۔ کچھ لوگ پندرہ روزہ کو بھی اخبار کہتے ہیں ۔ روزنامے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہفتہ میں کم از کم پانچ شمارے جاری ہوں۔ سہ روزہ اخباروں کا چلن اب نہیں رہا بہت کم سہ روزہ شائع ہورہے ہیں جبکہ ہفت روزہ میں دلچسپی کا سامان ہوتاہے ۔
اردو میں روزناموں کی ابتداء "اردوگائیڈ" سے ہوتی ہے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اردو روزنامہ کا آغاز بھی شہر کلکتہ سے ہوا ۔ یہ اخبار 1858ء کو مولوی کبیر الدین احمد بہادر نے جاری کیا تھا۔ اختر شہنشاہی کا بیان ہے کہ یہ دو ورق کلاں پر مشتمل ہوتا تھا اور ٹائپ میں طبع ہوتا تھا ۔
"اردو گائیڈ" کے مہتمم عزیز الباری تھے اور یہ مطبع۔ مظہر العجائب میں چھپا کرتا تھا ۔ کچھ محققین نے "اودھ اخبار" کو اردو کا پہلا روزنامہ بتایا ہے جو غلط ہے ۔ گوکہ " اودھ اخبار" کو 1858ء میں لکھنو سے منشی نول کشور نے جاری کیاتھا مگر اس وقت یہ ہفت روزہ تھا جبکہ 1874ء میں یہ روزنامہ بنا ۔ اس طرح سے "اودھ اخبار" اردو کادوسرا روزنامہ قرار پاتا ہے ۔ اس کے تقریباً ایک سال بعد یکم جنوری 1875ء کو اردو کا تیسرا روزنامہ "روزنامچہ پنجاب" لاہور سے جاری ہوا جس کے مالک خواجہ احمد حسن تھے ۔ یہ لاہور کا پہلا اردو روزنامہ ہے ۔ اس کے بعد لاہور سے ہی دوچار اخبارات جاری ہوئے جو بعد میں روزنامے میں تبدیل ہوگئے ۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے اپنی تصنیف صحافت پاکستان میں لکھتے ہیں کہ "1884ء میں منشی مہربخش نے 'شفیق ہند' کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کیا اور یہی ہفت روزہ ایک "زنجیر" کی صورت اختیار کرلیا اور اس کے ساتھ 'شام وصال' اور 'نسیم صبح 'کے نام سے دو روزنامے نکل آئے ان سب اخباروں کی ادارت مولوی سیف الحق ادیب دہلوی کے سپرد تھی ۔ 'شام وصال ' دو چھوٹے ورقوں پر مشتمل ہوتا تھا اور ہر روز شام کو نکلتاتھا ۔ یہ اردو کا پہلا شامنامہ قرار پاتا ہے ۔ ان ہی دنوں مولوی محرم علی چشتی نے "رفیق ہند" جاری کیا جو ہفتہ میں دوبار شائع ہوتا تھا ۔کچھ دنوں بعد یہ روزنامہ ہوا ۔ چند ماہ بعد ایڈیٹر نے اعلان کیا کہ اگر خریداروں کی تعداد دو سو نہ ہوئی تو ہم روزآنہ اشاعت بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ آخر کار 3جنوری 1885ء کو روزآنہ اشاعت بند ہوئی اور یہ ہفتہ میں تین بار نکلنے لگا اور کافی عرصہ تک جاری رہا۔
کلکتہ سے "اردو گائیڈ" کے بعد "آئینہ نمائش" 15ڈسمبر 1883ء کو جاری ہوا جس کے مالک مولوی غلام صمدانی تھے جو ایک بڑے ورق پر مشتمل ہوتا تھا اور اس کا چندہ ماہانہ ایک روپیہ دو آنے تھا ۔ 26اپریل 1885ء کو کلکتہ سے ہی ایک اور روزنامہ " پیک صبا" جاری ہوا جس کے مالک عمر حمد ناخدا تھے اور ادارت سید عبدالرحیم کے سپرد تھی ، اس کاماہانہ چندہ چھ روپئے تھا ۔
"قیصر الاخبارہند" الہ آباد سے جاری ہونے والا روزنامہ ہے جسے سراج الدین احمد خان نے 1877ء میں جاری کیا جو اتوار کے سوا ہر روز مہیا تھا ۔ الہ آباد سے ہی مولوی شیخ ریاض الدین احمد نے " روزنامچہ عالم" 1884ء میں جاری کیا جبکہ لکھنو میں اودھ اخبار کے بعد "روزنامچہ لکھنو" 1882ء کو جاری ہوا جس کے مدیر سید عبدالبصیر حضور بلگرامی تھے ۔ لکھنو کا ایک اور روزنامہ "روزآنہ" تھا جو 1885ء میں جاری ہوا ۔ روزآنہ کے مالک حاجی تیغ بہادر تھے اور ادارت منشی محمد علی خان عرشی کے ذمہ تھی ۔ کچھ ہی دنوں قبل منشی کشن سروپ نے 1883ء میں بمبئی سے روزنامہ "خادم ہند" جاری کیا تھا۔
جنوبی ہند میں حیدرآباد اور مدراس اردو ادب کے بڑے مراکز تھے ۔ خصوصاً حیدرآباد میں اردو شعر و داب کی سرپرستی کی جاتی رہی ہے ۔ جنوبی ہندوستان میں بھی اردو صحافت ترقی پذیر رہی ۔ مدراس کا پہلا روزنامہ "اتحاد" ہے جو 1884ء میں سہ روزہ کی حیثیت سے جاری ہوا اور 1885ء میں روزآنہ ہوا ۔ روزنامہ"اتحاد" کو مدراس کے امراء و روساء کی سرپرستی حاصل تھی۔
حیدرآباد دکن سے کئی ایک اخبارات جاری ہوئے ۔ "پیک آصفی" حیدرآباد دکن کا پہلا روزنامہ ہے جو جنوری 1884ء میں جاری ہوا ۔ اس اخبار کے مالک مولوی سعید احمد زید بلگرامی تھے۔ جب کہ سید امجد علی اشہری کی ادارت میں 1888ء میں "سفیردکن" روزنامہ جاری ہوا لیکن انیسویں صدی کا اہم روزنامہ "مشیردکن"ہے ۔ ابتداء میں ہفت روزہ کی شکل میں 1887ء میں پنڈت کشن راؤ نے جاری کیا تھا ۔ یہ دکن کا واحد اردو روزنامہ تھا جو بلالحاظ مذہب و ملت پڑھا جاتاتھا اور ملک و قوم کا ترجمان تصور کیا جاتا تھا ۔ "مشیردکن" کی انفرادیت یہ رہی تھی کہ اس میں طویل اداریوں کے بجائے مختصر ادارتی نوٹ شائع ہوا کرتے تھے ۔
انیسویں صدی کے اختتام میں دو بڑے روزنامے ملتے ہیں جنہیں جدید صحافت کے علم بردار کہا جاتا ہے ۔ "اخبارعام" اور "پیسہ اخبار" یہ دونوں اخبار ہفت روزہ کی صورت میں منظر عام پر آئے لیکن بعدمیں روزنامہ میں تبدیل ہوگئے ۔ "اخبار عام" کے مالک پنڈت قلندر رام اورمدیر پنڈت گوپی ناتھ تھے جب کہ "پیسہ اخبار" کی ملکیت اور ادارت منشی محبوب عالم کے سپرد تھی ۔ ان دونوں اخباروں میں اشتہارات کی بہتات تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کی قیمت صرف ایک ایک پیسہ تھی ۔
"اخبار عام" یکم جنوری 1871ء کو ہفت روزہ کی صورت میں جاری ہوا ،پھر سہ روزہ ہوگیا اور انیسویں صدی کے آخر میں روزنامہ بن گیا ۔ چند سال بعد سہ روزہ ہوگیا پھر 1920ء میں روزنامہ ہوا۔ پھر ایک سال بعد سہ روزہ میں تبدیل ہوا اور آخر کا 1930ء میں بند ہوگیا۔ اخبار عام، خبروں اور تبصروں کے لحاظ ہی سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی اردو صحافت کے جدید دور کا نقیب اول تھا کہ اس نے ایک پیسہ قیمت رکھ کر اور سادہ زبان استعمال کر کے اخبارات کو عوام تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ۔ منشی محبوب عالم نے "پیسہ اخبار" جاری کر کے "اخبار عام" کی چمک کو متاثر کرنے کی کوش کی تھی ۔ گو کہ پیسہ اخبار1887ء میں جاری ہوا لیکن صدی کے آخر میں روزنامہ بن گیا ۔ اور اس کی ہر دلعزیزی اتنی بڑھی کہ "اخبار عام" بھی ماند پڑگیا ۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کا کہنا ہے کہ پیسہ اخبار میں اخباریت غالب تھی ۔ مضامین اور ادارے ان موضوعات پر لکھے جاتے تھے جن کا لوگوں کی روزمرہ زندگی کے مسائل سے تعلق تھا ۔ پیسہ اخبار تجارتی اصولوں پر چلایا گیا ۔ قیمت کم تھی اس لئے دیگر اخبارات سسک سسک کر مرگئے ۔ لیکن یہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ زندہ رہا ۔
بیسویں صدر کا آغاز بڑا ہنگامہ خیز رہا۔ نئی جماعتیں بنیں ، نئی تحریکیں پروان چڑھیں، برعظیم کی سیاست اور رائے عامہ میں انقلابی تبدیلی واقع ہوئی اور ان کی کوکھ سے ایک نئی صحافت نے جنم لیا ۔ پہلی جنگ عظیم نے عالمی سیاست پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں پیدا کیں ۔ وہیں ہندوستانی سیاست نے بھی ایک نئی کروٹ لی۔ تحریک آزادی میں شدت پیدا ہوگئی ۔ اردو صحافت کے اُفق پر مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان ، مولاناآزاد اور مولانا حسرت موہانی جیسے بے باک ادیب اور نڈر صحافی نمودار ہوئے ۔ اس صدی کے آغاز میں صرف تین روزنامے تھے ۔ "پیسہ اخبار ، اودھ اخبار اور صلح کل" تینوں نرم سیاست کے قائل تھے ۔ 1902ء میں مولوی انشاء اللہ خان نے لاہور سے ہفت روزہ "وطن" جاری کیاجو سیاسی تقاضوں کو پورا کرنے لگا ۔ 1915ء میں یہ روزنامہ ہوا لیکن ہم عصر اخباروں کے مقابلے میں ٹک نہ سکا ۔
لالہ دیناناتھ نے آریہ سماج کو فروغ دینے میں نمایاں رول ادا کیا ہے ۔ اس کے لئے انہوں نے کئی ایک اخبار کی ادارت سنبھالی ۔یہ ایک ہردلعزیز صحافی تھے یہ جس اخبار سے بھی وابستہ ہوتے اس اخبار کی اشاعت بڑھ جاتی ۔ ان کا اخبار"ہندوستان" کافی مشہور ہوا ۔ پھرانہوں نے ہندوستان کا ایک روزآنہ ایڈیشن "دیپک" جاری کیا جس کی اشاعت بھی خاصی تھی ۔ پھر انہوں نے ایک اور روزنامہ "دیش" جاری کیاجو کچھ دنوں تک جاری رہا ۔
"زمیندار" کا تذکرہ کئے بغیر اردو روزناموں کی تاریخ ادھوری اور نامکمل رہے گی ۔ گوکہ "زمیندار" ہفت روزہ کی شکل میں 1903ء میں مولوی سراج الدین نے جاری کیا لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کے لائق سپوت ظفر علی خان "زمیندار" کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی ۔ مولوی سراج الدین نے اپنے انتقال سے قبل اپنے بیٹے سے وصیت کی کہ "بیٹا! جو پودا میں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے وہ میرے بعد مرنے نہ پائے"۔مولانا ظفر علی خان نے اپنے والد کے اثاثہ کو خوب سنبھال کر رکھا اور جب جنگ طرابلس کا آغاز ہوا تو ظفر علی خان نے " زمیندار" کو ہفت روزہ سے روزنامہ کردیا۔
"زمیندار" اردو کا پہلا اخبار تھاجس نے رائیٹر اور اسوسی ایٹیڈ پریس آف انڈیا سے خبروں کے حصول کا اہتمام کیا کرتا تھا ۔ دنیائے اسلام کی خبریں خصوصی طور پر شائع کی جاتی تھیں۔ مولانا کی روح پرور نظمیں، زبردست مقالات اور خبروں کی فراہمی کے اعلیٰ انتظام نے ہندوستان اور بالخصوص پنجاب کے عوام میں اخبار بینی کا ذوق پیدا کیا اور مسلمانوں کے اتحاد کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ۔ " زمیندار" جیسی مقبولیت ہندوستان کے کسی بھی زبان کے اخبار کو نصیب نہ ہوئی تھی کیونکہ جب سرحدی علاقے میں "زمیندار" پہنچتا تو ان پڑھ لوگ ایک آنہ دے کر اخبار خریدتے اور ایک آنہ دے کر پڑھواکر سنتے ۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے اپنی تصنیف"صحافت پاکستان و ہند" کے ص 358 پر لکھتے ہیں:
"۔۔۔مولانا ظفر علی نے اردو صحافت میں ایک وجاہت پیدا کی اس کی نوک پلک درست کی ، افتتاحیہ نگاری اور شذرہ نویسی میں ایک نئے اسلوب کی تخلیق کی ، دلیل کے ساتھ ساتھ ادبی رنگ کے تبصرے کو رواج دیا، موضوعات میں تنوع پیدا کیا اور سیاسی شاعری اس گھن گرج سے شروع کی کہ لوگ یہی سمجھنے لگے کہ اس کا آغاز مولانا کے قلم سے ہوا۔ انہوں نے ادارتی صفحے کا نیا نقشہ مرتب کیا ، اسے زیادہ دلچسپ بنایا اور اس طرح زیادہ قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے سچ مچ کا اخبار تیار کیا۔"
اردو میں روزنامہ صحافت کو آگے بڑھانے میں مولانا محمد علی جوہرؔ کا بھی یادگار کردار رہا ہے ۔ مولانا جوہر بھی حسرت موہانی اور ظفر علی خان جیسے گریجویٹ تھے ۔ ان لوگوں نے صحافت کو ایک معزز پیشہ بنایا تھا ۔ مولانا جوہر آکسفورڈ کے گریجویٹ تھے اردو اور انگریزی پر زبردست عبور رکھتے تھے ۔ انہوں نے نہ صرف انگریزی ہفت روزہ "کامریڈ "جاری کیا بکہ اردو میں روزنامہ "ہمدرد" بھی نہایت شان و شوکت کے ساتھ 1913ء میں جاری کیا ۔
"ہمدرد" ان دنوں منظر عام پر آیا جن دنوں ملک کے طول و عرض میں"زمیندار" کی حکمرانی تھی ۔ اس کے باوجود ہمدرد ، زمیندار سے بالکل مختلف تھا ۔ اس نے سنجیدہ اور مدلل صحافت کا رُخ اپنایا ۔ رائے عامہ کی عکاسی ہی نہیں بلکہ رہنمائی بھی کی ۔ بلاشبہ "زمیندار" نے پاپولر جرنلزم ( عوامی صحافت) کو فروغ دیا تو 'ہمدرد' نے کوالیٹی جرنلزم ( معیاری صحافت) کو رائج کیا۔ ان دونوں روزناموں نے اس دور کے قارئین کی ضرورتوں کو پورا کیا۔ میندار میں نیاز فتح پوری، مولانا عبداللہ ، منشی وجاہت حسین، وحید الدین سلیم پانی پتی، عبدالمجید سالک اور غلام رسول مہر جیسی شخصیتوں نے کام کیا جب کہ "ہمدرد" میں سید ہاشمی فریدآبادی، قاضی عبدالغفار، سید جالب دھلوی، عبدالحلیم شرر اور میر محفوظ علی جیسے ادیب اور صحافی موجود تھے۔ بہرحال "زمیندار" اور "ہمدرد" نے اردو میں روزناموں کی ایک نئی تاریخ کو رقم کیا ہے ۔ اس لئے جلیان والا باغ کاقاتل گورنر پنجاب مائیکل ایڈوائیر نے کہا تھا کہ ظفر علی خان اور محمد علی جوہر ماں کے پیٹ سے بغاوت کا قلم لیکر نکلے ہیں ۔ انگریز دشمنی ان کی فطرت میں شامل ہے ۔ کوئی عام منصوبہ شروع کرنے سے پہلے ان کو گرفتار کرنا ضروری ہے ۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ بیسویں صدی اردو میں روزناموں کی صدی ہے ۔ ملک کے مختلف علاقوں سے اردو روزنامے جاری ہونے لگے ۔ مولوی انشاء اللہ خان نے لاہور سے ہفت روزہ 1902ء میں جاری کیا جو 1915ء میں روزنامہ ہوا لیکن ہم عصر روزناموں میںیہ زیادہ دن نہیں چل سکا۔ مولانا سید حبیب نے 1919ء میں لاہور سے ہی روزنامہ "سیاست" جاری کیا ۔ قومی تحریکوں میں حصہ لینے کی وجہ سے یہ روزنامہ چل پڑا ۔ ان دنوں میں اردو صحافت دو بڑے گروہ میں بٹ گئی ۔ ایک گروپ ان اخباروں کا تھا جن کے مالک اور ایڈیٹر مسلمان تھے اور وہ ہر سطح پر مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے ۔ دوسرا گروپ ان کے لیے مخصوص تھا جن اخباروں کے مالک یا ایڈیٹر ہندو تھے اور یہ اپنے اخبار میں مسلمانوں کے نظریات اور مطالبات کا زبردست مضحکہ اُڑایا کرتے تھے ۔ مسلمانوں میں علحدگی کی سیاست کو پروان چڑھانے میں ان ہندو صحافیوں کا زبردست رول رہا ہے ۔ اس ضمن میں مولانا سالکؔ نے یہاں تک لکھا کہ " بندے ماترم کے سوا باقی تمام ہندو روزنامے پرلے درجے کے زہریلے فرقہ پرست تھے اور ہر روز مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے تھے۔۔۔
" اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ پاکستان کے قیام کی بنیاد کب رکھی گئی تو میں بلاخوف تردد کہوں گا جس دن ملاپ اور پرتاپ لاہور سے جاری ہوئے کیونکہ یہی دو پرچے تھے جنہوں نے سب سے پہلے دو قومی نظریہ کو عملاً پیش کیا۔۔۔"
( مشمولہ صحافت پاکستان و ہند ص 435)
مہاشہ کرشن نے 1919ء میں روزنامہ "پرتاپ" جاری کیا جو آج بھی جاری ہے ۔ یہ روزنامہ سیاسی طور پر انگریز دشمن تھا لیکن مذہبی طورپر آریہ سماج کا ترجمان تھا۔ انہوں نے اداریہ نگاری میں کمال پیدا کیا ۔ ان کے خیالات اختلاف ممکن ہے لیکن ان کی طرز نگارش اور طرزِ استدلال سے انکار ناممکن ہے ۔ مہاشہ خوشحال چند بھی آریہ سماج کے کارکن تھے ۔ انہوں نے 1923ء میں لاہور سے روزنامہ "ملاپ" جاری کیاجو تقسیم ہند کے بعد دلی منتقل ہوا ۔ اس وقت دلی کے علاوہ جالندھر اور حیدرآباد سے ہندی میں شائع ہوتا ہے ۔ لالہ لاجپت رائے نے 1920ء میں ہی لاہور سے روزنامہ "بندے ماترم" جاری کیا۔
"زمیندار" کے بند ہونے کے بعد مولانا عبدالمجید سالک اورمولانا غلام رسول مہر نے ایک روزنامہ "انقلاب" جاری کیا ۔ اداریہ نگاری کے معاملے میں "انقلاب" نے اداریہ نگاری کے فن کو خوب نکھارا ۔ مولانا مہر کا اسلوب نگارش داد کے قابل ہے ۔ اس کے علاوہ "افکار و حوادث" کے نام سے مزاحیہ کالم نے انقلاب کو خوب شہرت عطا کی۔ مولانا مکیشؔ نے 1934ء میں ایک روزنامہ "احسان" جاری کیا جسے علامہ اقبال کی سرپرستی حاصل تھی ۔ یہ اردو کا پہلا اخبار تھا جس نے اپنے دفتر میں ٹیلی پرنٹر نصب کیا تھا ۔ عبدالرزاق ملیح آبادی نے کلکتہ روزنامہ "ہند" جاری کیا جس کا نام بعد میں "ہندجدید" پھر "روزآنہ ہند" ہوا ۔ "آزاد ہند" کلکتہ کا آج بھی مشہور روزنامہ ہے ۔ ان ہی دنوں مختلف شہروں سے کئی روزنامے شائع ہوئے ۔ جن میں شہباز، پربھات ، اجیت ، ملت قابل ذکر ہیں لیکن پنڈت نہرو کا جاری کردہ روزنامہ "قومی آواز" نے اپنی الگ پہچان بنائی ۔ قومی آواز کے ایڈیٹر حیات اللہ انصاری تھے ۔ یہ اخبار لکھنو ، دلی اور پٹنہ سے بیک وقت شائع ہونے لگا ۔ اس کے علاوہ 1934ء سے لاہور سے جاری ہونے والا روزنامہ "نوائے وقت" اپنے دور کا مشہور روزنامہ ہے جس کے ایڈیٹر حمید نظامی تھے ۔
حیدرآباد دکن اردو صحافت کے معاملے میں کافی زرخیز ثابت ہوا ہے ۔ 1920ء میں "رہبر دکن " جاری ہوا ۔ جو پولیس ایکشن(1948) کے بعد "رہنمائے دکن" کے نام سے 1949ء میں جاری ہوا ۔ سید لطیف الدین قادری کی ادارت میں اس اخبار کو کافی شہرت ملی تھی ۔ ان کے انتقال کے بعد سید وقار الدین اس کے ایڈیٹر ہیں ۔ آج بھی یہ اخبار پابندی سے شائع ہوتا ہے ۔ 1935ء میں قاضی عبدالغفار نے روزنامہ "پیام" حیدرآباد سے ہی جاری کیا ۔ لیکن یہاں کا مشہور روزنامہ "سیاست" ہے جو 1949ء میں عابد علی خان کی ادارت میں جاری ہوا ۔ محبوب حسین جگرؔ اس کے جوائنٹ ایڈیٹر تھے ۔ یہ اخبار آج بھی پورے شباب پر ہے ۔ یہ اخبار دکن میں اور خلیجی ممالک میں بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ روزنامہ ملاپ اور نوید دکن بھی کچھ نہ کچھ شہرت حاصل کی ہے ۔"پیاز کے چھلکے" ملاپ کا مشہور کالم تھا۔
آزاد ہندوستان کے بعد اردو صحافت نے تکنیکی اور فنی طور پر خوب ترقی کی ۔ پنجاب کا "ہند سماچار" اردو کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا روزنامہ بن گیا تھا۔ بمبئی کا "انقلاب" اور "اردو ٹائمز" نے بھی اپنے قارئین کو باشعور بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مدراس کا "مسلمان" ، بنگلور کا "سالار" کلکتہ کا "آزاد ہند" دلی اور پٹنہ کا "قومی آواز" نے اردو صحافت کے فروغ میں نمایاں رول انجام دیا ۔ حیدرآباد سے 1979ء میں جاری ہونے والا روزنامہ"منصف" محمود انصاری کی ادارت میں جاری ہوا لیکن گذشتہ ایک دہے سے مشہور این آر آئی خان لطیف خان نے اس اخبار کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور اردو صحافت کو چار چاند لگ گئے۔ آج روزنامہ "منصف" ایک رنگین مصور روزنامہ ہے جس کی کمپوزنگ اور طباعت کسی بھی زبان کے بڑے اخبار کے معیار کی ہے ۔ روزنامہ "منصف" نے اردو صحافت اور اردو صحافی کو ایک ممتاز مقام عطا کیا ۔ روزآنہ یہ تقریباً سولہ صفحات پر شائع ہوتا ہے ۔ روزآنہ کے خصوصی ایڈیشن لاجواب ہیں تبھی تو آج یہ ہندوستان کا سب سے بڑا اردو روزنامہ بن گیا ہے ، لیکن ہندوستان کے کسی اور روزنامے کی اشاعت ایک لاکھ تک نہیں پہنچ پائی ہے ۔
حیدرآباد سے کئی ایک روزنامے شائع ہوتے ہیں لیکن عوام کے مطالعے میں تین چار بڑے اخبار ہی ہیں ۔ گدشتہ دنوں مجلس اتحاد المسلمین نے اپنا ایک ترجمان روزنامہ "اعتماد" جاری کیا ہے ۔ یہ بھی رنگین اور مصور روزنامہ ہے ۔ "اعتماد" کی نہایت نفیس طباعت ، قارئین کا دل موہ لیتی ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سارے ہندوستان میں اردو کے بہترین روزنامے حیدرآباد ( دکن) سے ہی شائع ہوتے ہیں ۔ روزنامہ سیاست ، منصف ، رہنمائے دکن اور اعتماد اور راشٹریہ سہارا خلیجی ممالک میں بھی بڑے شوق سے پڑھے جاتے ہیں ۔ راشٹریہ سہارا اردو کا واحد روزنامہ ہے جو دیش کے مختلف شہروں سے بیک وقت شائع ہوتا ہے۔
آج اردو روزنامے صرف خبر پہنچانے کا ہی ذریعہ نہیں ہے بلکہ بہتر سماج کی تعمیر و تشکیل اور عوام کی رہنمائی میں بھی آگے آگے ہیں ۔ آج ہندوستان سے مختلف زبانوں میں تقریباً پچاس ہزار سے زائد اخبار و رسائل جاری ہوتے ہیں ۔ ان میں اردو اخبار و رسائل کی تعداد صرف تین ہزار ہے ۔ ہندی ، انگریزی اور مرہٹی کے بعد اردو ہی ایسی زبان ہے جس میں کثیر تعداد میں اخبار و رسائل شائع ہوتے ہیں ۔ ان میں پانچ سو سے زائد روزنامے ہیں ، ان میں صرف ایک دو روزنامے ہی ایسے ہیں جن کی تعداد اشاعت لگ بھگ پچاس ہزار کے قریب ہے ۔ ہندوستان کے دس بڑے اخباروں میں ایک بھی اردو کا روزنامہ نہیں ہے ۔ علاقائی زبانوں کے روزنامے جیسے ملیالم ، گجراتی ، تلگو اور بنگالی کے روزنامے لگ بھگ دس ، دس لاکھ کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں ۔ انگریزی کا مشہور روزنامہ "ٹائمز آف انڈیا" ہندوستان کا سب سے بڑا روزنامہ ہے ۔ جس کی تعداد اشاعت 25لاکھ ہے ۔ اگر اردو عوام بھی روزنامے خرید کر پڑھنے کے عادی ہوجائیں تو کوئی عجب نہیں کہ اردو کے ایک دو روزنامے ہندوستان کے دس بڑے روزناموں میں اپنی جگہ بناسکیں ۔

***
Dr. Syed Fazlullah Mukarram
dramsf[@]yahoo.com
مکان نمبر: 537-9-16 ، نزد واٹر ٹینک ، قدیم ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500036۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم

The beginning and evolution of urdu dailies. Article: Dr. Fazlullah Mukarram

1 تبصرہ:

  1. اس قابلِ قدر تحقیقی مضمون میں جامِ جہاں نما کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔ مصنف نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ '' اردو کا پہلا اخبار کلکتہ سے ہی 27مارچ 1822ء میں منشی سداسکھ کی ادارت میں شائع ہوا۔''

    جواب دیںحذف کریں