شاعری: جمیل نظام آباد ی کا شعری سفر نظام آباد سے شروع ہوتا ہے۔ مغنی صدیقی کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ محمد ایوب فاروقی صابرؔ سے بھی مشورے لیتے رہے۔ دائرہ ادب کے تحت نظام آباد میں کئی مشاعرے کروائے۔ ان کی شاعری زندگی کی ترجمان ہے۔
جمیل نظام آبادی کی شاعری سے متعلق علی احمد جلیلی کا کہنا ہے کہ"قدامت کو نئے جذبات اور احساسات سے ہم آہنگی کرنے کی کوشش ان کے کلام میں ملتی ہے وہ زمانے کی بدلتی ہوئی قدروں سے آشناہیں ان کا طرز ادا پسندیدہ اور خوشگوار ہے ۔ انہوں نے اپنے کلام کویاس ونامرادی کا مرقع بنایا ہے اور نہ ہی عیش و نشاط کے حجرے سے آراستہ کیے ہیں سادگی اورصفائی کے وہ قائل ہیں۔تشبیہات واستعارات پر سہل نگاری کو ترجیح دیتے ہوئے شاعری کے لئے موزوں طبع رکھتے ہیں"۔
جمیل نظام آبادی دراصل ایک فرد کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ ادب سے انکی دلچسپی رواں ہے لیکن وہ شعر وشاعری کے میدان کے مرد مجاہد ہیں جنہوں نے شہرنظام آباد میں پچھلے چار دہوں سے اردو کی شمع کو روشن رکھا ہے اور اپنے فن کی بدولت شہرت کی منزلیں طئے کی ہیں وہ ایک کہنہ مشق ، شفیق استادشاعر ہیں۔
جمیل نظام آبادی کی شاعری فکری اور ذہنی تخیل کی ترجمان ہیں۔ان کا یہ شعر
تو نے میرے ہاتھ میں پتھر تھمایاتھا مگر میں نے اس کو کردیا ہے آئنہ اے زندگی
جمیل نظام آبادی کی قلندر صفت شخصیت سے متعلق جناب اقبال متینؔ رقمطراز ہیں۔
"ایسا قلندر صفت شخص جو ماہنامہ گونج کے توسط سے بغیر کسی ذہنی تحفظ و تخصیص کے اضلاع میں رہنے والے ایسے شاعروں اور نثرنگاروں کوجن کی شعری اور نثری اظہار کی توانائی ان کی تشہیر و توقیر کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے سبب اپنی پہچان کو ترستی تھی جمیل نظام آبادی کے نظر انتخاب سے بار پاتی رہی اور گونج کا وسیلہ انکی شناخت کا مرہون منت ٹہرا۔شعروادب کی خدمت کے اس بے لاگ جذبے سے جمیل نے ان ہم عصر تخلیق کاروں کواپنالیا اور بالالتزم ان کو متعارف کرواتا رہا۔نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ"۔(دل کی زمین پرایک اجمالی نظر،ص5)
پروفیسرمجید بیدار جمیل نظام آبادی کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"جمیل نظام آبادی نے حسیت کی شاعری کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے عمومی اور ذاتی کرب کو کبھی خصوصی اور عوامی کرب بننے نہیں دیا۔ اسلام نے ضبط نفس کی تعلیم دی اور صبر و استقامت کے دامن کوتھامے ہوئے جمیل نظام آبادی میں اپنی شاعری میں خیالات کی حسیں وجمیل دنیا سنوارنے کے ساتھ ساتھ صابر و شاکر رویوں کے علمبردار نظرآتے ہیں'۔(سب سخن میرے،ص9)
جمیل نظام آبادی کی شاعری میں جذبات و احساسات کے اظہار کے طور پر بہت ہی عمدہ اشعار نظرآتے ہیں مثلاً :
آپ پتھر دئے رہے ہیں دیجئے سوغات ہیں ہم کو آئنہ بنانے کا سلیقہ آگیا
اب مرے بچے نہیں ڈرتے کسی طوفاں سے ناوٗ کاغذ کی چلانے کا سلیقہ آگیا
ہم میر ؔ کی غالب ؔ کی وراثت کے امیں مشکل کوکبھی ہو کے حراساں نہیں دیکھا
جمیل نظام آبادی کی شاعری کاخصوصی و صف نعت گوئی بھی ہے انکے اکثراشعار نعت شریف سے تعلق رکھتے ہیں جسکی اہم وجہہ انکی مذاہب سے مضبوط وابستگی اور اللہ کے رسولﷺ کی سیرت طیبہ سے والہانہ محبت کا اظہار ہے۔ نعت کے اشعار ملاحظہ ہوں،
پارساوں سے زیادہ پارسا ہیں مصطفےؐ وہ مقام و مرتبہ و اختیارو احترام
کوئی مشکل پاس میرے آنہیں سکتی جمیل مشکلیں ہیں با خبر مشکل کشا ہیں مصطفےؐ
مرے دل میں محمدؐ ہیں مری آنکھوں میں ہے طیبہ مری آنکھیں بھی روشن ہیں میرے دل میں اجالا ہے
جمیل نظام آبادی کی شاعری میں متعداد اشعار زندگی کے عنوان پر نظر آتے ہیں جس میں اانہوں نے زندگی سے متعلق اپنے احساسات کو پیش کیا ہیں۔
زندگی کیا کہوں کتنے صدمے ہوئے میں نے ماں کو بھی دیکھا ہے مرتے ہوئے
ہم سے ہے زندگی ، زندگی سے ہیں ہم زندگی کے سہانے سفر کی قسم
جیسے بھی ہوسکا ہے سلیقے سے کاٹ دی اس زندگی سے آنکھ چرانا نہیں پڑا
تھا عرصہء حیات بہت تنگ پر جمیلؔ اس نے اٹھا ئے ہیں کئی طوفان زندگی
خوشبو ہے رنگ و نورہے نغمہ ہے زندگی قدرت کااک حسین سا تحفہ ہے زندگی
جمیل نظام آبادی کی شاعری میں حوصلہ خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ زندگی کے نشیب وفراز کامکمل اظہار نظرآتاہے اور انکی شاعری کے موضوعات پر نظرڈالیں تو متانت و سنجیدگی اور محبت دل داری کا رحجان نظر آتا ہے۔
ایک طرف تو جمیلؔ نظام آبادی نے ماہنامہ گونج کے ذریعہ مقامی سطح اور اضلاع کے شعراء اکرام اور نثر نگاروں کو ایک مضبوط پلاٹ فارم فراہم کیا ساتھ ہی انکی تخلیقات کے مجموعہ کی اشاعت کیلئے بھی اپنی بیش بہا صلاحیتوں کو استعمال میں لایا اور انکی تصانیف کو اپنے رسالے اور ادارے دونوں کے ذریعے ادبی دنیا میں پیش کیا ساتھ ہی انہوں نے مقامی شعراء اور ادیب حضرات کو ملک گیر سطح اور ریاستی سطح پر متعارف کروانے کیلئے گونج ادبی البم کی اشاعت بھی عمل میں لائی جو ایک ڈائرکٹری اور شعراء و نثر نگاروں کیلئے انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔
جمیلؔ نظام آبادی کی شاعری کو خراج پیش کرتے ہوئے نظام آباد کے مشہور ومعاروف گری راج کالج کے ڈگری سال اول کے اردو نصاب میں ان کی دوغزلیں شامل کی گئیں۔ اور صدر شعبہ اردو ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے نصاب میں شامل غزلوں کو خود شاعر سے سنئے کے مطابق کالج میں جمیلؔ صاحب کا ایک خصوصی لیکچر رکھا جس میں غزل کے فن اور اردو غزل کے سفر پر گفگتو ہوئی ۔اس طرح جمیل نظام آبادی ایک کہنہ مشق شاعر'اردو کے خاموش خدمت گذار اور اپنی ذات میں انجمن ہمہ پہلو شخصییت کے طور پر اردو کی آنے والی نسلوں کے لئے مثال بن کر پیش ہوتے ہیں۔
***
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeez.sohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeez.sohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل |
Jameel Nizamabadi - a distinctive poet. Article: M.A.A.Sohail
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں