حیدرآباد پولیس ایکشن - حقیقی داستاں کے دوسرے رخ کا انکشاف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-30

حیدرآباد پولیس ایکشن - حقیقی داستاں کے دوسرے رخ کا انکشاف

a g noorani
پولیس ایکشن : حقیقی داستاں کے دوسرے رخ کا انکشاف
نورانی کی کتاب 1948ء سے قبل کے دور کے واقعات کی گہری بصیرت فراہم کرتی ہے

1948 ء میں حیدرآباد پر فوج کشی جسے پولیس ایکشن کے نام سے موسوم کیا گیا تھا ، اس دوران مسلمانوں کے قتل عام پر سند رلال کمیٹی کی رپورٹ کو منطر عام پر لانے کا مطالبہ کی جاتارہاجبکہ بالآخر رازدانہ نوعیت کی رپورٹ کو منظر عام پر لاگیا ۔ اس وقت کوئی بھی فردبرصغیر کی تقسیم کے ایک سال بعد سامق ریاست کے حیدرآباد کے حالات کا واضح بیان کا مطالعہ کرسکتاہے ۔ شہر آفاق قانون داں وسیاسی تبصرہ نگاراے جینورانی نے متنازعہ رپورٹ کو حاصل کیا جو ہنوز دستیاب نہیں تاہم اس کی چند تفصلات گزشتہ سالوں کے دوران منظر عام پر آچکی ہیں ۔ اپنی تازہ ترین تصنیف بعنوان ،حیدرآباد کی تباہی ، میں ماہر قانون نے من وعن حکومت کی ہدایت پر تیار کردہ رپورٹ کو آشکار کیا ہے ۔ پولیس ایکشن کے بعد جو قتل عام کیا گیا تھا اسے منظر عام پر آنے سے روک دیا گیا تھا ۔ تحقیقا تی رپورٹ کو دبادیا گیا اور سارے انتظامی دھانچہ کو تہہ و با لا کردیا گیا تھا۔ اسے منظر عام پر آنے سے روک دیا گیا تھا۔ایک گراں قدر ثقافت کو تباہی و بربادی کا شکا ر بنا یا گیا۔ نورانی نے اپنی کتاب میں ان واقعات کو تحریر کیا ہے جس کی رسم اجراء جمعہ کو عمل میں آئی۔ سفارتی تبادلے : انڈین یونین یا بر صغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں حیدر آباد کے انضمام پر کتابوں کی کوئی کمی نہیں تاہم نورانی نے سرکاری تاریخی بیان کے ذریعہ سقوط حیدر آباد کی داستان کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے اس اقدام میں انہوں نے زیادہ تر آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیور ( محافظ خانہ ) و ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( تحقیقاتی ادارے ) میں دستیا ب اس مواد پر بیشتر انحصار کیا ہے جو ہنوز جائزہ طلب ہے۔ انہوں نے بڑی شدومد کے ساتھ حکومت ہند اور حکومت حیدر آباد کے درمیان برطانوی دور اور ما بعد آذای سفارتکارانہ تبادلوں کا کثرت سے حوالہ دیا ہے۔ نورانی نے بتا یا کہ ہندوستانی بر صغیر میں 15اگست 1947کو برطانوی حکومت کا خاتمہ ہوگیا جبکہ حیدر آباد کا المیہ ایک امر واقعہ تھا۔ صرف سیاستدانی (تدبر) ہی اس ٹال سکتی تھی تاہم اس دور میں اس کا فقدان تھا۔ اپنی 375صفحات پر مشتمل کتاب میں انہوں نے ہندوستانی فوج کی جانب سے ریاست حیدر آباد پر فوج کشی سے قبل کے حالات پر غیر معمولی بصیرت فراہم کی ہے۔ فوجی کاروائی : نورانی نے فوجی کاروائی جسے پولس ایکشن سے موسوم کیا گیا تھا، کی نامو ز ونیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کی جانب سے فوجی کاروائی یا متبادل پر اختلاف رائے پا یا جاتا تھا۔ نہرو اس بات کے خواہاں تھے کہ فوجی متبادل یا کاروائی کو آخری چارہ کار کی حیثیت سے استعمال کیا جائے جبکہ پٹیل اسے اولین ترجیح دینے کے خواہاں تھے ۔ نورانی نے پنڈت نہرو کو ، ہندوستانی قوم پرست، اور پٹیل کو ، ہندو قوم پرست قرار دیتے ہوئے ہندوستان چھوڑو تحریک کے بشمول دیگر متعدد مسائل پر ان کے درمیان اختلافات کی بنظر غائر تو ضیح کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتا یا کہ کس طرح سے نہرو ، آصفجاہی حکمراں نظام کی حکومت کو شدید ناپسند کرتے تھے لیکن شخصی طور پر انہیں نظام سے کوئی بغض و عناد نہیں تھا جبکہ سرادر پٹیل شخصی طور پر حضو ر نظام سے تنفر رکھتے تھے اور نظریاتی طور پر حیدر آباد کی مخلوط ثقافت کے بھی مخالف تھے۔ نہرو، حیدر آباد کے علیحدگی پسندانہ پر خطر اقدام کو ناکام بناتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم سے گریز کے خواہاں تھے تاہم پٹیل اس معاملہ میں پیشرفت کرنا چاہتے تھے۔ پٹیل اس بات کے خواہاں تھے کہ حیدر آباد اور اس کی ثقافت کو پوری طرح تباہ و برباد کردیا جائے۔ نورانی نے اپنی آنے والی کتاب میں اس بات کا انکشاف کیا ہے۔ انہوں نے حیدر آباد کی تباہی و بربادی میں محمد علی جناح کی نتیجہ خیز مداخلت کو بھی منظر عام پر لا یا ہے۔ نورانی نے بتا یا کہ حضور نظام کا جاگیر دارانہ نظام اس قابل تھا کہ اسے منسوخ کردیا جائے تاہم جمہوری نظم میں پر تشدد تبدیلی نے دیر پا نتائج کے ساتھ تبدیلی کی اس کاروائی کو تکلیف دہ بنا دیا تھا تاہم نورانی کو اس بات پر مسرت ہے کہ مخصوص دکنی ثقافت اور اس کی آن بان تہذیب ہنوز زندہ و برقرار رہے۔ انہوں نے بتا یا کہ کسی بھی چیز کی تباہی و بربادی کے دوران ثقافت کو ہی کلیدی اہمیت حاصل رہتی ہے۔

A.G. Noorani’s book The Destruction of Hyderabad provides a rare insight into the events in the run-up to the 1948 Police Action in Hyderabad State

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں