حیدرآباد کی چائے چونکہ دور دور تک مشہور ہے۔ آغا حیدر حسین نے حیدرآباد کی چائے کا جو ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے ، وہی اوپر بیان کیا گیا ہے۔
پروفیسر آغا حیدر حسن کی شخصیت اردو ادب میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ آپ کا تعلق دہلی کے مغلیہ گھرانے سے رہا ہے۔ دہلی کی بیگماتی زبان کے سلسلے میں آغا صاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ آپ حیدرآباد کے نظام کالج میں اردو کے پروفیسر رہ چکے ہیں۔ اپنے زمانے میں قابل اور ہردلعزیز استاد کہلاتے تھے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔
آغا حیدر نے خاکے ، ڈرامے ، کہانیاں ، غرض تقریباً تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تصانیف میں :
- پسِ پردہ
- ندرتِ زبان
- حیدرآباد کی سیر
- دکنی لغت و تذکرہ دکنی مخطوطات
حیدرآباد کی تاریخ کے سلسلے میں ان کی تصنیف "حیدرآباد کی سیر" تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ یوں تو حیدرآباد کی تاریخ کے حوالے سے بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ، لیکن اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ جب قاری اس کا مطالعہ کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ آغا صاحب کی انگلی تھامے ہوئے حیدرآباد کی تاریخی عمارتوں ، محلات ، مساجد ، امام باڑے ، بازار اور یہاں کی تہذیب کا بذات خود مشاہدہ کر رہا ہو۔
آغا صاحب نے اس کتاب میں حیدرآباد کی سماجی ، معاشرتی اور تہذیبی عناصر کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ یہاں کی عمارتیں ، بازار ، لوگوں کی شرافت ، تہذیبی رواداری ، رکھ رکھاؤ ، آداب ، نشست و برخاست ، مذہبی عقائد ، مشاغل ، پھلوں اور مٹھائیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔
حیدرآباد کے شہریوں کی تمیز داری کے علاوہ ان کی ہمدردی اور ایمانداری کی ستائش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہاں کے آدمیوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ مسافر کے ساتھ بڑی ہمدردی اور ایمانداری سے پیش آتے ہیں اور جب تک مسافر رہے اس کے ساتھ رعایت کرتے ہیں۔ دیگر شہروں کی طرح یہاں لٹنے اور منڈے کا ڈر نہیں ، دکاندار بھی تقریباً ایک سخنے ہوتے ہیں۔
لوگوں کی نازک مزاجی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ایک نواب صاحب ایک شاعر کے پاس آئے۔ پانی پیا اور کٹورا ٹیڑھا رکھ دیا۔ شاعر نے یہ دیکھا تو سر پکڑ لیا اور بگڑ کر بولے : "واہ جناب ! آپ کو نواب کس نے بنایا۔ آپ تو اس قابل بھی نہیں کہ کٹورا ہی سیدھا رکھ سکیں۔"
حیدرآباد کے لذیذ کھانوں مثلاً ورقی سموسے ، گلاب جامن ، بریانی وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"یہاں کی بریانی اتنی لذیذ ہوتی ہے کہ کھاتے کھاتے پیٹ بھر جاتا ہے لیکن دل نہیں بھرتا"
ان کے مطابق ، بریانی تو اسی شہر پر ختم ہے۔
یہاں کے پھلوں میں آم کی قسموں مثلاً دودھیا ملغوبہ آم ، بیگن پلی کا بےنشان ، نواب سید ، نیلم پری ، طوطا پری وغیرہ اور سبزیوں میں امبوتھے کی بھاجی ، چکے کی بھاجی ، ڈونڈے امباڑے کی بھاجی وغیرہ کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔
الغرض آغا صاحب کی یہ تصنیف "حیدرآباد کی سیر" واقعی ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس میں انہوں نے اس شہر کی تاریخ اور تہذیب ، رہن سہن ، طور طریقے ، رکھ رکھاؤ ، مذہبی عقائد ، تاریخی عمارتیں ، بازا ، محلے ، گلی کوچے ، فن تعمیر اور نقش نگاری کی باریکیوں کا جائزہ لیا ہے۔ اور یقیناً یہ کتاب اُس وقت کے حیدرآباد کی بھرپور سیر کرواتی ہے۔
Hyderabad ki sair - by: Agha Haider Hasan
AOA, Ismail Sb, yeh Agha sb ki kitabain kahan say mil sakti hain? Main USA main hoon, aur in ki kitabon ki ashadd zururat hai. Shukriya.
جواب دیںحذف کریں