مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں چار ایم فل مقا لوں کے زبانی امتحانات کا انعقاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-29

مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں چار ایم فل مقا لوں کے زبانی امتحانات کا انعقاد

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی‘ شعبۂ اردو میںآج ایم ۔فل اردو کے چار ریسرچ اسکالر س کے زبانی امتحانات (viva voces)منعقدکیے گئے۔جس میں چار ممتحنین پروفیسرسید سجاد حسین ،پروفیسر مظفر شہ میری، پرو فیسر فیروز احمد اور پروفیسر رضوانہ معین نے بالترتیب ارشاد علی ڈار،محمد خوشتر،عرشیہ فرقانہ اور حافظ محمد علی کا زبانی امتحان لیا۔ ان کے بالترتیب نگراں ڈاکٹر بی بی رضا خاتون ،ڈاکٹر نسیم الدین فریس ، ڈاکٹر مسرت جہاں اورڈاکٹر شمس الہدیٰ تھے۔ ارشاد علی ڈار نے اپنے موضوع’’ رسالہ ہمارا ادب کا وضاحتی اشاریہ ‘‘پر مقالہ قلمبند کیا ۔انھوں نے اپنے مقالے کے اہم نکات پر مبنی تلخیص پیش کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیق کے میدان میں وضاحتی اشاریہ کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ جموں وکشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کے زیر اہتمام شائع ہونے والے اس رسالے کی اجرائی کامقصد اردو زبان و ادب کا فروغ اور یہاں کے قلم کاروں کی معیا ری تخلیقات کو ہندوستان کے مختلف ادبی حلقوں تک پہچانا ہے ۔ابتداء میں یہ رسالہ اور اکیڈمی دونوں اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے، لیکن کچھ نا مساعد حالات کے سبب اب ان کی سر گرمیاں ماندپڑگئیں ہیں۔ انھوں نے اپنے تحقیقی مقالے میں ریاست کی دگر گوں صورت حال کے سیاق میں اردو کی موجودہ صورتحال کو تشویشناک قرار دیانیز صورتحال کو بہتر کر نے کے لیے کچھ تجاویز پیش کیں۔علاوہ ازیں ممتحن اور حاضرین کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے۔ ان کا مقالہ محققین اردو زبان و ادب اور ثقافت کے لیے مشعل راہ کا درجہ رکھتا ہے۔دوسرے مقالہ نگار محمد خوشتر تھے جنھوں نے مشہور ناقد’’ کلیم الدین احمد کی خودنوشت سوانح’ اپنی تلاش میں‘کاتنقیدی جائزہ‘‘ پیش کیا اور اپنے موضوع پر تفصیلی اور جامع انداز میںُ پر مغز اور معیاری گفتگو کی۔پروفیسر کلیم الدین احمد کی خودنوشت سوانح حیات تین جلدوں پر اور ہر جلد تقریباّ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔جس میں انھوں نے اپنی مکمل زندگی کے بیشتر واقعات ،سانحات نیز طا لب علمی اور ازدواجی زند گی ،پھر لندن اور فرانس میں قیام اور وہاں کے حالات، رسم ورواج ،طور و طریقے کا بہترین نقشہ کھینچا ہے۔اسی طرح سے ادبی زندگی ،علمی وعملی زندگی ،انتظامی زندگی کے نشیب و فراز کو بھی پیش کیا ہے۔ انھوں نے دنیا کی بت شکنی کی تا ہم اپنی اور اپنے والد کی بعض جگہوں پر بت سازی کر تے دکھائی دیتے ہیں ۔ کلیم الدین احمد نے بہت ساری کتابیں تحریر کیں اور کئی دواوین ومقالات ترتیب دیے۔ چھ جلدوں پر مبنی جامع انگلش اردو ڈکشنری مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ان ہی کا کار نامہ ہے۔ مقالے کی پیش کشی کے بعد سوالات کے جوابات تشفی بخش رہے۔ تیسری مقالہ نگارعرشیہ فرقانہ تھیں جنھو ں نے ’’ رسالہ تجلیّ میں عامر عثمانی کے تبصروں کا تنقیدی جائزہ‘‘(ادبی فن پاروں کے حوالے سے) پیش کیا ۔مقالہ نگار عرشیہ فرقانہ نے اپنے مقالے کو چار ابواب میں تقسیم کیا ،مقالہ کا چوتھا باب سب سے اہم ہے کیونکہ اس میں عامر عثمانی کے تبصروں کا تنقیدی جائزہ لیا گیاہے ۔ممتحن پرفیسر فیروز احمد نے مقالے پر تبصرہ کرتے ہوئے مقالہ نگار سے کئی سوالات کیے۔ علاوہ ازیں شعبے کے دیگر اساتذہ اور طلباء نے بھی سوالات کیے جن کا مقالہ نگار نے اطمینان بخش جواب دیا۔ا س مقالے پر کافی دیر تک بحث ہوئی ۔ چوتھے مقالہ نگار حافظ محمد علی تھے ،جنھوں نے ’’ عثمانیہ کالج کرنول کی تعلیمی وادبی خدمات‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالے کے اہم نکات پر مبنی تلخیص پیش کی۔مقالہ نگار نے شہر کرنول کے تاریخی وتہذیبی پس منظر میں ڈاکٹر عبدالحق اور عثمانیہ کالج کی قومی و ملی اور تعلیمی خدمات پر سیر حاصل بحث کی۔آخر میں ممتحن اور شرکائے پرو گرام نے مقالہ نگار سے چند اہم سوالات بھی کیے۔ایک اہم سوال یہ کیا گیا کہ عثمانیہ کالج کا موجودہ منظر نامہ کیا ہے ،جس کا جواب مقالہ نگار نے کالج کی ترقی اور اردو کی صورت حال پر دلائل کے ساتھ دیا۔ڈاکٹر ابوالکلام صدر شعبۂ اردو نے ممتحنین کا تعارف کرایا نیز نظامت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیے۔صدر شعبہ نے مقالوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ معیار کے اعتبار سے مقالہ کو تین قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے ۔پہلی قسم کے مقالے میں مقالہ نگار اپنے مقالے میں معیاری سوالات قائم کرتا ہے اور ان کا مدلل اور محولہ جواب دیتے ہوئے نتائج اخذکرتا ہے۔دوسری قسم کے مقالے میں سوالات کم اور غیرمعیاری ہوتے ہیں اور جوابات بھی کم اور غیر معیاری ہوتے ہیں۔تیسری قسم کے مقالے میں نہ تو سوالات قائم کیے جاتے ہیں اور نہ ہی جوابات دیے جاتے ہیں بلکہ ان میں صرف تاثرات و تبصرات ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے کہا کے معلوماتی حقائق کی فراہمی اور ان کا تنقیدی تجزیہ نیزتجاویز و آراء کسی بھی اچھے مقالے کے خصائص ہوتے ہیں۔ اس موقعے پر ناظم کتب خانہ ڈاکٹرعباس خان،محمدشاہد اور عبدالمجید کے علاوہ ریسرچ اسکالرس،طلبا وطالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔یہ پروگرام ڈاکٹریاسمین محمدی بیگم صدر شعبۂ اردو بنگلور، یونیورسٹی کے سانحہ ارتحال پر دو منٹ کی خاموشی کے ساتھ اظہارتعزیت اور دعائے مغفرت پر ختم ہوا۔

ڈاکٹر محمد فریاد
انچارج پبلک ریلیشنز آفیسر

Viva voce of 4 M.Phill thesis in MANUU

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں